عالمی ادارہ صحت کی کورونا وائرس ویکسین کی

عالمی ادارہ صحت کی کورونا وائرس ویکسین کی

عالمی ادارہ صحت کی کورونا وائرس ویکسین کی برآمد پر پابندیاں عائد کرنے پر یورپی ممالک پر تنقید

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے یورپی ممالک پر کورونا وائرس کی ویکسین کی یورپی حدود سے باہر برآمد پر پابندیاں عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات سے وبا پر قابو پانے میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔

یورپی یونین نے یہ پابندی اس وقت عائد کی جب ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے یورپی ممالک کو ویکسین کی فراہمی میں کمی کے امکان پر تنازع پیدا ہوا۔

تاہم عالمی ادارہ صحت کی نائب سربراہ میرانجیلا سیماؤ نے کہا کہ یہ بہت پریشان کن رحجان ہے۔

اس سے قبل ڈبلیو ایچ او کے سربراہ تیدروس ادھانوم غبرائسس نے کہا تھا کہ ویکسین پر قومی تسلط سے اس وبا سے چھٹکارا حاصل کرنے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔

ایک آن لائن اعلیٰ سطحی اجلاس، ڈیوس ایجنڈا، میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی سے وبا طویل عرصے تک رہ سکتی ہے، جس سے معاشی بحالی سست روی کا شکار ہو گی اور اس طرح کے اقدامات اخلاقی دیوالیہ کا سبب بنیں گے، جس سے عالمی سطح پر عدم مساوات مزید بڑھ سکتی ہے۔

یوریی یونین کیا کر رہی ہے؟

ویکسین کی فراہمی میں کمی کے تنازع کے بعد یورپی یونین اب اپنی حدود میں تیار ہونے والی ویکیسن کی برآمد پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔

اگر ویکسین تیار کرنے والی کمپنی یورپی ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر پورا نہیں اترتی تو یہ نام نہاد قسم کا شفافیت کا نظام یورپی یونین میں شامل ممالک کو یہ اختیارات دیتا ہے کہ وہ ویکیسن کی دوسرے ممالک تک رسائی پر پابندی عائد کر دیں۔

یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ ‘ہمارے لیے اپنے شہریوں کا تحفظ ترجیح ہے اور اس وقت ہمیں جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں اس طرح کے اقدامات اٹھانے کے سوا کوئی اور رستہ نہیں بچا ہے۔‘

ان پابندیوں سے دنیا بھر میں سو سے زائد ممالک متاثر ہوں گے، جس میں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ مگر کئی اور ممالک کو اس پابندی سے استثنیٰ حاصل ہے جس میں غریب ممالک بھی شامل ہیں۔

تاہم یورپی یونین کو اس طرح کی پابندی کے اقدامات سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا، جب سرحد کی دوسری طرف آئرلینڈ، ڈبلن اور لندن میں اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

یورپی یونین کا اصرار ہے کہ اس کی طرف سے پاپندی عائد کرنے کا یہ قدم عارضی ہے اس کا مقصد ویکسین کی برآمد کو روکنا نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *