جنرل ضیا الحق کا اقتدار کو طول دینے کے لیے کروایا

جنرل ضیا الحق کا اقتدار کو طول دینے کے لیے کروایا

جنرل ضیا الحق کا اقتدار کو طول دینے کے لیے کروایا گیا ریفرینڈم جس نے خود اُن کو ہی کمزور کر دیا

آج سے 37 برس پہلے پاکستان کے عوام سے ایک سوال پوچھا گیا تھا جس کے اثرات آج بھی پاکستان کی سیاست اور معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ اس سوال کا مقصد ایک فوجی آمر کے اقتدار پر قبضے کو طول دینا تھا۔

جنرل ضیا الحق نے خود کو ملک کا صدر بنوانے کے لیے 19 دسمبر 1984 کو ایک ریفرینڈم کا انعقاد کیا جس میں رائے دہندگان سے سوال پوچھا گیا کہ ’کیا آپ صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کی جانب سے پاکستان کے قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے، نظریہ پاکستان کے تحفظ اور استحکام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو جاری رکھنے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کی پُر امن اور منظم تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں؟‘

عوام کو اس سوال کا جواب ہاں یا نہ میں دینا تھا۔

ہاں میں جواب کا مطلب تھا کہ جنرل ضیا الحق اگلے پانچ برس یعنی سنہ 1990 تک صدرِ مملکت رہیں گے۔

یہ میرے کالج کے زمانے کی بات ہے جب ہم کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہا کرتے تھے۔ جس روز یہ ریفرینڈم ہوا میں اپنے دوستوں کے ساتھ شہر کے مختلف پولنگ سٹیشنز پر گیا جہاں چند ہی لوگ نظر آئے۔ چند پولنگ سٹیشنز پر ہم نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو دیکھا جو لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دے رہے تھے۔

اپنے محلے کے کچھ دوست بھی نظر آئے جو اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تھے اور ہمیں دیکھ کر کچھ شرمندہ ہوئے۔ اس زمانے میں ضیا حمایت تحریک نامی ایک تنظیم بھی بنائی گئی تھی جسے فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تعاون اور مدد حاصل تھی۔ کراچی میں بھی ہم نے ضیا حمایت تحریک کے چند لوگوں کو دیکھا جو ریفرینڈم والے روز لوگوں کو ‘ہاں‘ کا ووٹ ڈالنے کی ترغیب دے رہے تھے لیکن عوام کا موڈ مختلف تھا۔

اس ریفرینڈم کا بائیکاٹ کر کے لوگوں نے یہ پیغام دیا کہ وہ ملک میں فوجی حکومت چاہتے ہیں نہ اس کا اسلامی نظام بلکہ وہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں اور ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر عائشہ جلال اپنی کتاب ‘دی سٹرگل فار پاکستان‘ میں لکھتی ہیں کہ خیبر سے کراچی تک عوام نے اس ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا جس نے جمہوریت کے لیے قومی سطح پر ایک اتفاقِ رائے کو ظاہر کیا۔

آمر

‘بہت فراخ دلی سے پیش کیے جانے والے اندازوں کے مطابق بھی ووٹنگ کی شرح 10 فیصد سے زیادہ نہ تھی۔ زبردست دھاندلی کی گئی، ایسے افراد کو بھی ووٹ ڈالنے دیا گیا جو رجسٹرڈ ہی نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن نے زمینی حقائق کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اعلان کیا کہ ووٹنگ کی شرح 62 فیصد رہی اور اس میں سے 97 فیصد سے زیادہ لوگوں نے ‘ہاں‘ کا ووٹ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اگلے مزید پانچ سال کے لیے جنرل ضیا الحق کے اقتدار پر مہر لگا دی گئی۔‘

اردو سائنس کالج میں شعبہ صحافت کے سابق سربراہ پروفیسر توصیف احمد نے یہ ریفرینڈم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔

‘تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس ریفرینڈم کا بائیکاٹ کیا تھا، عوام کو اس ریفرینڈم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں اس زمانے میں میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبار مشرق میں کام کرتا تھا جہاں ہدایت یہ تھی کہ ہر صورت میں ریفرینڈم کو نمایاں کیا جائے گا۔ پولنگ سٹیشن خالی پڑے ہوئے تھے اور ہر علاقے کے ایس ایچ او کی ذمہ داری تھی کہ وہ 100 فیصد نتائج لے کر آئے۔‘

پروفیسر توصیف کہتے ہیں کہ اس ریفرینڈم کے نتیجے میں جنرل ضیا الحق کے اگلے اقدامات کے لیے راستہ کھل گیا، غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے اور صورتحال تبدیل ہوتی چلی گئی۔ نئی اسمبلی وجود میں آئی اور ملک میں محمد خان جونیجو کی شکل میں ایک نیا وزیرِ اعظم سامنے آیا۔

‘وہ ریفرینڈم اس سارے سیاسی عمل کا حصہ بن گیا۔ ریفرینڈم کی مذمت تو ہوتی رہی لیکن وہ ایک کے بعد ایک ہونے والے واقعات کا حصہ بن گیا حالانکہ ریفرینڈم پر کسی نے بھی اعتماد نہیں کیا۔‘

یہ ریفرینڈم تو ایک فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے غیر قانونی اقتدار کو طول دینے کے لیے کروایا تھا لیکن اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے سیاسی عمل کی وجہ سے ہی وہ فوجی ڈکٹیٹر کمزور ہوا۔

‘پاکستان میں تین ریفرینڈم ہوئے ہیں۔ ایک جنرل ایوب خان، دوسرا جنرل ضیا الحق اور تیسرا جنرل پرویز مشرف نے کروایا۔ ان میں سے کم از کم دو ریفرینڈم تو میری آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں جن کے ہونے کا عمل اور نتائج میں نے دیکھے ہیں۔ ان کے نتیجے میں آخر کار اسٹیبلشمنٹ کمزور ہی ہوئی کیونکہ جمہوری عمل چھوٹے پیمانے پر ہی اور کسی بھی صورت میں شروع ہوا وہ بڑھتا ہی چلا گیا اور فوجی ڈکٹیٹروں کو بالآخر جانا پڑا۔ کوئی فوجی آمر جب بھی مجبوراً محدود پیمانے پر ہی صحیح مگر کسی بھی طرح کے سیاسی عمل کی اجازت دیتا ہے تو وہ سیاسی عمل پھیلتا ہی چلا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں فوجی آمر کو جانا ہی پڑتا ہے۔‘

آمر

پروفیسر توصیف احمد بتاتے ہیں کہ ضیا ریفرینڈم کی طرح جنرل مشرف کے ریفرینڈم میں بھی لوگوں نے شرکت نہیں کی۔

‘جنرل مشرف کے ریفرینڈم میں تو خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے سڑکوں پر پولنگ بوتھ لگائے تھے جس کی کوئی ووٹر لسٹ بھی نہیں تھی۔ وہ تو اور زیادہ مضحکہ خیز تھا کہ جو بھی وہاں سے گزر رہا ہے وہ ووٹ ڈالتا جائے۔ وہاں پر بھی مقامی تھانے داروں کی ڈیوٹی تھی کہ 100 فیصد نتائج چاہییں۔ جنرل مشرف کے ریفرینڈم کی حیثیت بھی جنرل ضیا کے ریفرینڈم جیسی ہی تھی لیکن اس کی وجہ سے بھی جو اقدامات کیے گئے اس کے نتیجے میں بھی سیاسی عمل شروع ہوا اور بڑھتا چلا گیا اور جنرل مشرف کو بھی جانا پڑا۔‘

یعنی اس کہانی میں ایک حقیقت مشترک ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی سطح کا سیاسی عمل فوجی آمریت کے لیے نقصان دہ ہے۔

دونوں فوجی جرنیلوں نے جو ریفرنڈم کروائے ان کا انتظام الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے ریفرینڈم میں انتخابی فہرستیں استعمال کی گئیں جبکہ جنرل مشرف کے ریفرنڈم میں سب کو ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی اور بیلٹ بکس عوامی مقامات پر رکھے گئے تھے۔

جنرل ضیا کے ریفرینڈم سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ سنہ 1981 میں ایم آر ڈی بن چکی تھی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اس اتحاد کا مقصد ملک میں جمہوریت کو بحال کرنا تھا۔ اس اتحاد میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان نیشنل پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی پختونخواہ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، تحریکِ استقلال، عوامی تحریک، پاکستان مسلم لیگ خواجہ خیر الدین گروپ اور ملک قاسم گروپ وغیرہ شامل تھیں۔

ایم آر ڈی کی تحریک سنہ 1983 تک ایک مضبوط آواز بن چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کی وجہ سے خاص طور پر سندھ میں اس تحریک کا بہت زور تھا۔ سندھ میں تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا زیادہ استعمال کیا گیا۔

برطانیہ کی باتھ سپا یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد ڈاکٹر افتخار ملک جنرل ضیا الحق کے ریفرینڈم کے زمانے میں اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ایم آر ڈی کی تحریک کی وجہ سے جنرل ضیا، ان کے دیگر جنرل اور ساتھی دباؤ میں تھے۔ فوجی آمریت کو نافذ کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن اس کو جاری رکھنا اور اس سے باہر آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر افتخار ملک بتاتے ہیں کہ ریفرینڈم کے دنوں میں وہ اسلام آباد میں تھے اور انھوں نے خود دیکھا کہ لوگوں نے باقاعدہ شعوری طور پر اس کا بائیکاٹ کیا۔

‘میں نے دیکھا کہ چند لوگوں نے ووٹ ڈالے جن میں سرکاری ملازمین شامل تھے اور ان سے زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے۔ ہماری یونیورسٹی میں زیادہ تر اساتذہ اس آمرانہ حکومت کے خلاف تھے اس لیے وہ تو ووٹ ڈالنے نہیں گئے لیکن جو کلرک اور دیگر عملہ تھا انھیں زبردستی لے جایا گیا۔ جو لوگ نہیں گئے تھے ان کے نام سے بھی ووٹ ڈلوا دیے گئے۔ تو یہ ریفرینڈم ایک فراڈ تھا جسے اس وقت رِیگرینڈم کہا جاتا تھا۔‘

آمر

ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ جنرل ضیا نے اپنے اقتدار کے لیے جو ڈھانچہ کھڑا کیا تھا وہ ریت کے قلعے کی مانند تھا جو ڈھے گیا۔ تاہم ان کی جانب سے کیے گئے اقدامت کے بہت دور رس اثرات ہوئے جو آج بھی پاکستانی معاشرے میں نظر آتے ہیں۔

‘ایک مؤرخ کے طور پر میں یہ کہوں گا کہ تاریخ کا مطالعہ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن اس سے سبق بہت کم لوگ سیکھتے ہیں۔ ایک بنیادی سبق تو یہ ہے کہ عوام کی یا جمہور کی رائے کو ماننا پڑے گا اور اگر نہیں مانیں گے تو ملک اور معاشرے کو نقصان ہو گا۔‘

‘فوجی حمکران اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں لیکن جلد ہی انھیں ایک قانونی اور اخلاقی جواز کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ سیاسی عمل کو بائی پاس کر کے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ جنرل ضیا الحق نے ریفرینڈم کے ذریعے کیا۔ اسی لیے سیاسی مبصرین اور ماہرین یہی کہتے ہیں کہ شیر پر سوار ہو جانا آسان ہے لیکن اس پر سے اترنا مشکل ہوتا ہے۔‘

ریفرینڈم میں اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کرنے کے بعد جنرل ضیا الحق نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف اقدامات میں اضافہ کیا اور فروری 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کروا دیے۔ اپوزیشن جماعتوں کی تحریکِ بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کر رہی تھی جس کی رہنما بے نظیر بھٹو لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں۔

ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق بے نظیر بھٹو نے اُن غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے سیاسی حکمتِ عملی کے لحاظ سے غلطی کی۔ انھیں کافی عرصہ پاکستان سے دور رہنے کی وجہ سے یہ اندازہ نہیں تھا کہ جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھی پاکستانی سیاست کا چہرہ بڑی حد تک تبدیل کر چکے تھے۔

جنرل ضیا الحق نے باقی ساری اپوزیشن کو نظر بند کر دیا اور ایسے سیاستدانوں کو آنے کا موقع دیا گیا جن کے ساتھ کام کرنے میں جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں کو آسانی ہو۔

عوام کو سنہ 1985 کے ان عام انتخابات میں آٹھ سال کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا موقع مل رہا تھا، اس لیے لوگوں نے بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالے۔ جنرل ضیا الحق کے کئی قریبی ساتھیوں کو شکست ہوئی اور ان کا ساتھ دینے والی جماعتِ اسلامی، جو اس وقت واحد سیاسی جماعت تھی جسے الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکا گیا، بمشکل چند نشستیں ہی حاصل کر سکی۔

ان غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے ووٹوں کی شرح 53 اعشاریہ 69 فیصد رہی جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹنگ کی شرح 57 اعشاریہ 7 فیصد تھی۔

ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق عوام کے اتنی بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے جنرل ضیا الحق کے اقتدار کے باقی تین برسوں کے دوران ایم آر ڈی کا سیاسی اثر بڑی حد تک زائل ہو گیا۔ لیکن ان کے اپنے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلیوں سے ابھرنے والی سیاسی قیادت بھی جلد ہی ان سے متصادم نظر آئی اور جنرل کو یہی اسمبلیاں بری لگنے لگیں۔ نتیجتاً جنرل ضیا نے انھیں برخواست کر دیا۔

اس فیصلے نے انھیں نہ صرف سیاست میں مزید کمزور اور تنہا کیا بلکہ اپنے ادارے میں بھی ان کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔ یہی وہ تضاد ہے جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر بار بار ابھرتا ہے۔ شیر پر سوار تو ہو جاتے ہیں لیکن اسی شیر کے ڈر سے اترنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایوب خان

فوجی جرنیل عوام کی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹتے ہیں، جھوٹے وعدے کرتے ہیں، اپنے سیاسی مخالفین کو کچلتے ہیں، جیلوں میں ڈالتے ہیں اور پھانسیاں دیتے ہیں لیکن اس کے بعد وہ ایک مخمصے میں پھنس جاتے ہیں کہ اپنے لیے قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز کیسے بنائیں۔

ان کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں، اسی لیے یہ فوجی حکمران ریفرینڈم جیسا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی ان ہی کا شروع کیا ہوا سیاسی عمل پھیل کر ایک ایسا جال بن جاتا ہے جس میں وہ خود پھنس جاتے ہیں۔ سیاسی ورکر ان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، صحافی مضامین لکھتے ہیں اور شاعر اپنی نظموں کے ذریعے اس لڑائی کا حصہ بنتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے ریفرینڈم پر حبیب جالب کی نظم ‘ریفرینڈم‘ اسی روایت کی یادگار ہے۔

شہر میں ہو کا عالم تھا جِن تھا یا ریفرینڈم تھا

قید تھے دیواروں میں لوگ باہر شور بہت کم تھا

کچھ باریش سے چہرے تھے اور ایمان کا ماتم تھا

مرحومین شریک ہوئے سچائی کا چہلم تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *