سوشل میڈیا پر بجلی کے بڑھتے بلوں کا چرچا

سوشل میڈیا پر بجلی کے بڑھتے بلوں کا چرچا

سوشل میڈیا پر بجلی کے بڑھتے بلوں کا چرچا ’سرکاری طبقے کو بھی بل بھرنے کا موقع دیا جائے

’ایسے وقت میں جب پاکستان کے پہلے سے غریب طبقے پر بوجھ ڈالا جارہا ہے، ان حالات میں یہ لازم ہے کہ ان اداروں پر سوال اٹھایا جائے جن کو مفت آسائشیں دی جارہی ہیں کہ انھیں یہ آسائشیں مفت کیوں ملیں؟‘

پاکستان میں ایک جانب جہاں بجلی کے بلوں پر احتجاج کے بعد نگران وزیر اعظم نے ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ بحث بھی جاری ہے کہ پاکستان میں کون سے طبقات یا اداروں کو مفت یا کم نرخوں پر بجلی سمیت مراعات فراہم کی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ بجلی کے نرخ میں متواتر اضافے، فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر رواں ماہ توقع سے زیادہ بجلی کے بل ملنے کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہوئے جس کے بعد سنیچر کے دن نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ انھوں نے ’بجلی کے بھاری بِلوں کے معاملے پر ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی جائے گی اور صارفین کو بجلی کے بِلوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔‘

نگران حکومت عوام کو ریلیف دے پائے گی یا نہیں، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایک بڑا طبقہ یہ بحث کرتا نظر آیا کہ سرکاری ملازمین کو ملنے والی مفت بجلی کی سہولت سمیت دیگر مراعات کو ختم کرنا ہی اس تمام تر معاملے کا حل ہے۔

صحافی حامد میر نے ٹوئٹر پر ایک بجلی کا بل شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ واپڈا کے ایک ملازم کا بل ہے جس نے 1200 یونٹ بجلی استعمال کی اور بل صرف 716 روپے ، ان واپڈا اور ڈسکو والوں کے بلوں کا بوجھ بھی مہنگائی کے مارے عوام اٹھا رہے ہیں ان کو دی جانے والی سبسڈی کب بند ہو گی؟‘

پاکستان

دوسری جانب سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر نے ایک پیغام میں لکھا کہ ’پی ڈی ایم حکومت کے دور میں کسی وزیر کے سرکاری گھر یا پھر اراکین پارلیمنٹ کی لاجز میں مفت بجلی نہیں دی گئی۔‘

خرم دستگیر کے اس ٹویٹ پر ایک صارف نے سوال کیا کہ ’کیا محکمہ بجلی کے افسران کو مفت بجلی نہیں ملتی اور کیا فوجی افسران کو کم نرخوں پر بجلی فراہم نہیں کی جاتی؟‘

بی بی سی اردو نے ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر پاکستان میں کون سے اداروں کو مفت یا کم نرخوں پر بجلی فراہم کی جاتی ہے۔

تاہم اس سوال کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے وائس چانسلر ندیم الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہر ماہ کے اوائل میں ملنے والی تنخواہ میں حکومت کی جانب سے دی گئیں آسائشوں کا تذکرہ نہیں ہوتا۔‘

ندیم الحق کہتے ہیں کہ ’ہر چھوٹی چھوٹی آسائش کے بارے میں پتا بھی نہیں چلتا کہ کسے ملتا ہے اور کہاں ملتا ہے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’اس سسٹم کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘

پاکستان میں معاشی مراعات

مخصوص مراعات کا سراغ لگنا مشکل ضرور ہے، لیکن پاکستان میں معاشی مراعات کا مجموعی تخمینہ موجود ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور نیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے 2021 میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ کیسے پاکستان کے امرا، جاگیردار، سیاسی قائدین اور فوج کو ملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافی خرچے کا باعث بنتے ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے مختلف اداروں کے افسران کو اکثر ماہانہ تنخواہ کے ساتھ کئی مراعات ملتی ہیں جن میں مفت بجلی بھی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ایک ہائی کورٹ کے جج کو اپنی ملازمت کے دوران مفت گھر ملتا ہے، جس کا کرایہ حکومت دیتی ہے جبکہ بجلی کا بِل اور سرکاری گاڑی بھی حکومتی کھاتے میں آتے ہیں۔

پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اگر جج اپنے گھر میں رہتے ہیں تو ان کے گھر کا اضافی خرچہ، جو دستاویزات میں تقریباً 65 ہزار روپے ماہانہ رقم بتائی جاتی ہے، مختص کردی جاتی ہے۔

اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی اسی کھاتے میں ’اضافی‘ کے نام سے شامل کر دیے جاتے ہیں جو حکومت بھرتی ہے۔

پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح بجلی کے اداروں میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران کو مفت بجلی دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ مفت ٹیلیفون، مفت پٹرول اور مفت گھر بھی دیا جاتا ہے۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف، کور کمانڈرز اور فوج کے دیگر اعلیٰ افسران کو بھی گھر، بجلی اور گاڑیوں جیسی آسائشیں دی جاتی ہیں، جن کو پاکستان کے قوانین میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مارچ کے مہینے میں پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کی ایک اجلاس میں پاور ڈویژن کو 16 سے 22 گریڈ کے سرکاری افسران کو مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کمیٹی چیئرمین نور عالم خان نے کہا تھا کہ اس اقدام سے سالانہ نو ارب روپے کی بچت ہو گی تاہم اس تجویز پر عمل نہیں ہو سکا۔

پاکستان

’اصلاحات کے بجائے مذید مراعات کے حصول پر توجہ دی گئی‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ندیم الحق نے کہا کہ ’پاکستان کی انتظامی مشینری کو اگر دیکھا جائے، خاص طور سے اس کی بیوروکریسی کو، تو اس پر برطانوی راج کی واضح چھاپ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آج تک پاکستان میں 29 کمیشن بنائے گئے ہیں تاکہ ایک واضح ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکے اور خرچے کم کیے جاسکیں۔ یہ تمام تر ڈھانچے ناکام ہوئے کیونکہ ریفارم لانے کے بجائے زیادہ تر توجہ مزید مراعات اور آسائشوں کے حصول میں صرف کی گئی۔‘

لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے بڑے اداروں کے افسران کو ملنے والی مفت بجلی اور دیگر آسائشوں کو کم کرنے سے کیا فرق پڑے گا تو اس کا جواب ملک کی معاشی صورتحال پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے کچھ یوں دیا کہ ’ایسے وقت میں جب پاکستان کے پہلے سے غریب طبقے پر بوجھ ڈالا جارہا ہے، ان حالات میں یہ لازم ہے کہ ان اداروں پر سوال اٹھایا جائے جن کو مفت آسائشیں دی جارہی ہیں کہ انھیں یہ آسائشیں مفت کیوں ملیں؟‘

اسی طرح لاہور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن رضوان الحق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف کی شرائط نہ ہوتیں تو یہ بھی نہیں پتا چلنا تھا کہ کس کو کیا ملتا ہے۔ یہ بات صرف بجلی کی آسائش ملنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سوال پر ہے کہ یہ مفت آسائش ملنے کا آخر جواز کیا ہے؟ فائدہ ہونا یا نہ ہونا ایک بڑی بحث کا حصہ ہے۔‘

شہباز رانا نے کہا کہ ’یہ آئی ایم ایف کی بات نہیں ہے بلکہ اگر پاکستانی معاشرے کو امیر طبقے کی جکڑ سے نکالنا ہے تو یہ سوال پوچھنا اور ایسے اقدام کرنا جن سے ان کو بھی بِل بھرنے کا موقع دیا جائے ضروری ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *