جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی اس ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار کون اور شو میزبان کو کیا کرنا چاہیے؟

پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے پرائم ٹائم ٹاک شو ’کل تک جاوید چودھری کے ساتھ‘ کا ایک کلپ وائرل ہے، جس میں پروگرام کے مہمان آپس میں تلخ کلامی اور سخت جملوں کے تبادلے کے بعد ایک دوسرے پر تھپڑ اور مکے برساتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پروگرام میں ہاتھا پائی کرنے والے یہ مہمان مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی کور کمیٹی کے رکن اور وکیل شیر افضل خان مروت ہیں۔

واضح رہے یہ پروگرام براہ راست نشر نہیں کیا گیا تھا اور دونوں سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ جھگڑا بدھ کے روز ہونے والے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ہوا تاہم سوشل میڈیا پر اس کا کلپ وائرل ہوا۔

پروگرام کا مختصر کلپ وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے جہاں اس جھگڑے کی مذمت کی تو وہیں کچھ لوگوں نے اس واقعے کی ویڈیو ٹی وی سٹوڈیو سے لیک ہونے اور ایسی صورتحال میں پروگرام اینکر کی ذمہ داری پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

اس وائرل ویڈیو کلپ میں کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اس وائرل ویڈیو کلپ میں پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے رکن شیر افضل خان مروت اپنی اپنی سیاسی جماعت کے بیانیے پر بحث کر رہے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی قیادت کا دفاع کر رہے ہیں۔

اس دوران بات بڑھتی ہیں اور دونوں مہمان ایک دوسرے کی سیاسی قیادت کی کردار کشی سے متعلق جملے کستے ہیں اور اسی گرما گرمی میں دونوں مہمان ذاتی نوعیت کے لفظی حملے کرنے لگتے ہیں۔

اس دوران پروگرام اینکر جاوید چودھری ایک دو مرتبہ مہمانوں کو ٹوکتے ہوئے تلخ کلامی سے روکتے ہیں۔

اسی اثنا میں پی ٹی آئی کے شیر افضل خان مروت اپنی نشست سے اٹھتے ہیں اور ساتھ بیٹھے مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان کو تھپڑ رسید کر دیتے ہیں۔ جس کے بعد دونوں مہمان دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔

ٹاک شو

اس دوران پروگرام اینکر جاوید چودھری دونوں کو ہاتھا پائی روکنے کا کہتے ہیں اور فوراً سٹوڈیو میں موجود عملے کو اندر آ کر مہمانوں میں بیچ بچاؤ کروانے کا کہتے ہیں۔

کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پروگرام اینکر بھی اپنی نشست سے اٹھ کر دونوں مہمانوں کے قریب آتے ہوئے ڈاکٹر افنان کو شیر افضل خان مروت کو چھوڑنے کا کہتے ہیں۔ جس کے بعد سٹوڈیو میں موجود ایک شخص ڈاکٹر افنان کو پکڑ کے ایک طرف لے جاتا ہے۔

واضح رہے کہ بدھ کی شب ہونے والی اس ریکارڈنگ کے بعد یہ پروگرام ٹی وی پر نشر بھی کیا گیا تھا تاہم اس میں اس لڑائی والے حصے کو کاٹ دیا گیا تھا۔

تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ سینیئر صحافی و اینکر پرسن جاوید چودھری کے پروگرام میں ایسا ہوا ہو۔ اس سے قبل بھی جون 2021 میں ان کے ایک پروگرام میں اس وقت پی ٹی آئی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے لفظی تکرار کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما قادر مندوخیل کو تھپڑ رسید کر ڈالا تھا۔

ناخوشگوار واقعے پر لڑنے والے سیاستدانوں کا کیا ردعمل ہے؟

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک جاوید چودھری کے پروگرام میں ہاتھ پائی کرنے والے مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی رہنما شیر افضل خان مروت نے وائرل کلپ کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنا ردعمل دیا۔

شیر افضل خان مروت نے اس واقعے پر کہا کہ ’ ایکسپریس ٹی وی کے میزبان جاوید چوہدری گذشتہ رات ہونے والے ناخوشگوار واقعے کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔‘

’وہ یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ میرا مخالف کوئی سپرمین تھا۔ وہ یہ نہیں بتا رہے تھے کہ افنان نے سٹوڈیو سے بھاگ کر قریبی کمرے میں پناہ لی، جس کا مجھے آج ان کا پروگرام دیکھ کر پتا چلا۔ میں تقریباً پانچ سے سات منٹ تک سٹوڈیو میں رہا۔ بعد میں،مجھے بتایا گیا کہ اس حصے کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور میں وہاں سے چلا گیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے متعصب ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جو میں اتوار کو میڈیا سے شیئر کروں گا۔ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ اور مجرمانہ شکایت کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں اور اپنی ریکارڈ شدہ آڈیو گفتگو بھی شیئر کروں گا جو آج ان کے اور میرے درمیان ہوئی۔ میرے پاس اس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں۔ دیکھتے رہنا۔‘

جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے اس واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’مروت نے کل ٹاک شو میں مجھ پر حملہ کیا، میں عدم تشدد پر یقین رکھتا ہوں مگر میں نواز شریف کا سپاہی ہوں۔ جو پھینٹا مروت کو لگایا ہے یہ تمام پی ٹی آئی اور بالخصوص عمران خان کے لیے ایک اہم سبق ہے، کہیں شکل دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، بڑی بڑی کالی عینکیں لگانی پڑیں گی۔‘

پروگرام اینکر جاوید چودھری کا کیا موقف ہے؟

اس ناخوشگوار واقعے پر جب ہم نے پروگرام کے اینکر و سینیئر صحافی جاوید چودھری سے سوال کیا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ان کے پروگرام میں ایسا واقعہ پیش آیا ہو تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو یہ واقعتاً ایک قابل مذمت واقعہ ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن کیونکہ یہ اچانک ہوا اور ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر دو لوگ بیٹھے ہوں تو ایک اچانک اٹھ کر دوسرے پر کافی پھینک دے گا یا ہاتھا پائی کرے تو آپ کو کیسے پتا چل گا یہ وہ یہ قدم اٹھانے لگا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آج تک ایسی کوئی مشین نہیں بنی جو کسی انسان کی نیت کو جانچ سکے کہ وہ چند لمحوں بعد کیا کرنے والا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک میرے شو میں ایسے واقعات کا بار بار ہونے کا تعلق ہے تو میں ہفتے میں چار دن شو کرتا ہوں جس کے حساب سے ایک مہینے میں 16 پروگرام اور اگر اس کو ایک سال سے ضرب دیں تو 192 شو اور میں گذشتہ 16 برس سے مسلسل شو کر رہا ہوں تو یہ آج تک 3072 شو بنتے ہیں۔ تو اتنے شوز میں صرف دو مرتبہ ایسے واقعات ہوئے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بار بار صرف میرے شو میں ہی ایسا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ’فضائی کمپنی ایک عرصے سے کام کر رہی ہے اور اس کے دو جہاز حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر بار اس فضائی کمپنی کے جہاز کو حادثہ پیش آتا ہے۔‘

اینکر پرسن جاوید چودھری کا مزید کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نوعیت کا یہ دوسرا واقعہ ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور میں اس پر افسوس ہی کر سکتا ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں اس متعلق اندازہ ہوتا تو ہم اس سے بچاؤ کا کوئی سدباب کرتے لیکن ٹی وی شو میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں کو لوگوں کے کسی فوری عمل کو کنٹرول کر سکے۔ ہمارے پاس صرف یہ ہی حل تھا کہ ہم نے شو کو بند کر دیا اور دونوں افراد کو چھڑایا اور نشر ہونے والے شو میں اس حصے کو شامل نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں مستقبل میں کوشش کروں گا کہ ایسا واقعہ نہ ہوں۔‘

لیکن شو کا میزبان یا اینکر تو اپنے پروگرام اور اس میں ہونے والے مباحثے کی سمت کا تعین کرتا ہے، کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ٹاک شوز میں سخت نکات پر بحث ہوتی ہیں، پروگرام میں شریک مہمان ہارڈ ٹاک بھی کرتے ہیں تو جب سخت مباحثہ ہوتا ہے تو اس کو کنٹرول کرنے کے لیے ہم مہمانوں کو چپ کروا لیتے ہیں، وقفہ لے لیتے ہیں یا کسی مہمان کا مائیک بند کر دیتے ہیں لیکن اگر کوئی اچانک اٹھ کر کسی دوسرے کو تھپڑ مار دے تو کوئی ایسے میں فوری کچھ کر سکے گا۔‘

javed ch

پروگرام کا کلپ کیسے لیک ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی و پروگرام اینکر جاوید چودھری کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دو چیزیں ہیں۔

’جب یہ واقعہ ہوا تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم نہ اس بارے میں کوئی تبصرہ کریں گے نہ بتانا ہے اور نہ ہی شو میں اس بارے میں ذکر کریں گے اور 24 گھنٹے تک میں اور میری ٹیم نے اس متعلق کوئی بات نہیں کی۔‘

جاوید چودھری شو میں پیش آئے ناخوشگوار واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر ذکر کی ذمہ داری پروگرام میں شریک مہمانوں پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب یہ شو بدھ کی شب آن ایئر ہو رہا تھا تو پروگرام میں شریک مہمانوں نے باہر جا کر اس بارے میں بات کرنا شروع کر دی۔ سب سے پہلے شیر افضل خان مروت نے وسیم بادامی کے شو پر جا کر نہ صرف سارا واقعہ بیان کیا بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھوں نے اس (افنان اللہ خان) کو بہت مارا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے افنان اللہ خان نے اس بارے میں بات کرنا شروع کی اور پھر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے ٹویٹس آئی اور بعدازاں دونوں جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔‘

انھوں نے اس طرح کے واقعات کی وجہ پاکستانی معاشرے خصوصاً سیاست میں عدم برداشت کے رجحان کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ کچھ عرصے سیاسی کلچر میں ایک تبدیلی آئی ہے اور سیاستدان سمجھتے ہیں کہ جو اونچی آواز میں بولے گا، کسی کے گلے پڑے گا یا جو کسی کو تھپڑ مارے گا وہ نہ صرف مشہور ہو جائے گا بلکہ قیادت اس کی پذیرائی کرے گی اور وہ سیاسی قیادت کے قریب سمجھا جائے گا۔ اس سوچ نے معاشرے میں عدم برداشت کی بنیاد رکھ دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ایسے رویوں کی ذمہ دار ہیں اور انھیں سوچنا پڑے گا کہ ہمیں اس رجحان کو روکنا پڑے گا اور جو شخص بدتمیزی کرے گا اسے نوٹس دے کر پارٹی سے نکالنا چاہیے۔

انھوں نے رائے دی کہ جب تک سیاسی جماعتیں کوئی اقدامات نہیں کریں گی یہ چیزیں ٹھیک نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ٹی وی پر تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر گذشتہ دس سال سے جاری سیاسی بدتمیزی کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

ویڈیو کلپ چینل سے لیک ہونے پر جاوید چودھری کہتے ہیں کہ ’ہم نے 24 گھنٹے تک اس ویڈیو کو روکے رکھا اور اسے لیک نہیں ہونے دیا مگر ہماری ریکارڈنگ کے دوران یہ پروگرام اسلام آباد سٹوڈیو کے علاوہ ایکسپریس چینل کے ہیڈ آفس لاہور اور کراچی دفتر میں بھی ریکارڈ ہوتا ہے۔ لہذا جب آپ کا نیٹ ورک اتنا پھیلا ہو تو آپ کے لیے ایسی ویڈیو کو لیک ہونے سے بچانا تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ویڈیو لیک ہوئی ہے، اس بارے میں ہم تحقیقات کر رہے ہیں اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ادارتی سطح پر نظام بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے دور میں یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی اس کو روکنا مشکل ہے۔

Talk Show

ایسی صورتحال میں شو کے میزبان کو کیا کرنا چاہیے؟

اس وائرل کلپ میں دونوں سیاستدان جب تلخ کلامی کر رہے تھے تو پروگرام کے میزبان جاوید چوہدری نے وقفے وقفے سے انھیں ٹوکنے کی بھی کوشش کی مگر ان کی ہاتھا پائی کے دوران زیادہ کچھ کر نہ سکے۔

مگر ایک شو کے میزبان کو ایسی صورتحال سے بچنے یا بات اس نوبت تک نہ پہنچنے سے روکنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

اس بارے میں صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ہاں ٹی وی پر دو طرح کے پروگرام دیکھنے کو مل رہے ہیں جس میں ایک میں پروگرام اینکر کی یہ کوشش ہوتی ہیں کہ ٹاکنگ پوائنٹس ایسے ہوں جس پر مہمانوں کے درمیان تبادلہ خیال زیادہ اور نتیجہ خیز ہو جبکہ دوسرا ایسا بھی رجحان ہے کہ جس میں پروگرام میں شامل کچھ ایسے نکات ہوں جس پر سخت گفتگو ہوا اور مباحثہ ہوں۔ ایسے میں اینکر کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ پروگرام میں شریک مہمانوں کو صرف پروگرام کے کانٹینٹ تک محدود رکھے اور اگر بات اس سے ہٹ کر تلخ کلامی یا گالم گلوچ پر جا رہی ہے تو مہمان کو وہیں پر ٹوکا جائے کہ موضوع پر ہی گفتگو کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بہت مرتبہ شو کے میزبان کی طرف سے مداخلت کی جاتی ہے لیکن کسی مدعے پر گرما گرم بحث کے دوران پروگرام میں شریک مہمان اس کو نظر انداز کرتے ہوئے واپس اسے نقطے پر آ جاتے ہیں۔ ایسے میں پروگرام میزبان کے لیے شو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ’مگر اگر بار بار کسی پروگرام میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں تو اینکر کو ضرور یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے پروگرام کے موضوع یا کانٹینٹ میں کہاں مسئلہ ہے۔‘

انھوں نے جاوید چودھری کے پروگرام کے کلپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں پر بھی یہ ہی مسئلہ ہوا ہے کیونکہ جب کسی مہمان کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں تو وہ ذاتی نوعیت کے بہتان یا الزامات پر بات کرنا شروع کر دیتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ تمام لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جب آپ ایک ٹی وی ٹاک شو میں بیٹھے ہیں اور مہمان آپ کی بات نہیں سن رہے اور مہمان بھی وہ جنھیں اپنے عمل پر کوئی ندامت نہیں۔‘

انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسی صورتحال بن جائے تو کسی بھی شو کا میزبان وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بریک پر جا سکتا ہے اور اس دوران مہمانوں کو سمجھا سکتا ہے۔

انھوں نے ماضی میں اپنے ساتھ پیش آئے ایک ایسے ہی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے اسی وقت صورتحال کو بھانپا اور فوراً بریک لی۔‘

مہمانوں کے چناؤ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس حوالےسے زیادہ آپشنز موجود نہیں اور بیشتر اوقات چند افراد ہی مخلتف چینلز پر جا رہے ہوتے ہیں لیکن ایسے میں آپ کا کانٹینٹ ہی آپ کی واحد ڈھال بنتا ہے۔‘

پروگرام اینکر ثمر عباس بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے صحافتی کیرئر میں کئی مرتبہ ایسے ہوا جہاں مہمان آپس میں لڑ پڑے تو میں نے فوراً بریک لے لی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں جب بحث بہت زیادہ بڑھ گئی یا شدت اختیار کر رہی ہے تو اینکر سب سے پہلے اس بحث کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر معاملہ زیادہ بڑھ رہا ہو تو آپ بریک لے لیتے ہیں اور اس دوران معاملہ فہمی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کل بہت سے اینکر ریٹنگ کے چکر میں ان واقعات میں مداخلت نہیں کرتے کیونکہ اس طرح کے کلپ وائرل ہونے سے ان کی ریٹنگ اور شہرت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ثمر عباس کا کہنا تھا کہ اینکر بریک پر مہمانوں کو سختی سے کانٹینٹ تک محدود نہ رہنے کی صورت میں شو سے اٹھانے کی تنبیہ بھی کر سکتا ہے۔

کیا ایسی صورتحال میں پروڈکشن ٹیم بھی مداخلت کر سکتی ہے، کے سوال پر ثمر عباس کا کہنا تھا کہ شو میزبان ہی کسی پروگرام کا کپتان ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *