سمیع اللہ بلوچ کیس کیا تھا اور تاحیات نااہلی ختم کرنے

سمیع اللہ بلوچ کیس کیا تھا اور تاحیات نااہلی ختم کرنے

سمیع اللہ بلوچ کیس کیا تھا اور تاحیات نااہلی ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے کس کو فائدہ ہو گا؟

سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمان کی تاحیات نااہلی سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے چھ، ایک کی اکثریت سے تاحیات نااہلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس ضمن میں فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں سزا کا تعین نہیں کیا گیا، اس لیے اس آرٹیکل کو اکیلے نہیں پڑھا جا سکتا۔ ’آئین کے اس آرٹیکل میں چونکہ سزا کا تعین نہیں ہے اس سے اس کو تاحیات نااہلی تصور کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔‘

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ فیلڈ میں ہے اور اس ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال ہے جسے پرکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ 62 ون ایف کی تشریح آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے جبکہ عدالتی ڈکلیریشن دینے کے حوالے سے کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’سمیع اللہ بلوچ کیس میں عدالت نے جو تاحیات نااہلی کا فیصلہ کیا تھا وہ واپس لیا جاتا ہے۔‘

سات رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس یحی آفریدی نے اس اکثریتی فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا کہ سمیع اللہ بلوچ کا (تاحیات نااہلی کا) فیصلہ برقرار رہنا چاہیے چونکہ یہ فیصلہ قانونی ہے اور نااہلی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک ڈکلیریشن موجود ہے۔

سمیع اللہ بلوچ کیس کیا تھا؟

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سمیع اللہ بلوچ نامی شخص کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست پر آیا ہے۔

سمیع اللہ بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے اور وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے معروف رہنما اور سابق سینیٹر ثنا اللہ بلوچ کے چھوٹے بھائی ہیں۔

سمیع اللہ بلوچ پیشے کے لحاظ سے ٹھیکدار ہیں اور اپنا ذاتی کاروبار کرتے ہیں۔

سمیع اللہ بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع خاران سے ہے اور وہ خاران میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی منتظم بھی ہیں۔

بی این پی کے رہنما ثنا بلوچ نے بتایا کہ ان کے بھائی سمیع اللہ بلوچ نے ان کی جانب سے خاران سے تعلق رکھنے والے سابق رکن بلوچستان اسمبلی اورنوازلیگ کے رہنما میر عبدالکریم نوشیروانی اور ان کے بیٹے میر شعیب نوشیروانی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ماہر قانون سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’2018 میں سمیع اللہ بلوچ کے کیس میں 62 ون ایف کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ کوئی عوامی نمائندہ معلومات کی فراہمی کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لے گا تو وہ صادق اور امین نہیں سمجھا جائے گا اور تاحیات نااہل ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تاحیات نااہلی کی بات آئین میں نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کو برقرار رکھا جسے اب قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے ختم کر دیا ہے۔‘

qazi

’سپریم کورٹ نے اپنے آپ کو آئین کی تشریح سے الگ ہی رکھا‘

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے پر مختلف ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے اس فیصلے پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے اس پر تنقید کی ہے۔

ماہر قانون اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ ’بڑی مدت کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے ایسا فیصلہ ایا ہے جس میں سپریم کورٹ نے اپنے آپ کو آئین کی تشریح سے علیحدہ ہی رکھا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب آئین کے اس آرٹیکل میں سزا اور نااہلی کا ذکر ہی نہیں ہے تو پھر ججز کیسے اپنے طور پر آئین کے اس آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے منتحب حکومتوں اور منتخب نمائندوں کو گھروں کو بھیجتے رہے۔‘

سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے میاں نواز شریف کے خلاف ایک فیصلے میں 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا اور پی ٹی ائی کے سابق رہنما فیصل ووڈا کا بھی کیس اسی نوعیت کا تھا لیکن اس میں انھوں نے نااہلی پانچ سال کے لیے کر دی۔‘

سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے اسحاق خاکوانی کیس میں آئین کے اس آرٹیکل کی تشریح کے دوران کہا کہ اس قانون کے تحت رکن پارلیمان کے لیے جتنی سخت شرائط ہیں کہ وہ پارسا ہو، ایماندار ہو تو ایسی خوبیاں تو صرف پیغمبروں میں ہی ہو سکتی ہیں، انسانوں میں تو نہیں اور پھر اسی 62 ون ایف کے تحت ہی ارکان پارلیمان کو نااہل کیا گیا۔‘

نواز شریف

سیاسی تجزیہ نگار سہیل ورائچ کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ یقینی طور پر سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے سے جن سیاستدانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا وہ نواز شریف اور جہانگیر خان ترین ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ الیکشن ایکٹ میں نااہلی کی مدت پانچ سال رکھی گئی ہے اور سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں قانون سازی سے متعلق پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ ایک مسلمہ حقیقت تھی کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کا فیصلہ موجود ہے جس کی موجودگی میں ان دونوں رہنماؤں کی اہلیت پر سوالیہ نشان اٹھنے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آج کے عدالتی فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمان کے پاس ہے اور عدلیہ کے پاس آئین کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرنے کا اختیار نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں عدالتیں لوگوں کو ریلیف فراہم کرتی ہیں اور خاص طور پر جب ریاست کی طرف سے عوام پر زیادتیاں کی جا رہی ہوں۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے 62 اور 63 شق آئین میں شامل کیں جو کہ اخلاق اور مذہب سے متعلق ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اٹھاویں ترمیم کے دوران اس قانون میں ردبدل کیوں نہیں کیا گیا تو سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ ایسا کرتے تو اس وقت ارکان پارلیمان کو خدشہ تھا کہ کوئی مذہبی جماعت ان کے خلاف احتجاج نہ شروع کر دے۔‘

واضح رہے کہ تاحیات نااہلی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ’اس وقت کے ارکان پالیمان نے 62 ون ایف کو محض اس لیے نہ چھیڑا ہو کیونکہ انھیں اس وقت کے فوجی آمر نے ڈرایا ہو گا کہ اگر انھوں نے اس قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو وہ مزید 20 سال تک اقتدار میں رہے گا۔‘

سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’یہ ہوتا رہا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے سیاست دانوں کو اسی قانون کے تحت نااہل کیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئین میں وزیر اعظم کو نکالنے کا طریقہ کار موجود ہے جس میں اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہونا یا اس کا عہدے سے خود مستعفی ہونا بھی شامل ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *