حادثہ واپسی کے روز ہوا‘ بابو سر ٹاپ

حادثہ واپسی کے روز ہوا‘ بابو سر ٹاپ

حادثہ واپسی کے روز ہوا‘ بابو سر ٹاپ کے قریب وین کھائی میں گرنے سے ایک خاندان کے سات افراد ہلاک

حادثے والے روز میری (اپنے بھانجے) سرفراز سے بات ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ لوگ بابو سر ٹاپ سے آج واپس آ رہے ہیں۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی سرحد پر 13,691 فٹ کی بلندی پر واقع بابو سر ٹاپ کے قریب جمعے کو ایک حادثے میں پنجاب کے شہر ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے سات افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔

متاثرہ خاندان کے ماموں محمد مقصود بتاتے ہیں کہ ان کے تینوں بھانجے اپنی فیملیز کے ہمراہ پانچ روزہ تفریحی پروگرام پر شمالی علاقہ جات گئے ہوئے تھے مگر واپسی کے روز یہ حادثہ ہوا۔

ضلع مانسہرہ کے تھانہ کاغان کے ایک پولیس اہلکار کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ وین میں سوار ایک شخص نے نیچے اتر کر ٹائر کے نیچے پتھر رکھا تھا تاہم اسی دوران گاڑی ریورس ہوتے ہوئے سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گری۔ اس کے باعث وین میں سوار سات افراد ہلاک جبکہ آٹھ زخمی ہوگئے۔

تاہم محمد مقصود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اب تک یہ اطلاع ملی ہے کہ حادثے کی وجہ کھڑی گاڑی کی ایک دوسری کار سے ٹکر ہے۔

’جس روز واپس آنا تھا حادثہ اسی دن ہوا‘

اس حادثے میں محمد عمیر اپنے خاندان کے پیاروں سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ تینوں بھائی ساہیوال میں کیبل نیٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تینوں کافی عرصے سے پروگرام بنا رہے تھے کہ بچوں کو لے کر شمالی علاقہ جات کی طرف جایا جائے۔ یہ ان لوگوں کا یہاں کا پہلا تفریحی پروگرام تھا جس میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔‘

محمد عمیر کے مطابق اس سارے پروگرام کے دوران وہ ان خاندان والوں سے رابطے میں رہے تھے۔ ’سب لوگ اس تفریحی پروگرام سے بہت خوش تھے۔‘

ان کا کہنا تھا ’یہ لوگ پہلے ناران میں رُکے تھے۔ اس کے بعد سب بابو سر ٹاپ گئے تھے۔ جس روز واپس آنا تھا حادثہ اسی دن ہوا۔‘

’اس دن (ہلاک ہونے والے) ثاقب عرفان سے میری وڈیو کال پر بہت لمبی بات ہوئی تھی۔ میرا کم عمر بھانجا بہت خوش تھا، وہ مجھے بتا رہا تھا کہ ماموں آپ بھی آنا بہت مزے کی جگہ ہے۔ ہم نے بہت انجوائے کیا ہے۔‘

محمد عمیر کہتے ہیں کہ باقی بچوں کے بھی ایسے ہی خیالات تھے۔

حادثے کے روز کا احوال بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں نے یہ معلوم کرنے کے لیے کال کی کہ وہ واپسی کے لیے نکلے ہیں یا نہیں تو ثاقب عرفان نے کال کاٹ کر میسج کیا کہ میں بعد میں بات کرتا ہوں۔ مگر اس کی نوبت نہیں آئی اور یہ حادثہ ہوگیا۔‘

ساہیوال کے مقامی صحافی حاجی وقار یعقوب کہتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے سات لوگوں کی تدفین کردی گئی ہے جس میں علاقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

ان کے مطابق متاثرہ خاندان کے پاس تعزیت کے لیے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ایک ہی خاندان کے سات افراد کی ہلاکت کے واقعے نے سب کو غمگین کر دیا ہے۔

بابو سر ٹاپ

پہاڑی اور شمالی علاقہ جات میں حادثات کیوں ہوتے ہیں؟

پشاور ٹریفک پولیس کے سربراہ قمر حیات اس سے قبل مانسہرہ، ایبٹ آباد اور دیگر پہاڑی علاقوں میں خدمات دے چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں حادثات کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ ’دوسرے علاقوں سے آنے والے ڈرائیورز کو پہاڑی علاقوں اور شمالی علاقہ جات کی سڑکوں کا شعور نہیں ہوتا۔ پنجاب چونکہ میدانی علاقہ ہے، اس لیے وہاں گاڑی چلانا بالکل مختلف ہے۔‘

ان کے مطابق دوسری وجہ گاڑی کا ٹھیک نہ ہونا ہے۔ ’گاڑی میں نظر انداز کی گئی خامی ہی مصیبت کا سبب بنتی ہے۔‘

قمر حیات کے مطابق تیسری بڑی وجہ لینڈ سلائیڈنگ ہے۔ ’بارشوں کے موسم میں سیاحوں اور مسافروں کو پہاڑی اور شمالی علاقہ جات کا رُخ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ اگر لینڈ سلائیڈنگ سے حادثہ نہ بھی ہو تو سڑک کے متاثر ہونے سے ٹریفک جام کا خدشہ ہوتا ہے۔‘

قمر حیات مزید کہتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں، خاص طور پر بارشوں کے موسم کے دوران، بڑی احتیاط سے گاڑی چلانی چاہیے اور اگر کوئی ان حالات میں گاڑی چلانے کے قابل نہ ہو تو کسی مقامی یا ماہر ڈرائیور کی مدد لینی چاہیے۔

گذشتہ 10 سال سے شمالی علاقہ جات میں کار چلانے والے ایک ڈرائیور رئیس احمد کہتے ہیں کہ لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں سفر نہ کرنا بہتر فیصلہ ہوتا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ابھی حال ہی میں، میں سیاحوں کو لے کر ہنزہ کی طرف نکلا تو چلاس میں لینڈ سلائیڈنگ سے روڈ بلاک ہوگیا تھا۔

’میں نے سیاحوں کو بتایا کہ لینڈ سلائیڈنگ صاف ہونے میں گھنٹوں لگ سکتے ہیں تو انھوں نے واپسی کا فیصلہ کیا جو کہ بہتر فیصلہ تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’لینڈ سلائیڈنگ صاف کرنے اور مشینری پہچانے میں وقت لگتا ہے اور ٹریفک بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ یہ صورتحال بعض اوقات انتہائی تکلیف دہ ہوجاتی ہے۔‘

بابو سر ٹاپ

دوران سفر کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

قمر حیات کہتے ہیں کہ اکثر اوقات جب آپ پہاڑی علاقوں کا سفر کر رہے ہوں تو اس وقت کچھ جلنے کی بو آتی ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب ڈرائیور بریک کا بہت زیادہ استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

رئیس احمد کی تجویز ہے کہ ان علاقوں میں بریک کا استعمال کم اور گیئر کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے اور کار کو چھوٹے گیئر میں رکھتے ہوئے سٹیئرنگ وہیل پر کنٹرول مضبوط رکھنا چاہیے۔ اور شیشوں کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اکثر اوقات حادثات اور ٹیکنگ کرتے ہوئے ہوتے ہیں۔ اوور ٹیکنک بڑی احتیاط سے کرنی چاہیے کہ سامنے سے کوئی گاڑی تو نہیں آ رہی۔‘

رئیس احمد کہتے ہیں کہ ’اکثر سیاح اور مسافر، ڈرائیور کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پہاڑی خطوں اور شمالی علاقہ جات میں اکثر مسافر توقع کرتے ہیں کہ ڈرائیور اُٹھے گا اور 10 یا 12 گھنٹے ڈرائیونگ کر لے گا۔‘

ان کی رائے میں ’دوران سفر اپنے ڈرائیور کی ضرورت اور آرام کا خیال رکھیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *