دنیا کے سفر پر تنہا پیدل نکل جانے والی خاتون نے کیا سیکھا کیا کھویا؟
’کیوں؟‘ یہ ایک سادہ سا سوال ہے اور یہ ایک ایسا سوال ہے جو لوگ انجیلا میکس ویل سے اکثر پوچھتے ہیں۔ پھر بھی کچھ عرصہ پہلے تک یہ امریکی خاتون اس کا جواب دینے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں، کیونکہ انھوں نے اپنے ایک بڑے خواب کی تلاش میں ایک عمدہ زندگی کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔
لیکن میکس ویل کے لیے یہ ‘کیوں’ ایک ایسا سوال ہے جو قابلِ جواب ہے۔ بہرحال، انھوں نے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جس کی بہت کم لوگ کوشش کرتے ہیں۔ سنہ 2013 میں انھوں نے پیدل پوری دنیا دیکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس پیدل سفر کی وسعت میکس ویل کے منصوبے میں نہیں تھی۔ در حقیقت، وہ اپنی آرٹ کی کلاس میں ایک ایسے شخص کے بارے میں گفتگو سننے کے صرف نو ماہ بعد ہی سفر پر نکل پڑیں جس نے شاید پوری دنیا کا پیدل سفر کیا تھا۔
میکس ویل کا سفر کا فیصلہ کسی نقصان، شکست یا ذاتی بحران کا نتیجہ ہر گز نہیں تھا۔ جب انھوں نے طویل سفر پر چلنے کا فیصلہ کیا تو وہ عمر کی 30 کے پیٹے میں تھیں، کامیاب کاروبار چلا رہی تھیں اور ایک رشتے سے منسلک تھیں۔
اسے معلوم کرنے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ قدم بڑھائے جائیں۔ چلنے سے کاربن کے اخراج کم ترین سطح پر ہوتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی سست رفتاری سے چلنے کا یہ مطلب بھی تھا کہ وہ فطرت میں پوری طرح ڈوب سکتی ہیں، ان لوگوں سے مل سکتی ہیں جن کے قریب سے وہ بصورت دیگر گاڑی سے جلدی سے گزر جاتی تھیں اور دیگر ثقافتوں کو اس طرح جان سکتی ہیں جو طویل مسافتوں پر جانے والوں کے لیے منفرد تجربہ ہے۔
جیسے ہی انھوں نے تیاری کی، میکس ویل کو مہم جو خواتین کی ایک دنیا ملی جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ انھیں رابن ڈیوڈسن کی تحریری اور سست سفر کرنے کے انداز سے پیار ہو گیا، جو اونٹوں کے ساتھ آسٹریلیا کا سفر کرتی تھیں۔ انھوں نے طویل پیدل سفر کرنے والی فیونا کیمبل کے کے بارے میں جانا۔ اور روزی سویل – پوپ کے بارے میں پڑھا، جنھوں نے یورپ سے نیپال جاتے ہوئے دنیا بھر میں سفر کیا، گھوڑے پر ملک چلی عبور کیا اور 59 سال کی عمر میں پوری دنیا پیدل گھومیں۔
میکس ویل نے کہا: ‘میں نے ان کی کتابیں حوصلہ افزائی کی امید میں پڑھیں۔ اور ان کے چیلنجز اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابیوں کے بارے میں جان کر میرا حوصلہ بڑھا بھی۔ ہر عورت کی کہانی بالکل مختلف تھی اور انھوں نے مجھے اعتماد فراہم کیا۔’
ایک بار جب انھوں نے سفر کا فیصلہ کر لیا تو میکس ویل نے اپنا سارا سامان بیچ ڈالا اور ضروری سامان سفر تیار کر لیا۔ انھوں نے 50 کلو گرام کیمپنگ کا سامان، خشک خوراک، ملٹری گریڈ واٹر فلٹر اور ہر موسم کے لیے کارآمد لباس کی ایک ٹوکری بھر لی تھی۔ میکس ویل نے 2 مئی سنہ 2014 کو اپنا آبائی شہر بینڈ اوریگون چھوڑا اور ایک ایسی مہم جوئی کے لیے نکل پڑیں جس کے بارے میں وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس راہ پر انھیں کیا کیا ملنے والا ہے۔
جب میں نے پہلی بار جون سنہ 2018 میں میکس ویل کے ساتھ سکائپ پر بات کی تو انھیں اس سفر میں تقریبا چار سال ہو چکے تھے۔ وہ تین براعظموں کے 12 ممالک میں ساڑھے بارہ ہزار میل سے زیادہ پیدل سفر طے کر چکی تھیں۔ متجسس ہو کر میں نے ان سے پوچھا کہ پیدل عالمی سفر پر جانے کے لیے انسان کو کیسا ہونا چاہیے؟ ان کا چہرہ چمک رہا تھا انھوں نے استہزایہ انداز میں کہا ‘ضدی’۔
اس کے بعد انھوں نے مزید کہا: ‘یہ شاید امتزاج ہے، تھوڑی سی ضد اور جذبہ اور شوق کا۔۔ یہ کھیل کے طور پر پیدل سفر نہیں بلکہ خود کی دریافت اور مہم جوئی کے لیے ہوتا ہے۔’
میکس ویل نے مجھے بتایا کہ اگرچہ انھوں نے جلد ہی اپنا ایک معمول بنا لیا۔ ‘طلوع آفتاب کے آس پاس جاگنا، ناشتے کے لیے دو کپ انسٹنٹ کافی اور دلیے کا کٹورا کھانا، سامان باندھنا اور چل پڑنا، رات کے لیے کیمپ لگانا، انسٹنٹ نوڈلز کھانا اور سلیپنگ بیگ میں گھس جانا۔ کوئی دن ایک جیسا نہیں تھا۔’
ابتدائی طور پر وہ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ نکلی تھیں لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ نچلے راستوں میں زیادہ مہم جوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمول کے راستوں کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ اپنے اندر کی آواز پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کرتیں کہ بائیں یا دائیں کہاں مڑنا ہے۔
میکس ویل کو آسٹریلیائی صحرا میں دھوپ میں جھلسنے سے چھالے ہو گئے اور لُو لگ گئی اور انھیں ویتنام میں ڈینگی بخار ہو گیا۔ ممکن تھا کہ منگولیا میں ان کے خیمے میں گھس جانے والے خانہ بدوش کے حملے میں ان کا ریپ ہو جاتا، انھوں نے ترکی میں کیمپ لگاتے ہوئے فائرنگ کی آوازیں سنیں اس وقت وہ گہری نیند میں تھیں۔ انھوں نے وہاں ایک آنکھ اور ایک کان کھلا رکھ کر سونا سیکھا۔
“ان کا کہنا تھا ‘پھر بھی۔۔۔ میں نے اس وجہ سے چلنا شروع نہیں کیا تھا کہ میں نڈر تھی۔۔۔ بلکہ اس وجہ سے کہ میں خوفزدہ تھی۔ مجھے اپنی ملکیت اور من پسند چیزوں کے کھونے سے زیادہ اپنے دل کی پیروی نہ کرنے کا زیادہ خوف تھا۔
جنسی حملے کے صدمے کا مقابلہ کرنا ایک اہم لمحہ ثابت ہوا، جس میں میکس ویل نے بالآخر چلتے رہنے کا عزم کیا۔ وہ ابھی بھی خوفزدہ تھیں، تاہم خواتین کی ثابت قدمی اور طاقت کی دوسری کہانیوں نے انھیں اپنا سفر جاری رکھنے میں مدد دی۔
‘میں پرعزم تھی کہ اس واقعے کو اپنا خواب چھوڑ کر گھر واپس جانے کی وجہ نہیں بننے دوں گی۔ میں نے اپنی پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا، واپس جانے کے لیے کچھ نہیں تھا کہ وہ اپنے سفر کے خطرات کو سمجھیں۔’
میکس ویل یہ جاننے کے لیے چلتی رہیں کہ تشدد کے باوجود ان کا ذہن اور جسم کتنا مضبوط ہو سکتا ہے۔
راستے میں، ان کی سست رفتاری نے انھیں دوسری ثقافتوں کو کم لیکن گہرائیوں سے سمجھنے کا موقع دیا۔ وہ اٹلی کے ٹیررنیئن سمندر کے کنارے چھوٹے چھوٹے ساحلی دیہاتوں میں گھوم رہی تھی، وہ وہاں کے متحرک ماحول میں باتیں کرنے، بیٹھنے اور شراب پینے کے دعوت ناموں کو قبول کرتیں۔ ویتنام میں، ہائی وین پاس کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد جب وہ تھک ہار چکی تھیں تو ایک بزرگ خاتون نے ان کا استقبال کیا اور لکڑی کی ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں آرام کی دعوت دی۔ منگولیا اور روس کی سرحد پر ایک دوستی ہوئی جس سے برسوں بعد سوئٹزرلینڈ میں دوبارہ ملاقت ہوئی۔ یہاں تک کہ میکس ویل اٹلی میں ملنے والی ایک خاتون کی بیٹی کی گاڈ مدر بن گئیں۔
اگر چہ کثیر بین الثقافتی ملاقاتیں سات منٹ کی رہی ہوں یا سات دن کی میکس ویل نے ہمیشہ دو چیزوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ ایک یہ کہ سیکھنے کے لائق اچھا سامع بننا۔ انھوں نے کہا: ‘چلتے رہنے سے مجھے یہ پتا چلا کہ ہر چیز اور ہر شخص کے پاس کہنے کے لیے کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے، ہمیں صرف سننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اپنے سفر کے دوران انھوں نے جمہوریہ جارجیا کے ایک اطالوی شہر میں شہد کی مکھیوں کو پالنے کا نسل در نسل چلے آنے والا طریقہ سیکھا جبکہ منگولیا میں شاہراہ ریشم پر اونٹ سنبھالنےکا طریقہ سیکھا۔ دوسرے میکس ویل نے تعاون کی اہمیت کو سمجھا۔ انھوں نے نیوزی لینڈ میں لکڑیاں کاٹیں اور اٹلی میں بے گھر لوگوں کو کھانا دیا۔ سرڈینیا میں انھوں نے ایک اطالوی کسان کو ان کے گھر کی مرمت اور تجدید میں مدد کی۔
تاہم عام طور پر میکس ویل کی کہانیاں ہی ان کا سب سے بڑا تعاون تھیں۔ انھوں نے غیر رسمی اجتماعات، سکولوں اور یونیورسٹیوں اور یہاں تک کہ ایڈنبرا میں ٹیڈ ایکس کے سٹیج پر بھی بات کی اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے تجربات شیئر کیے۔
وہ خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک آواز بن گئیں، خاص طور پر منگولیا میں حمل کے بعد بھی اپنے سفر کو جاری رکھنے کے فیصلے کے بعد۔ انھوں نے کہا: ‘چھوڑنا کوئی آپشن نہیں تھا۔’
اپنے زیارتی سفر کے دوران میکس ویل نے غیر سرکاری تنظیموں جیسے ورلڈ پلس اور ہر فیوچر کولیشن لیے چندہ اکٹھا کرنے کا کام کیا۔ یہ تنظیمیں لڑکیوں اور جوان خواتین کی امداد کے لیے کام کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر انھوں نے تقریبا 30 ہزار ڈالر جمع کیے۔
میکس ویل نے کہا کہ تجسس اور کھلی ذہنیت ‘دنیا اور اس کے باشندوں کا زیادہ گہرائی سے تجربہ کرنے’ کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ ساڑھے چھ سال تک میکس ویل نے تجسس، غیر یقینی صورتحال اور انتہائی خطرے سے دوچار طرز زندگی کا انتخاب کیا۔ اور انھوں نے یہ سب ایک ایسی چیز کی تلاش میں کیا جس کے بارے میں وہ کبھی یقین سے نہیں کہہ سکتیں کہ ان کی تلاش ممکن تھی اور یہ چیز ذاتی خوشی اور آس پاس کی دنیا سے گہری ہم آہنگی تھی۔
16 دسمبر سنہ 2020 کو میکس ویل کی سیر اسی جگہ ختم ہوئی جہاں سے اس کی شروعات ہوئی تھی یعنی بینڈ میں ان کی سب سے اچھی دوست ایلیس کے گھر پر۔ جس طرح انھوں نے اپنا سفر شروع کرنے کی مناسب گھڑی کو لبیک کہا تھا اسی طرح وہ جانتی تھی کہ اس کے خاتمے کا صحیح وقت کیا ہے۔ وہ یہ بھی جان چکی تھیں کہ یہ مہم جو والی زندگی ان کا طرز زندگی بن چکا ہے اور وہ جب چاہیں اس پر واپس آ سکتی ہیں۔
اگرچہ ابھی وہ ایک کتاب کی تیاری پر کام کر رہی ہیں، مستقبل کے سفر کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں اور خواتین کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہمت ڈھونڈنے، اور ان کے اظہار کے مواقع پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔
چاہے پیدل چل کر پوری دنیا کا چکر لگانے کی بات ہو یا پھر کسی راستے پر نکل چلنے کی بات ہو میکس ویل اپنی رفتار کو سست کرنے کی قدر جان چکی ہیں، جس کی وجہ سے وہ زیادہ توجہ دینے لگیں ہیں اور اس راستے میں وہ لینے کے بجائے زیادہ دینا سیکھ گئی ہیں۔