تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی

تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی

تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی پر انڈیا کے خدشات

امریکی بحریہ نے اتوار کے روز اعلان کیا ہے کہ اس کے دو جنگی جہاز آبنائے تائیوان سے گزر رہے ہیں۔ یہ اعلان امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے تائیوان کے حالیہ دورے کے دوران چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان آیا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کے دو گائیڈڈ میزائل کروزر یو ایس اینٹیٹم (SS Antietam ) اور یو ایس ایس چانسلروائل (USS Chancellorsville) بین الاقوامی پانیوں کے ذریعے نیویگیشن کی آزادی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب اتوار کو ہی چین نے کہا کہ وہ دونوں جہازوں کی نگرانی کر رہا ہے، وہ مستعد ہے اور کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

امریکی بحریہ نے ایک بیان میں کہا کہ آبنائے تائیوان سے گزرنا ‘ایک آزاد اور اوپن ہند-بحرالکاہل کے لیے امریکی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔’

امریکی بحریہ نے یہ بھی کہا کہ یہ بحری جہاز آبنائے تائیوان کی ایک ایسی گزرگاہ سے گزر رہے ہیں جو کسی بھی ساحلی ریاست کے علاقائی سمندری حدود سے باہر کا علاقہ ہے۔

چین تائیوان پر دباؤ بڑھا رہا ہے

گذشتہ کئی سالوں سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے بحری افواج والے جہاز آبنائے تائیوان سے باقاعدگی سے گزرتے رہے ہیں۔

لیکن نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے دوران چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب چین نے فوجی مشقوں کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔

اس کشیدگی کے باعث اب ان دونوں امریکی جنگی جہازوں کا آبنائے تائیوان سے گزرنا دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے بحران کے طور پر سامنے آیا ہے۔

اتوار کو تائیوان کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس نے اپنے ارد گرد 23 چینی طیاروں اور آٹھ چینی جہازوں کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے۔

ان 23 طیاروں میں سے سات نے آبنائے تائیوان کی مڈلائن کو عبور کیا جسے تائیوان اور چین کے درمیان ایک غیر رسمی حد سمجھا جاتا ہے۔

امریکی جہاز

آبنائے تائیوان کیا ہے؟

آبنائے تائیوان ایک 180 کلومیٹر وسیع پانی کا حصہ ہے جو تائیوان کے جزیرے اور چین کے فوکیئن علاقے کے درمیان واقع ہے۔

سولھویں صدی کے آخر میں پرتگالی ملاحوں نے اس آبنائے کا نام فارموسا رکھا جس کا مطلب خوبصورت ہے۔ لیکن اب زیادہ تر ممالک اسے آبنائے تائیوان کے نام سے جانتے ہیں۔

یہ آبنائے جنوبی بحیرہ چین کا حصہ ہے اور شمال میں مشرقی بحیرہ چین سے جا ملتا ہے۔

چین آبنائے تائیوان کو اپنے دائرہ اختیار میں سمجھتا ہے اور اسے اپنا اندرونی علاقائی پانی سمجھتا ہے۔ اس لیے چین کو اس آبنائے سے کسی بھی غیر ملکی جہاز کے گزرنے پر اعتراض ہے۔ امریکہ اور دیگر کئی ممالک چین کے اس موقف کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔

‘چین کے عزائم اور جارحیت کو چیلنج’

تائیوان پبلک اوپینین فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو پال ہوانگ نے بی بی سی ورلڈ سروس کو بتایا کہ امریکہ اور خطے کے بیشتر ممالک آبنائے تائیوان کے زیادہ تر حصے کو بین الاقوامی پانی سمجھتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کے تابع ہے۔ اس کے لیے ان کے بحری جہاز بشمول جنگی بحری جہازوں کو آزادی کے ساتھ آبنائے سے گزرنے کا حق حاصل ہے۔

بائیڈن

ان کا کہنا ہے کہ ‘چینی حکومتی عہدیداروں نے حال ہی میں اس طرح کے ریمارکس دیے ہیں کہ وہ آبنائے تائیوان کو چین کی اندرونی آبی گزرگاہ سمجھتے ہیں۔ واضح طور پر ان بیانات کو امریکہ نے سختی سے مسترد کر دیا ہے اور ہمارے سروے میں پتا چلا ہے کہ 81 فیصد تائیوانیوں نے بھی بڑی اکثریت کے ساتھ اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔’

پال ہوانگ کا کہنا ہے کہ تائیوان کے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ آبنائے تائیوان چین کی اندرونی آبی گزرگاہ ہے۔ ‘اس لیے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تائیوان کے لوگوں کی اکثریت امریکی بحریہ اور مغربی بحریہ کے جنگی جہازوں کا استقبال کرے گی کیونکہ وہ ان سرگرمیوں کو چین کے عزائم اور جارحیت کو چیلنج کرنے کے لیے تائیوان کی حمایت کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔’

ہوانگ کے مطابق یہ مکمل طور پر ایک دوسرا سوال ہے کہ کیا امریکی سرگرمیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک جنگ کے دوران تائیوان کے دفاع کے لیے آئیں گے۔

امریکی جہاز

اس بحران کا کیا اثر ہوگا؟

پروفیسر ہرش وی پنت نئی دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سٹڈیز اینڈ فارن پالیسی شعبے میں وائس چیئرمین ہیں۔

ان کے مطابق آبنائے تائیوان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر عالمی تجارت اور عالمی معیشت پر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر کوئی فوجی مشق آبنائے تائیوان میں کی جاتی ہے تو یہ صرف آبنائے تائیوان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات بڑے پیمانے پر ہوں گے۔’

پروفیسر پنت کا کہنا ہے کہ ‘دنیا کے بہت سے ممالک کی تشویش یہ ہے کہ عالمی معیشت کی حالت پہلے ہی خراب ہے اور اگر ہم آبنائے تائیوان کے ارد گرد سی لائنز آف کمیونیکیشن کو دیکھیں تو زیادہ تر تجارتی جہاز وہیں سے گزرتے ہیں تو اس سے تجارت کا بہاؤ متاثر ہوگا۔ اسی وجہ سے آبنائے تائیوان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ اسٹریٹیجک طور پر اگر چین آبنائے تائیوان پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو امریکہ کے لیے بحیرہ جنوبی چین اور جنوبی بحر الکاہل میں چین کے تسلط کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘لہذا، اسٹریٹیجک اور اقتصادی طور پر یہ ضروری ہے کہ چین سے نمٹا جائے یا چین اس حصے کو رکھنے کے قابل ہی نہ ہو سکے جسے وہ اپنے زیر تسلط رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔’

پروفیسر پنت کے مطابق اگر چین تائیوان پر قبضہ کر لیتا ہے تو یہ ایک مختلف بات ہو گی کیونکہ تائیوان دنیا میں سیمی کنڈکٹرز بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کا اثر عالمی معیشت پر پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘آبنائے تائیوان کا بحران عالمی تجارت کو متاثر کرے گا۔ چند ہفتے قبل جب چین نے وہاں فوجی مشقیں کیں تو فضائی حدود کو بھی بند کر دیا گیا، اس لیے اگر یہ مسئلہ طول پکڑتا ہے تو فضائی حدود اور پروازوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

چین تائیوان

بھارت کے کیا خدشات ہیں؟

‘ون چائنا پالیسی’ چین کے موقف کو سفارتی طور پر قبول کرنا ہے کہ وہاں صرف ایک چینی حکومت ہے۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ تائیوان کے جزیرے کے بجائے چین کے ساتھ رسمی تعلقات برقرار رکھتا ہے۔ چین تائیوان کو ایک الگ صوبے کے طور پر دیکھتا ہے کہ اور وہ اسے چین کی سرزمین سے دوبارہ جوڑنا چاہتا ہے۔

انڈیا ‘ون چائنا پالیسی’ پر عمل پیرا ہے اور تائیوان کے ساتھ اس کے تعلقات غیر رسمی ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں سے انڈیا نے ‘ون چائنا پالیسی’ کی کھلی حمایت کرنا چھوڑ دیا ہے۔

نینسی پیلوسی کے تائیوان دورے کے چند دن بعد 12 اگست کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ‘انڈیا کی متعلقہ پالیسیاں واضح اور مستقل ہیں۔ انھیں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔’

پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ انڈیا کا اب تک کا موقف یہی ہے کہ وہ ‘ون چائنا پالیسی’ پر عمل پیرا ہے۔ ‘وہ پالیسی اب دباؤ میں آ رہی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انڈیا نے سری لنکا میں تائیوان کے حوالے سے کیا ردعمل ظاہر کیا ہے۔’

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 27 اگست کو سری لنکا میں انڈین ہائی کمیشن کے ترجمان نے سری لنکا میں چینی سفیر کے ایک مضمون سے متعلق سوالات کے جواب میں تائیوان کی ‘ملیٹرائزیشن’ کی بات کی تھی۔

اس بیان سے قبل تائیوان کے معاملے پر انڈیا کی وزارت خارجہ نے صرف اتنا کہا تھا: ‘بھارت، دیگر کئی ممالک کی طرح حالیہ پیش رفت پر فکر مند ہے۔ ہم تحمل کا مظاہرہ کریں گے، صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے یکطرفہ کارروائی سے گریز کریں گے، کشیدگی کو کم کریں گے۔ اور ہم خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کی کوششوں پر زور دیتے ہیں۔’ بیان میں تائیوان کے ‘ملیٹرائزیشن’ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

مودی

انڈیا پر سفارتی دباؤ بڑھے گا

پروفیسر پنت کا کہنا ہے کہ اب انڈیا پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ اس صورتحال میں کیسا موقف اختیار کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘یوکرین میں انڈیا کے سفارتی موقف پر مغربی ممالک غور کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ ان مغربی ممالک کو تائیوان کے بارے میں کیسے قائل کریں گے۔ پھر انڈیا پر سفارتی دباؤ بڑھے گا اور انڈیا کو اس پر کوئی پوزیشن لینا ہوگی۔ اس کا براہ راست اثر بھارت پر ہو گا کیونکہ بھارت کو بتایا جائے گا کہ اگر تائیوان میں کوئی بحران ہے اور آپ کو چین کے ساتھ بھی پریشانی ہے اور آپ اس پر کوئی پوزیشن نہیں لے رہے ہیں تو آپ کو بحرانی صورت حال میں سفارتی حمایت کہاں سے ملے گی۔ اس لیے بھارت کو ان چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا۔’

اس پورے معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو انڈیا کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ہرش پنت نے کہا: ‘صاف صاف کہا جائے تو، اگر تائیوان کے حوالے سے بحران برقرار رہتا ہے تو یہ انڈیا کے لیے اچھا ہے کہ چین کی توجہ دوسری طرف ہے اور اگر تائیوان کا بحران برقرار رہتا ہے تو انڈیا کے خلاف چین کی طرف کوئی محاذ نہیں کھلے گا۔’

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لیکن اگر تائیوان اور چین کے درمیان بحران جاری رہا تو اس کا معاشی اثر انڈیا پر بھی پڑے گا۔ انھوں نے کہا: ‘بھارت کی تجارت پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہے تو اس کا کیا ہوگا؟ سی لائنز آف کمیونیکیشن کی سکیورٹی کا کیا ہوگا؟’

وہ کہتے ہیں: ‘بھارت کے لیے فوری طور پر کوئی اقتصادی بحران نہیں لیکن اگر تائیوان کی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کو نقصان ہوا تو ہندوستان کو بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، معیشت اور اسٹریٹیجک آپشنز پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *