سوات کے نوجوان واجد علی نے زندگی اور موت کے درمیان کا پُل‘ صرف 48 گھنٹوں میں کیسے بنایا؟
جس دن سیلاب کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع بحرین کا پُل تباہ ہوا اور اس علاقے کا دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا تو 27 سالہ واجد علی اپنی جان بچانے کے لیے کہیں اور بھاگنے کی بجائے اپنی ورکشاپ گئے، وہاں سے تاریں اور پُلی کا سامان اکھٹا کیا اور اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ انھی دستیاب وسائل (پُلی اور تاروں) کی مدد سے لوگوں کو ریسکیو کریں گے۔
26 اگست کو جب بحرین میں سیلاب آیا تو اسی دن سے واجد علی نے اپنی ریسکیو کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ پُلی سے کام تو چل جاتا ہے لیکن جب آپ تیز دریا کے اُوپر رسی یا تار کی مدد سے چلنے والی پُلی کے ذریعے لٹکے ہوئے آ رہے ہوتے ہیں تو یہ بڑے خطرے کا کام بھی ہوتا ہے۔
مگر واجد نے فقط پلی اور رسیوں کی مدد سے بحرین کے مختلف محلوں، جو سیلابی پانی کے باعث ایک دوسرے سے کٹ چکے تھے، کے لگ بھگ 700 لوگوں کو بچایا۔
بی بی سی اردو کے ساتھ بحرین کے تباہ شدہ بازار سے واجد علی نے بات کرتے ہوئے اس کا احوال کچھ اس طرح سُنایا۔ ’جب دیکھا کہ لوگ سیلاب کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں تو میں نے سوچا کہ اُن کی جلد از جلد مدد جلد کرنا ہو گی کیونکہ اُن کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘
’میں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر پہلی چیئر لفٹ بنائی۔ اُس افراتفری کے عالم میں نہ تو پورا سامان تھا اور کاریگر بھی دستیاب نہیں تھے۔ ہم نے پہلے آٹھ گھنٹے میں ہی چیئر لفٹ بنا دی اور اس کا اتنا فائدہ ہوا کہ وادی میں پھنسے ہوئے سیاح بھی اسی چیئر لفٹ کی مدد سے نکال لیے گئے۔‘
ابتدائی ریسکیو کا کام ختم ہوا تو واجد علی نے اپنے ذرائع سے مختلف قسم کا سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیا اور اس کام میں ہر ایک نے ان کی مدد کی۔ حکومتی محمکے ’سی اینڈ ڈبلیو‘ سے لے کر بحرین کے مقامی افراد تک، کسی نے انھیں تختے دیے تو کسی نے تاریں، کسی نے نٹ بولٹ فراہم کیے تو کسی نے درکار اوزار۔
اس طرح اس نوجوان کاریگر نے اپنی محنت اور لگن سے صرف 48گھنٹوں میں ایک مضبوط پُل کھڑا کر کے سب کو حیران کر دیا۔ یہی وہ پُل ہے جس کے اُوپر سے چل کر لوگ اب ضروری امدادی سامان لینے آتے ہیں اور لے کر واپس کالام، پشمال، لائی کوٹ، مٹلتان وغیرہ کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
26 اگست کو یہ نوجوان ریسکیو کے کام میں لگا رہا، 27 اگست کو اس نے پل بنانا شروع کیا اور 28 کو عارضی پُل بنانے کے کام کو مکمل کر لیا۔
اسی عارضی پُل کی وجہ سے ہی کالام کے لوگوں کو بحرین سے رابطہ بحال ہو پایا۔
واجد علی کہتے ہیں کہ ’ہم مزید پُل بنائیں گے کیونکہ چیئر لفٹ میں تو ایک دو انسان بیٹھ سکتے ہیں جبکہ پُل پر سے بکریاں، بھینسیں اور دوسری بھاری چیزیں بھی لے کر جا سکتے ہیں۔ کئی دفعہ زیادہ لوگوں نے جانا ہوتا ہے، مریضوں نے جانا ہوتا ہے تو ان کے لیے چیئر لفٹ مناسب نہیں ہے، لیڈیز اور حاملہ خواتین کو بھی لے کر جانا پڑتا ہے، اس لیے پُل ضروری ہے۔ ایک اور پُل پر ہم لوگوں نے کل سے کام شروع کرنا ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا وہ انجینیئر ہیں جو پُل بنا رہے ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے انجینیئرنگ نہیں بلکہ صرف بی ایس سی کی ہے۔ ’میں یہ کام پریکٹیکلی کرتا ہوں۔ پہلے میرے والد صاحب یہ کام کرتے تھے اب ان کی وفات کے بعد میں یہ کام کرتا ہوں۔ میرے ساتھ 21، 22 دوسرے لوگ بھی ہیں جن میں میرے کاریگر بھی ہیں اور رضاکار بھی جو یہ کام کرتے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں ان کے گھر بہہ گئے تھے اس لیے وہ بحرین آ گئے تھے۔ ’ہم نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے اتنا خطرناک اور تیز سیلاب نہیں دیکھا تھا۔ اس کے بعد جب 2014 کا سیلاب چترال میں آیا تو میں نے پھر اپنی پوری کوشش کی کہ کچھ کیا جائے۔ میں ایف ڈبلیو او کے ساتھ چترال چلا گیا تھا اور تقریباً 47 پُل بنائے اور کم از کم 34 چیئر لفٹیں لگائیں۔ کیلاش وادی اور دوسری جگہوں پر میں نے پل بنائے تھے اور آرمی والوں نے مجھے ایوارڈ بھی دیا تھا۔‘
واجد کہتے ہیں کہ اپنے والد صاحب کی طرح ’میرا کام ہی پل، چیئر لفٹیں اور زپ لائن بنانا ہے۔‘
واجد علی کہتے ہیں کہ ’کم از کم دس پندرہ گاؤں ایسے ہیں جہاں ابھی بھی جانے کا راستہ نہیں ہے۔ لیکن لوگ میری بنائی ہوئی چیئر لفٹس استعمال کرتے ہیں اور ان میں بیٹھ کے دریا کے پار اُترتے ہیں۔
’عام طور پر ہم سسپنینشن (معلق) پُل پانچ چھ مہینے میں بناتے ہیں۔ اس میں اور چیزوں کے علاوہ سیمنٹ بھی لگتا ہے۔ رسہ ڈالتے ہیں، وزن کی پیمائش کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ ہم نے صرف 48 گھنٹے میں ہی پُل بنا لیا۔ اگر ہم پرانی طرح پُل بناتے تو لوگ مر جاتے، ان کی اور ان کے بال بچوں کی جان کا مسئلہ تھا۔ ہم نے تین دن ذرا بھی آرام نہیں کیا اور اب ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں۔‘
سوات میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب سے تباہی ہوئی ہے
حال ہی میں جو پُل بنایا گیا ہے وہ بحرین میں درال کے مقام پر بنایا گیا ہے جہاں اوپر کالام سے لوگ آتے ہیں۔ ’اس جگہ کی اونچائی بہت زیادہ تھی، پانی کا بہاؤ بہت تیز اور بلند تھا اس لیے یہ بہت مشکل تھا، لیکن اللہ نے ہماری مدد کی۔ میں کافی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ بھی کام کرتا ہوں اور ان کے لیے بھی پل بناتا ہوں۔ حالیہ پل کے لیے حکومتی محکمے سی اینڈ ڈبلیو نے بھی سامان دیا تھا۔ لکڑی ہمارے لوگ لے کر آئے تھے جنگلوں سے کاٹ کے۔ مشکل میں تھے لیکن کام ہو گیا۔‘
واجد کہتے ہیں کہ ’2010 میں میرا گھر سیلاب میں تباہ ہو گیا تھا اور میں ابھی تک بحرین میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں، لیکن اس سیلاب کے بعد میرا مشن ہے کہ اگر کبھی دوبارہ کوئی سیلاب یا آفت آئی تو ہم نے پوری محنت کر کے لوگوں کی مدد کرنی ہے۔‘
48 گھنٹوں میں بنائے گئے اپنے پل کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے جو پُل بنایا ہے وہ ایسا ہے کہ جلدی خراب نہیں ہو سکتا۔ ہم نے یہ پل چار کیبلز کی مدد سے بنایا ہے اور عام طور پر ایک کیبل دس ٹن کا وزن برداشت کرتی ہے۔ اس طرح یہ چالیس ٹن تک وزن اٹھا سکتا ہے۔ دونوں طرف بھی حفاظتی کیبلز ہیں۔ یہ چار فٹ چوڑا ہے اور اس پر ایک منٹ کے اندر ابھی بھی پچاس تک لوگ آتے جاتے ہیں۔ لوگ مویشی لے کر جاتے ہیں، موٹر سائیکل پار جاتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم چار پانچ مزید جگہوں پر کام کر رہی ہے اور جلد ہی وہ مزید جگہوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیں گے۔