جب اٹل بہاری واجپئی کی حکومت صرف ایک ووٹ سے گر گئی
16 اپریل سنہ 1999 کو جب ڈیڑھ بجے ٹھنڈے تربوز کا جوس پیتے ہوئے اوم پرکاش چوٹالا نے اعلان کیا کہ وہ قومی مفاد میں واجپئی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں تو حکومت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
دھوکہ دہی کے اس کھیل میں حکومت کے چہرے پر وقت سے پہلے ہی مسکراہٹ پھیل گئی تھی لیکن کچھ لوگوں نے نوٹ کیا کہ کسی نے لوک سبھا کے سیکرٹری ایس گوپالن کی طرف چٹ بڑھائی اور گوپالن نے اس پر کچھ لکھا اور اسے ٹائپ کرنے کے لیے بھیج دیا۔
اس ٹائپڈ پیپر میں لوک سبھا کے سپیکر جی ایم سی بالیوگی کا دیا ہوا فیصلہ تھا جس میں کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گردھر گومانگ کو ان کی صوابدید پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی تھی۔
در حقیقت گومانگ فروری میں اڈیشہ کے وزیر اعلی بنے تھے لیکن اس وقت تک انھوں نے اپنی لوک سبھا رکنیت سے استعفی نہیں دیا تھا۔
سینیئر صحافی سویپن داس گپتا نے 10 مئی 1999 کے انڈیا ٹوڈے کے شمارے میں لکھا: ’اس رات کوئی بھی نہیں سویا تھا۔ حکومت کی طرف سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رنگراج کمار منگلم نے یہاں تک کہ مایاوتی کو یقین دلایا کہ اگر سکرپٹ پر فیصلہ ہوا تو وہ شام تک اتر پردیش کی وزیراعلی بن سکتی ہیں۔‘
’کیمپ میں ان کی سرگرمیاں دیکھنے کے بعد حزب اختلاف کے قائد شرد پوار ان کے پاس پہنچ گئے۔ مایاوتی ان سے جاننا چاہتی تھیں کہ اگر انھوں نے حکومت کے خلاف ووٹ دیا تو کیا حکومت گر جائے گی؟ پوار کا جواب ’ہاں‘ تھا۔ جب ووٹ ڈالنے کا وقت آیا تو مایاوتی نے اپنے ممبران پارلیمنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے زور سے چیخا، لال بٹن دبائیں۔
جب سبھی نے الیکٹرانک سکور بورڈ کی طرف نگاہ ڈالی تو سارا ہاؤس لرز اٹھا۔ واجپئی حکومت کے حق میں 269 اور حزب اختلاف کے حق میں 270 ووٹ تھے۔
بطور وزیراعظم واجپئی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ ان کی حکومت کو ’ہنی مون‘ کا وقت بھی نہیں ملا۔
شکتی سنہا جنہھوں نے حال ہی میں واجپئی پر ایک کتاب ’واجپئی دی ایئر دیٹ چینجڈ انڈیا‘ لکھی ہے ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت بنانا مشکل تھا۔ یہاں تک کہ پہلے ہی دن سے وزارتوں کے معاملے پر فریقین میں مسائل تھے۔ ایک ہی ہفتہ میں دو وزرا کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس وجہ سے کافی دِل جل گئے تھے۔‘
’جے للیتا پہلے دن سے شور مچا رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرے وزرا جن کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں ان کو بھی ہٹا دیا جانا چاہیے۔ پھر سپیکر کے انتخاب کے بارے میں کافی الجھن پیدا ہو گئی۔ بحث میں جو زبان استعمال کی گئی وہ غیر پارلیمانی تھی۔
’یہاں تک کہ امریکہ میں جب نیا صدر اقتدار سنبھالتا ہے تو اسے 100 دن کی گریس مدت دی جاتی ہے۔ ایک دو ماہ وہ اس حکومت کے بارے میں پرجوش ہوتا ہے اور لوگ ان پر کم تنقید کرتے ہیں۔ اٹل بہاری واجپئی اس سے محروم رہے۔ وہ خوش قسمت نہیں تھے۔‘