سوڈان میں جھڑپیں امریکہ اور برطانیہ

سوڈان میں جھڑپیں امریکہ اور برطانیہ

سوڈان میں جھڑپیں امریکہ اور برطانیہ کے سفارت کاروں کا انخلا مکمل

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ فوج نے سوڈان میں جاری جھڑپوں کے باعث امریکی سفارت کاروں اور ان کے خاندانوں کا خرطوم سے انخلا مکمل کر لیا ہے۔ جبکہ برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے کہا ہے کہ برطانوی سفارت کاروں اور ان کے خاندانوں کا پیچیدہ مگر ایک تیز آپریشن کے ذریعے انخلا کیا گیا۔

ایک امریکی اہلکار نے بتایا ہے کہ یہ آپریشن ’تیز رفتار اور مکمل تھا۔‘

اطلاعات کے مطابق سو کے قریب افراد کا اتوار کے روز انخلا کیا گیا۔ اس آپریشن میں تین شینوک ہیلی کاپٹروں کو امریکی سفارت خانے کے قریب اتارا گیا تا کہ یہ افراد ان میں سوار ہوسکیں۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ بھی اپنے شہریوں سمیت دیگر یورپی یونین کے ملکوں اور اتحادیوں کے لوگوں کا سوڈان سے انخلا کر رہے ہیں۔

تاہم سوڈان کی ریگولر فوج اور اس کی مخالفت میں قائم نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے کہا ہے کہ انخلا کے قافلے پر فائرنگ کی گئی تھی جب یہ فرانسیسی سفارتخانے سے نکل رہا تھا، لہذا اسے دوبارہ وہاں لوٹنا پڑا۔ انھوں نے اس حملے کا قصوروار ایک دوسرے کو ٹھہرایا ہے۔

سوڈان

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فرانسیسی حکام نے اس پر تبصرہ نہیں کیا کہ آیا کوئی حملہ ہوا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ آپریشن میں جبوتی میں تعینات فرانسیسی فوج شامل ہے اور ان کا ہدف اِن لوگوں کو جبوتی منتقل کرنا ہے۔

نیدرلینڈز، اٹلی، بیلجیئم اور جاپان نے بھی اپنے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے جاری آپریشنز کی تصدیق کی ہے۔

دریں اثنا ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ سوڈان میں انٹرنیٹ سروس قریب پوری طرح نقصان کی زد میں ہے۔ اس سے خرطوم اور دیگر شہروں میں پھنسے لوگوں سے رابطہ بُری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔

سوڈان کی ریگولر فوج اور نیم فوجی دستے آر ایس ایف کے درمیان طاقت کی رسہ کشی کے بیچ ملک کے دارالحکومت میں شدید بمباری ہوئی ہے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔

بائیڈن نے ایک بیان میں بتایا کہ ’آج میرے حکم پر امریکی فوج نے خرطوم سے حکومتی اہلکاروں کے انخلا کے لیے آپریشن کیا۔‘

آپریشن کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس سمس نے کہا کہ نیوی سیلز اور فوج کی سپیشل فورسز پر مشتمل سو سے زیادہ اہلکار جبوتی اور ایتھوپیا سے ہوتے ہوئے سوڈان پہنچے اور گراؤنڈ پر ایک گھنٹے سے کم دورانیے کے لیے رُکےگ

تاحال جنگ بندی کی کوئی علامت سامنے نہیں آئی۔ تاہم یہ ظاہر ہوا ہے کہ آر ایس ایف نے حامی بھری تھی کہ وہ آپریشن کے دوران امریکی ہیلی کاپٹروں پر فائرنگ نہیں کریں گے۔

بائیڈن نے جبوتی، ایتھوپیا اور سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’آپریشن کی کامیابی کے لیے کلیدی کردار ادا کیا‘۔ انھوں نے امریکی سفارتی عملے اور فوج کو بھی داد دی۔

حکام کے مطابق خرطوم میں امریکی سفارتخانہ اب بند ہوچکا ہے۔ ٹوئٹر پر پیغام میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے لیے (تمام) امریکی شہریوں کا انخلا ممکن بنانا محفوظ نہیں۔

سوڈان

سوڈان کے دارالحکومت میں گذشتہ ہفتے سے جاری پُرتشدد واقعات کے دوران غیر ملکیوں کے انخلا کا یہ دوسرا بڑا آپریشن تھا۔

سنیچر کو مصر، پاکستان اور کینیڈا اور خلیجی ممالک کے ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کا سمندری راستے سے انخلا کیا گیا تھا۔ انھیں آپریشن کے بعد جدہ میں سعودی بندرگاہ منتقل کیا گیا۔

بائیڈن نے سوڈان میں جھڑپوں کی مذمت کرتے ہوئے مخالف افواج کے درمیان جنگ بندی پر زور دیا ہے اور فلاحی تنظیموں کی متاثرہ علاقوں تک رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔

کینیڈا کی حکومت نے اپنے شہریوں کو محفوظ مقامات میں پناہ لینے کا کہنا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ شہری اپنے فون چارج رکھیں، کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں اور ’محفوظ راستہ ملے تو ملک چھوڑنے پر غور کریں۔‘

افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں کئی غیر ملکی طلبہ نے مدد کی اپیل کی ہے۔ یہ افراد قریب 60 لاکھ کی آبادی والے شہر خرطوم میں پھنسے ہوئے ہیں۔

فائرنگ اور بمباری سے شہر اور دیگر علاقوں میں بجلی، خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔

فریقین کے درمیان کئی بار جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا تاہم اسے نظر انداز کر کے لڑائی جاری رکھی گئی۔ عید الفطر کے موقع پر بھی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ان واقعات میں 400 کے قریب افراد ہلاک جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اموات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ کئی لوگ ہسپتال تک نہیں پہنچائے جاسکے۔

سنیچر کو سوڈان کی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ غیر ملکیوں کے محفوظ انخلا کے لیے تعاون کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے مطابق جھڑپوں کے باعث 20 ہزار کے قریب افراد، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اپنی حفاظت کے لیے سوڈان کی سرحد عبور کر کے چاڈ پہنچ گئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *