جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی خلا میں تعیناتی کا مرحلہ مکمل

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی خلا میں تعیناتی کا مرحلہ مکمل

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کی خلا میں تعیناتی کا مرحلہ مکمل، خلائی تاریخ کا پیچیدہ ترین کام کیسے سرانجام دیا گیا؟

بالآخر یہ مرحلہ مکمل ہو گیا۔ خلا میں بھیجا گیا سب سے بڑا آئینہ مکمل طور پر کھل گیا ہے اور اب یہ دوربین فوکس کرنے کے لیے تیار ہے۔

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے مرکزی حصے ’گولڈن ریفلیکٹر‘ کو سنیچر کے روز سیدھا کر لیا گیا جو اندر کی طرف خم دار ہے اور اس کا قطر 6.5 میٹر ہے۔

کرسمس کے روز مشن کے آغاز پر اس آئینے کو کسی تہہ ہوجانے والی میز کی طرح موڑا گیا تھا۔ جدید جیمز ویب دوربین کی مدد سے اب کائنات کے کئی ایسے حصوں پر تحقیق کی جا سکے گی جن پر تحقیق اب تک ہمارے لیے ممکن نہیں تھی۔

سائنسدان چاہتے ہیں کہ وہ 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کردہ اس نئی دوربین اور رصد گاہ (آبزرویٹری) کی مدد سے بِگ بینگ سے قریب 20 کروڑ سال بعد پیش آنے والے واقعات کو دیکھ اور سمجھ سکیں۔ وہ کائنات کو روشن کرنے والے پہلے ستاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

وہ اس ٹیلی سکوپ کی ’بڑی آنکھ‘ کی تربیت کچھ اس طرح کریں گے کہ یہ دور واقع سیاروں کے ماحول پر نظر رکھے تاکہ یہ پتا لگایا سکے کہ آیا وہاں انسانی زندگی ممکن ہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا میں جیمز ویب ٹیلی سکوپ کا آئینہ نصب کرنے والی ٹیم کے سربراہ لی فائنبرگ کہتے ہیں کہ ’یہ دوربین لوگوں کو حیرت میں مبتلا کردے گی۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی جو ہبل ٹیلی سکوپ کی تصاویر دیکھتے رہتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ تصور کرنا مشکل ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیمز ویب ٹیلی سکوپ اتنی طاقتور ہے کہ ہم اس سے جہاں کہیں بھی دیکھیں گے اس سے بڑے پیمانے پر نئی معلومات فراہم ہوں گی۔‘

جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو امریکہ، یورپی ممالک اور کینیڈا کے خلائی اداروں نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ اسے ڈیزائن اور تیار کرنے میں قریب 30 سال لگے۔ یہ ہبل ٹیلی سکوپ کی جانشین ہے۔ ہبل اپنی آپریشنل زندگی مکمل کرنے کے قریب ہے۔

جیمز ویب ایک جدید دوربین ہے جس میں قدرے نئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ یہ اتنی بڑی ہے کہ اسے 25 دسمبر کو مدار میں جانے والے راکٹ کی نوک میں رکھا گیا۔

جیمز ویب

مگر راکٹ کے اُڑان بھرنے سے لے کر اس کی تعیناتی مکمل ہونے تک گذشتہ ہفتوں کے دوران اس پر کام کرنے والے تمام افراد کی نظریں اسی پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اسے نصب کرنے کے مختلف مراحل تھے جس میں پتنگ نما سن شیلڈ (جس کا سائز ایک ٹینس کورٹ جتنا ہے) کی تعیناتی بھی ضروری تھی جو توقعات کے مطابق ممکن ہوا۔

خلائی تحقیق کی تاریخ میں اس کا شمار بڑی کامیابیوں میں ہوگا۔

اس ٹیلی سکوپ کو آپریٹ کرنے والے کنٹرولرز ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹیمور میں سپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ میں موجود ہیں۔ اس تعیناتی کو مرکزی آئینے کے دو پروں کو 90 ڈگری پر ہلا کر مکمل کیا گیا۔

ٹیلی سکوپ کی جانب سے آسمان سے بھیجے گئے پیغام نے تصدیق کی کہ دوربین کے پینل اپنی جگہ پر لاک ہوچکے ہیں۔ مشن کے آپریشنز مینیجر کارل سٹار نے اعلان کیا کہ ’ہم نے جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کی رصد گاہ کو مکمل طور پر تعینات کر دیا ہے۔‘

ناسا میں جیمز ویب ٹیلی سکوپ کے پروگرام مینیجر بل اوشز کہتے ہیں کہ ’گذشتہ دو ہفتے بہترین رہے۔ اس دوربین پر ہزاروں لوگوں نے کام کیا تاکہ یہ کامیابی مل سکے۔ میں آپ کو ہر روز بتاؤں گا کہ مجھے اس ٹیم کا حصہ ہونے پر فخر ہے۔‘

ناسا میں سائنس کے شعبے کے ڈائریکٹر تھامس زبرچن نے کنٹرولرز سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’ہم نے مدار میں ایسی ٹیلی سکوپ تعینات کی جیسی دنیا نے آج تک نہیں دیکھی۔ تو آپ سب کو آج تاریخ کا حصہ بن کر کیسا محسوس ہو رہا ہے؟‘

Presentational white space

توقعات اب بہت زیادہ ہیں

ریبیکا موریل، سائنس ایڈیٹر

خلابازوں کے لیے سُکھ کا سانس لینے کا وقت آگیا ہے۔

عام طور پر کسی خلائی مشن میں اس کی اُڑان سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ مگر گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اس دوربین کی تعیناتی انتہائی پیچیدہ مرحلے سے گزری ہے۔

اتنی بڑی دوربین کو آسمان میں کھولنا اب تک خلا میں کی گئی سب سے مشکل تعیناتیوں میں سے ایک ہے۔

مگر جیمز ویب ٹیم نے یہ کر دکھایا۔ حتیٰ کہ یہ توقع سے زیادہ بہتر انداز میں کیا گیا۔ انھوں نے یہ کام ایسے کیا جیسے یہ بہت آسان تھا۔ ٹیلی سکوپ کے ڈیزائن میں دہائیوں تک کام جاری رہا اور اس کی جدید انجینیئرنگ نے متاثر کُن نتائج دیے۔

مگر اس رصدگاہ کی اصل طاقت کا اندازہ آئندہ موسم گرما تک نہیں ہوگا جب اس سے ابتدائی تصاویر کھینچ کر زمین بھیجی جائیں گی۔ اور توقعات آسمان سے بھی زیادہ اونچی ہیں۔

اس دوربین کے مناظر نہ صرف حیرت انگیز ہونے چاہییں بلکہ انھیں ہمارے کئی بڑے سوالوں کا جواب بھی دینا ہو گا جیسے یہ کائنات کیسے وجود میں آئی اور آیا زمین کے علاوہ کہیں اور بھی زندگی موجود ہے؟

جیمز ویب سے بہت زیادہ قابلیت کی توقع کی جا رہی ہے۔

Presentational white space
جیمز ویب

تاہم ابھی جیمز ویب کی جانب سے کائنات کی تصاویر کھینچنے سے قبل تیاری کے اور بھی مراحل باقی ہیں۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اسے بہت زیادہ ٹھنڈا ہونے دیا جائے۔

اسے انفراریڈ (یعنی زیرسرخ شعاعیں جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتیں) میں کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ لہروں کی طولِ موج یا ویولینتھ زیادہ ہونے پر ہمیں بڑے ستارے چمکتے دکھائی دیں گے۔

جب تک اس دوربین کو کم درجہ حرارت پر نہیں لایا جاتا اس سے خارج ہونے والی توانائی سب سے باریک سگنلز کو ماند کرتی رہے گی۔

جیمز ویب کے پرنسیپل انویسٹیگیٹر گلین رائٹ کہتے ہیں کہ ’یہ ایسا ہوگا جیسے ہم جلتی ہوئی گھاس کے سامنے ایک ماچس کی تیلی جلا کر دیکھنے کی کوشش کریں۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آئے گا۔‘

دوربین کی بڑی پتنگ نما سن شیلڈ سے پیدا ہونے والا سایہ ٹیلی سکوپ کے آلات کا درجہ حرارت منفی 230 ڈگری سینٹی گریڈ تک لے جائے گا۔ اسی طرح چاروں سائنسی آلات ضروری حساسیت کے ساتھ کام کر سکیں گے۔

انجینیئر جلد ان کے فعال ہونے کے ساتھ ان کی کارکردگی کو جانچنا شروع کریں گے۔ انھیں مرکزی آئینے میں چھ کونوں والے 18 حصوں کو اس طرح ترتیب دینا ہے کہ عکس دکھانے والی یکجا سطح بن سکے۔

جیمز ویب

ہر حصے میں موٹر نصب ہے جسے اوپر نیچے، دائیں بائیں، گھمایا یا جھکایا جا سکتا ہے تاکہ انھیں بہترین جگہ پر لایا جا سکے۔

ان مراحل میں آئندہ پانچ ماہ یا اس سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق جولائی کے اواخر تک جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے تصاویر مصول ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ تاہم خلائی ایجنسی کے حکام کہتے ہیں کہ ہمیں حیرت میں مبتلا ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

لی فائنبرگ کے مطابق ’جیمز ویب انجینیئرنگ کا ایک شاہکار ہے۔ مگر اس میں ایک خوبصورتی کا پہلو بھی ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے اس میں ان لوگوں کی شکلیں دیکھنا پسند تھا جو اس کے پاس آ کر اسے دیکھتے تھے۔ انسانوں کی بنائی گئی اس چیز میں خوف اور تعجب دونوں ہیں۔ اس کا سائز، اس کا پیمانہ اور سونے کی پرت۔ یہ آپ کو اوپر اُٹھا دیتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *