سیاسی نظام پر عدم اعتماد یا سوشل میڈیا پر مہم: پاکستان بھر میں ماضی کے برعکس انتخابی گہما گہمی میں کمی کیوں؟
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں صرف 18 دن باقی رہ گئے ہیں لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ ملک کے سڑکوں، چوراہوں پر جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے بینرز اور پوسٹرز کچھ کم لگے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی اگر نظر دوڑائی جائے تو یہاں بھی ان سیاسی جماعتوں کے اشتہارات کی بھرمار دکھائی نہیں دیتی۔
اگر ماضی کے انتخابات کے وقت کو یاد کریں تو ٹی وی و اخبارات کے اشتہاروں میں کہیں بلے کا زور تھا، کہیں شیر کی دھاڑ تو کبھی تیر کا نشانہ مگر اس بار نہ کوئی اشتہارات کی بھرمار ہے اور نہ ہی جلسے جلوسوں اور انتخابی دفاتر کے باہر بیٹھے افراد کی گہما گہمی۔ مگر کیوں؟
ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں تین ہفتوں سے بھی کم وقت رہ جانے کے باوجود سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں میں بھی جوش و خروش کچھ کم معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان میں تقریباً تمام ہی چھوٹی، بڑی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار انتخابی مہم کی تیاریوں کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن جلسوں سمیت سیاسی سرگرمیوں میں واضح کمی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس مشاہدے سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاسی رہنماوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں انتخابی گہما گہمی کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں انتخابات سے متعلق لوگوں میں غیریقینی، لوگوں کا مبینہ طور پر سیاست سے اعتماد اُٹھ جانا، موسم کی سختی اور ایک بڑی سیاسی جماعت کا انتخابی دنگل سے بظاہر باہر ہونا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ یہ واضح کر چکے ہیں کہ انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے اور ان میں کسی قسم کا التوا نہیں ہوگا۔ پھر انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کیوں پائی جاتی ہے؟
پاکستان کے ایوانِ بالا میں اب تک تین قراردادیں پیش کی گئیں جس میں انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے سکیورٹی کی خراب صورتحال اور موسم کی شدت کو جواز بنایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’آپ کا یہ مشاہدہ درست ہے کہ اس بار انتخابی گہما گہمی میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی وجہ لوگوں میں انتخابات کے حوالے سے پھیلی ہوئی غیر یقینی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لوگ اکثر ہم سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ ہم انھیں بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی وجہ ہمیں تو نظر نہیں آتی جس کے سبب الیکشن تاخیر کا شکار ہوں۔‘
واضح رہے کہ الیکشن سے قبل قوانین کے تحت تمام امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے 54 دیے جاتے ہیں۔
’پنجاب میں سیاسی ہلچل اس لیے نہیں کیونکہ ہمارے مقابلے میں ہی کوئی نہیں‘
سیاسی شخصیات اور پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو انتخابی عمل سے متعلق درپیش مسائل بھی ایک وجہ ہے جس کے باعث الیکشن کا جوش و خروش ماضی کی طرح نظر نہیں آ رہا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما اعظمیٰ بخاری نے پنجاب میں سیاسی جوش و خروش میں کمی کی سب سے بڑی وجہ موسم کی سختیوں اور ’سرد موسم‘ کو قرار دیا۔
اعظمیٰ بخاری نے پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر انتخابی گہما گہمی میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں سیاسی ہلچل اس لیے بھی نہیں کیونکہ یہاں ہمارے مقابلے میں ہی کوئی نہیں، ایک دوسری جماعت ہے جو کہ گراونڈ پر موجود نہیں اور ان کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ بھی عظمیٰ بخاری کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ’عمران خان صاحب نے کچھ ایسے اقدامات کیے جس سے ان کی جماعت کے خلاف ایکشن شروع ہوا اور یہ سب انھوں نے خود کمایا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے اُن کا بھی نقصان ہوا، سیاست کا بھی نقصان ہوا اور یہ عمل ابھی تک جاری ہے۔‘
قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم ابھی شروع کی ہے شاید اس لیے بھی انتخابی جوش و خروش کچھ کم نظر آ رہا ہے۔
واضح رہے سابق وزیراعظم عمران خان سائفر، توشہ خانہ، القادر ٹرسٹ سمیت دیگر کیسز کا سامنا ہے اور وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
’لوگوں میں پری پول رگنگ کے خدشات ہیں‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن اور شہر کے ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے سے آزاد انتخابی امیدوار جبران ناصر کا کہنا ہے کہ لوگوں میں انتخابات سے قبل ’پری پول رِگنگ‘ کے خدشات موجود ہیں۔
’پری پول رِگنگ ایسی ہو رہی کہ لوگوں کو یہ تو نہیں پتہ کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا لیکن یہ ضرور پتا ہے کہ کون وزیراعظم نہیں ہوگا۔‘
جبران ناصر کے مطابق ’اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس لیول پلیئنگ فیلڈ موجود نہیں ہے اور یہ سب پی ٹی آئی کے وکیل چیف جسٹس کے سامنے بھی کہہ چکے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ ایک آئینی، قانونی اور جمہوری مذاق ہی ہے کہ ایک جماعت کے لوگ آزاد حیثیت سے ایک پارٹی کے منشور تلے انتخابات لڑیں گے لیکن پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد وہ آزاد ہوں گے کہ کون سی جماعت میں شمولیت اختیار کریں۔‘
واضح رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قراد دیا تھا جس کے بعد جماعت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا تھا جہاں عدالتِ اعظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا اور پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ’بلا‘ ان سے چِھن گیا تھا اور پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اعلان کیا تھا کہ اب ان کے لوگ بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔
’انتخابی گہماگہمی کے لیے سیاسی مقابلہ ضروری ہے جو ہوتا نظر نہیں آ رہا‘
پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ضیغم خان کا خیال ہے کہ انتخابی گہما گہمی کے لیے سیاسی مقابلہ ضروری ہے لیکن اس بار سیاسی مقابلہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
انھوں نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’سندھ میں کراچی اور دیگر شہری علاقوں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی پلڑہ بھاری نظر آتا ہے۔ کچھ علاقوں میں ایم کیو ایم ہے اور کچھ علاقوں میں پیرپگارا اور وہیں مقابلہ ہوتا ہے جس سے سیاسی گہما گہمی نظر آتی ہے۔‘
ضیغم خان مزید کہتے ہیں کہ ’پنجاب کا صوبہ سندھ کے مقابلے میں تھوڑا مختلف اس لیے ہے کیونکہ وہاں ہمیشہ انتخابات میں دو بڑی پارٹیوں کا مقابلہ ہوتا آیا ہے۔‘
’پہلے یہ مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہوتا تھا اور پچھلے تقریباً دو انتخابات میں ہم نے یہ مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوتا ہوا دیکھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت سیاسی اکھاڑے میں موجود ہی نہیں۔
’پنجاب میں اب صرف ایک ہی پہلوان ہے، جب برابر کی ٹکر ہی نہیں تو سیاسی گہما گہمی کیسے نظر آئے گی؟‘
لوگوں کا سیاست سے اُٹھتا ہوا اعتماد یا سوشل میڈیا عدم دلچسپی کی وجہ؟
پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما اعظمی بخاری اور کراچی سے آزاد امیدوار جبران ناصر کہتے ہیں کہ انتخابی گہما گہمی کا اندازہ صرف سڑکوں پر ہونے والی سرگرمیاں دیکھ کر لگانا بھی درست نہیں۔
اعظمیٰ بخاری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’زمانہ اب جدید ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتیں لوگوں تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا سمیت دیگر تکنیکوں کا استعمال کرتی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت کسی بھی پارٹی کے پاس منشور دستاویزی صورت میں موجود نہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ ن ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کی مدد سے تیار کردہ منشور 27 جنوری کو ایک بڑی تقریب میں متعارف کروائے گی۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریکِ لبیک پاکستان اور دیگر جماعتیں اپنے منشوروں کا اعلان کر چکی ہیں، تاہم بی بی سی ان کے دستاویزی شکل میں ہونے یا نہ ہونے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
جبران ناصر کہتے ہیں کہ ’ٹیکنالوجی کے دور میں ضروری نہیں کہ اب انتخابات کے سلسلے میں کارنر میٹنگز گلیوں یا سڑکوں میں ہی ہو۔‘
’اس جدید دور میں ہوسکتا ہے کہ کارنر میٹنگز واٹس ایپ گروپ میں ہو رہی ہوں یا امیدوار انسٹاگرام یا سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغام ووٹرز تک پہنچا رہے ہوں۔‘
پاکستانی پیپلز پارٹی پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ انتخابی گہما گہمی نہ ہونے کا سبب سیاست میں لوگوں کی عدم دلچسپی کو بھِی سمجھتے ہیں۔
’کچھ ایسا لگ رہا ہے اور اگر یہ تاثر درست ہوا تو یہ بڑی غلط بات ہوگی، تکلیف دہ بات ہوگی کہ لوگوں کا سیاست سے تعلق اُٹھ رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بھی ہوا ہے کہ ہم نے سیاست کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا اور ہم سیاست کو بدنام کرتے گئے۔‘
وہ کہتے ہیں ’سیاست سے لوگوں کا اعتماد اٹھنے کے کسی حد تک قصوروار سیاستدان بھی ہیں کسی حد تک ہے لیکن تمام ذمہ داری نہیں ہے۔‘
جب سیاست میں عدم دلچسپی سے متعلق سوال جبران ناصر سے کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ کراچی کے ایک صوبائی حلقے پی ایس 110 سے امیدوار ہیں اور ان کا انتخابی منشور ’سروس ڈیلیوری‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک موبائل فون ایپ کے ذریعے حلقے کے عوام کو 25 گھنٹے ان کے منتخب نمائندے تک رسائی دینا چاہتے ہیں۔‘
جبران ناصر مزید کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کا احتساب کرنے سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کریں اور ’عوامی خدمت کے ذریعے لوگوں کا اعتماد انتخابات اور سیاست پر بحال کریں اور یہ سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا خیال ہے کہ ملک اس وقت ایک ’سیاسی بحران‘ کا شکار ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ’ان کے مسائل اور پریشانیاں حل نہیں ہو رہیں۔‘
لیکن وہ اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے کہ لوگوں کا اعتماد سیاسی عمل سے مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس سوال کا جواب الیکشن میں ہی ملے گا اگر ووٹر ٹرن آوٹ کم ہوا تو یہ بات کہی جا سکے گی کہ لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ اس حد تک کم ہوگا۔‘