توہین مذہب کے الزام کا خوف لگتا ہے

توہین مذہب کے الزام کا خوف لگتا ہے

توہین مذہب کے الزام کا خوف لگتا ہے کسی بھی وقت کوئی ہمیں ختم کر دے گا

یہ آج سے ٹھیک گیارہ برس پہلے اگست سنہ 2012 کی بات ہے جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں چودہ سالہ بچی رمشا مسیح کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔

مہر آبادی نامی کچی بستی میں رمشا مسیح کاغذ چن رہی تھیں جب ایک لڑکے نے ان سے کہا کہ وہ اپنا تھیلا ان کے حوالے کر دیں۔ رمشا مسیح نے ایسا ہی کیا۔ وہ پلاسٹک کا یہ تھیلا لے کر علاقے کے امام مسجد کے پاس پہنچا اور یہ تھیلا ان کو دے دیا۔

کچھ دیر بعد امام مسجد نے وہاں پولیس کو بلایا اور انھیں ثبوت کے طور پر دین اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید کے صفحات پکڑائے اور بتایا کہ ’اس لڑکی نے قرآن کی توہین ہے۔ یہ ان کی مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔‘

رمشا مسیح کے ساتھ کیا ہوا، یہ جاننے سے پہلے ان کے اردگرد رہنے والی مسیحی برادری کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ ان پر اس واقعے کے بعد کیا گزری۔

رمشا مسیح پر توہین مذہب کا الزام اور ان کی گرفتاری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ملک بھر میں انتشار کا خطرہ تھا۔ مہر آبادی کے مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔

اسی روز اس کچی بستی کی جھونپڑیوں میں رہنے والی مسیحی برادری کے 1300 افراد نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور جان بچانے کے لیے کسی محفوظ مقام کی تلاش میں نکل پڑے۔ کوئی رشتہ داروں کے گھر پہنچا اور کوئی راولپنڈی کی کچی آبادیوں میں عارضی خیمے لگا کر بیٹھ گیا۔

توہین مذہب کا الزام، احتجاج
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا کوئی نئی بات ہے نہ ہی ان خاندانوں کی تکلیف بھری کہانیاں

’میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ میرا نام کسی نے پوچھا تو کہنا کہ میں داود ہوں۔۔۔‘ اس بستی سے نکلنے والے ایک شخص نے مجھے بتایا۔ وہ اب پاکستان کے ہی ایک بڑے شہر میں رہائش پذیر ہیں۔

جب انھیں خبر ہوئی کہ توہین مذہب کا واقعہ ہوا ہے تو وہ رات کا انتظار کیے بغیر نکل پڑے۔ ان کے تین بھائی اور ان کے اہلخانہ، والدین اور ان کے اپنے بیوی بچے مہر آبادی میں ہی مقیم تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ آگے کیا ہو گا۔ ہم جہاں بھی گئے کسی کو یہ نہیں بتایا کہ ہم کون ہیں اور ہمارا مذہب کیا ہے۔ اپنے سامان میں کراس رکھا نہ بائبل رکھی۔ سب وہیں چھوڑ آئے تھے۔ ہم میں سے جن کے بچوں کے نام کرسچن تھے ان کے نام بدل دیے۔

’بچوں کو بتایا کہ کسی کو اپنا پورا نام نہ بتانا۔ ان چند ہفتوں میں یہی لگتا تھا کہ کسی بھی وقت کوئی آئے گا اور ہمیں بچوں سمیت آگ لگا دے گا۔ یوں سامنے موت کھڑی رہتی تھی۔‘

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا کوئی نئی بات ہے نہ ہی ان خاندانوں کی تکلیف بھری کہانیاں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 1994 سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کئی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے جبکہ درجنوں واقعات میں املاک اور عبادت گاہوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

ان حملوں سے پہلے عام طور پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ یہی الزام لگے۔ جن کیسز پر آج تک کچھ تحقیق یا کارروائی سامنے آئی ان سے یہ ضرور طے ہوا کہ یہ الزام عام طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد ذاتی رنجش بنتی ہے۔

رواں ماہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے متعدد گھر اور عبادت گاہیں جلائی گئیں اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی۔

توہین مذہب کا الزام لگا اور دو افراد حراست میں بھی لیے گئے۔ جلاؤ گھیراؤ کرنے کے الزام میں بھی 100 سے زائد افراد اس وقت پولیس کے پاس قید ہیں مگر کیا انھیں سزا مل سکے گی؟

اسلام آباد

’ذاتی لڑائی کا بدلہ لینے کے لیے توہین مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے‘

یہ واقعات ملک کے کسی بھی علاقے میں ہوں، ان کا خوف ہر طرف پھیل جاتا ہے۔ اقلیت میں موجود ان شہریوں کا تعلق کسی بھی مذہب حتیٰ کہ اسلام کے کسی اقلیتی فرقے سے ہی کیوں نہ ہو، وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔

بی بی سی نے اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد میں کم از کم پانچ خاندانوں سے رابطہ کیا۔ ان سب نے کسی بھی قسم کے انٹرویو سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بمشکل اپنی ’سانسیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ یہ وہ خاندان ہیں جو پاکستان کے مختلف علاقوں سے اپنی جان بچا کر بھاگے ہیں۔

رمشا مسیح کے واقعے کو ہوئے ایک دہائی سے زیادہ مدت گزر گئی۔ اس دن مہر آبادی سے جان بچا کر نکلنے والے کچھ خاندان ایک محلے میں پہنچے تھے۔ گیارہ برس بعد میں ان سے ملنے اسی محلے پہنچی۔

اس محلے میں داخل ہوں تو تنگ سی گلیاں ہیں جہاں ایک وقت میں بمشکل دو افراد ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ ان تنگ گلیوں کے دونوں جانب کھلی نالیاں ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی موٹر سائیکل سوار آ جائے تو پریشانی ہو سکتی ہے۔

ان گلیوں میں سے ایک کے آخری سرے پر پانی کا ٹیوب ویل (نل) نصب ہے۔ اس کے نیچے فرش اور دیوار پر کائی ہے۔ نل کے نیچے پڑے پانی کے درجنوں گیلن جو کبھی سفید ہوتے ہوں گے، اب پیلے پڑ چکے ہیں۔ یہاں ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ بار بار پمپ چلاتا ہے اور پانی کی بوتلیں بھر رہا ہے۔ اس کے گرد کھڑے بچے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔

کچھ دروازوں پر پھٹے پرانے پردے ڈالے گئے ہیں۔ ان گلیوں میں مرد، خواتین اور بچوں کی چہل پہل بھی جاری ہے مگر یہاں خوف اور گلہ بھی ہے جو یہاں رہنے والوں کی آنکھوں میں واضح ہے۔ یہ خوف اس قدر بڑھ چکا ہے کہ کوئی سامنے آنے کو تیار نہیں۔

’ہم خود کو پاکستان میں ایک فیصد بھی محفوظ نہیں سمجھتے۔ ہم چوبیس گھنٹے خطرے میں ہیں۔ ہم کیا کریں؟ کہاں جائیں؟‘ مقامی چرچ کے پاسٹر یوسف نے مجھے بتایا۔

چھوٹے سے چرچ کے گیٹ پر تالا لگا تھا۔ انھوں نے دروازے کھلوائے مگر چرچ کے اندر سخت گرمی تھی۔ ’بیٹا جاو ساتھ والے گھر سے بولو بجلی کھول دیں‘۔ کچھ دیر میں پنکھے چل پڑے۔

پاسٹر یوسف نے کئی اداروں کے رویے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک کی کسی مسجد میں ایسا نہیں ہو گا کہ انھیں بجلی نہ دی جائے۔ مجھے یاد نہیں کہ کتنے سال ہو گئے ہیں اور میں اس چرچ میں بجلی کے انتظام کے لیے دھکے کھا کھا کر تھک گیا ہوں۔ ساتھ والے گھر سے کنیکشن لیا ہوا ہے۔ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں؟‘

یہیں موجود ایک اور شہری کہتے ہیں کہ جب تک حکومتیں ایسے واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں نہیں دیں گی، یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا۔

’پہلے اتنا خوف نہیں تھا۔ جڑانوالہ واقعے کے بعد تو ڈر اور خوف بہت بڑھ گیا۔ اب ڈر ہی لگتا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی انتشاری آئے گا اور ہمیں ختم کردے گا۔ کوئی تعلیم یافتہ اور اپنے مذہب کی تقلید کرنے والا مسلمان ایسا نہیں کر سکتا۔ میں تو حکومت سے یہی کہوں گا کہ شرپسندوں کے خلاف قوانین بنائیں اور انھیں سزائیں دیں تاکہ یہ دوبارہ نہ ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی بھی مذہب کی ’بے حرمتی کی ہے تو اس کو قانون کے مطابق سزا دیں مگر یہاں تو ذاتی لڑائی کا بدلہ لینے کے لیے توہین مذہب کا الزام لگایا جاتا ہے۔ کیا اب تک جھوٹے الزام لگانے والوں کو سزا ہوئی ہے؟‘

پاکستان میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت اورجلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سزا اور جزا کا فیصلہ ہجوم اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور نہتے شہری، جو عام طور پر معصوم ہوتے ہیں، ایسے ہجوم کے جبر کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں یا اپنے گھر اور املاک ایک جذباتی اور غصے سے بھرے ہجوم کے لوٹنے کے لیے چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔

جڑانوالہ
رواں ماہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے متعدد گھر اور عبادت گاہیں جلائی گئیں اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی

اسی محلے کے ایک اور رہائشی بھی جڑانوالہ واقعے کے بعد افسردہ ہیں۔ ان کے مطابق جلاؤ گھیراؤ کسی مسئلے کا حل نہیں۔

’ہم کہتے ہیں اگر کوئی گستاخی کرتا ہے تو تھانے بھیجیں، پھر پولیس جانے اور عدالت جانے۔ یہ کیا کہ کسی کا گھر بار لوٹ لینا، آگ لگا دینا۔ لوگ تباہ ہو گئے، ہماری جوان بچیاں کھیتوں میں سوئیں، اس بات کا بہت دکھ ہے۔‘

وہ ان واقعات کا ذمہ دار حکومت اور ریاستی اداروں کو ٹھہراتے ہیں ہوئے کہتے ہیں کہ ’کل میرے دفتر میں لوگ کہنے لگے کہ وہاں (جڑانوالہ) طالبان گھسے ہوں گے۔ میں چاہتا تھا کہ بات کروں مگر میں خاموش رہا۔ یہ غلط ہے۔ ہمارا تو جو نقصان ہونا تھا ہوگیا مگر اس ملک کی بدنامی ہوئی۔ اگر کسی مسجد میں بھی ایسا واقعہ ہو تو ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ کیونکہ عبادت گاہیں تو خدا کا گھر ہیں۔‘

’بچوں کو کہا ہے کہ زبان بند اور نظر نیچی رکھنی ہے‘

اسی محلے میں مجھے ایک خاتون بھی ملیں، جن کے تین بچے ہیں۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے بچوں کو کیا نصیحت کرتی ہیں تو ان کا جواب میرے لیے کافی حیران کن تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے بچوں کو یہ سبق یاد کروا دیا ہے کہ انھوں نے زبان بند اور نظر نیچی رکھنی ہے۔ کوئی کچھ بھی کہہ دے، کوئی تمہیں اور تمہارے مذہب کو گالی دے، تم نے چپ رہنا ہے اور صبر کرنا ہے۔ ورنہ صرف تمہارے گھر کو ہی نہیں، اس بستی کو بھی آگ لگ جائے گی۔ جڑانوالہ کا واقعہ دیکھ کر میرے بچوں کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے۔‘

یہ خاتون حکومت اور ریاستی اداروں دونوں سے ہی سخت نالاں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر یہ ہمارا ملک نہیں تو پھر بتائیں کہ ہمارا کون سا ملک ہے؟ کہیں کوئی ذرا سی بات ہو سب ہم پر چڑھائی کر لیتے ہیں، ہم کہاں جائیں، کس کی مدد لیں۔ حملے کے وقت نہ پولیس آتی ہے نہ کوئی اور تحفظ کے لیے آتا ہے۔ بعد میں سب آ جاتے ہیں۔ جانی مالی نقصان ہو جاتا ہے۔ کیا آپ کسی کا بیٹا بیٹی لا کر دے سکتے ہیں؟‘

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو اقلیتی برادری پر حملوں کی مذمت کرتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے رہائشی جلال خان کہتے ہیں کہ جڑانوالہ میں جو ہوا وہ ’ظلم‘ تھا۔

’خدا نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ صرف مسلمان کا خدا ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ وہ پورے عالم کا خدا ہے۔ جو کچھ جڑانوالہ میں ہوا اس پر افسوس ہے۔ ایسا کرنے والوں کا نہ کوئی ایمان ہے نہ مذہب‘۔

اسی طرح خیبرپختونخوا کے حکمت اللہ کہتے ہیں کہ اسلام میں ’شریعت اجازت نہیں دیتی کہ کسی کی جان یا مال کو نقصان پہنچایا جائے۔ یہ مذہب کے نام پر غلط کر رہے ہیں، اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو جہالت ہے۔ انھیں اسلام کا تھوڑا سا بھی پتا ہوتا تو یہ سب ظلم نہ کرتے۔‘

چرچ
پاسٹر یوسف کئی سال سے چرچ میں بجلی کے انتظام کے لیے کوشش کر رہے ہیں

توہین مذہب پر قتل ہونے والوں کے اعدادوشمار

رمشا مسیح کی گرفتاری کے بعد گزشتہ بارہ برس میں حالات نہیں بدلے۔ متعدد ایسے واقعات ہوئے ہیں جب پرتشدد ہجوم نے سرکاری املاک، عبادت گاہوں اور عام شہریوں پر حملے کیے۔ ان میں سے زیادہ تر حملے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر کیے گئے۔ بیشتر میں ہلاکتیں بھی ہوئیں جبکہ تمام حملوں میں سرکاری املاک اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا۔

گزشتہ ایک سال کے دوران ان واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف ایک سال میں ہی بیس مختلف واقعات میں اقلیتی برادری کے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

سنہ 2017 میں مشعال خان کو ان کی یونیورسٹی میں پرتشدد ہجوم نے قتل کر دیا۔ ان پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا۔

سنہ 2014 میں کوٹ رادھا کرشن میں شمع اور شہزاد نامی جوڑے کو ایک ہجوم نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں اینٹوں کے بھٹے میں جلا دی گئیں۔

اسی برس ایک مشتعل ہجوم نے گوجرانوالہ میں احمدی کمیونٹی کے گھروں پر حملہ کیا گیا۔ ایک خاتون اور دو کمسن بچیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

سنہ 2013 میں بادامی باغ لاہور میں مشتعل ہجوم نے عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے گھروں پر دھاوا بول دیا۔ یہاں جوزف کالونی کے ایک رہائشی پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔

سنہ 2012 میں بہاولپور کے علاقے چنیگوٹھ میں ایک شخص کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا اور پولیس نے انھیں گرفتار کیا۔ مشتعل ہجوم نے پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور مذکورہ شخص کا قتل کر دیا۔

سنہ 2009 میں شیخوپورہ میں ایک فیکٹری کے مالک محمد نجیب ظفر کو ایک مشتعل ہجوم نے قتل کر دیا۔ پولیس کو واقعے سے پانچ گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ مشتعل ہجوم کے حملے کا خطرہ ہے۔ نجیب ظفر کا فیکٹری کے ورکرز کے ساتھ اس وقت جھگڑا ہوا جب انھوں نے مبینہ طور پر ایک کلینڈر دیوار سے اتارا۔ ان پر بھی توہینِ مذہب کا الزام لگا۔

اسی سال ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے گوجرہ میں چھ مسیحی شہریوں کو اس وقت زندہ جلا دیا گیا جب ایک مشتعل ہجوم نے ان کے گھروں پر حملہ کیا۔ ان سے متعلق علاقے میں توہین مذہب کی افواہ پھیلائی گئی۔ قتل ہونے والوں میں چار خواتین اور ایک بچہ شامل تھا۔

سنہ 2018 میں کراچی میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے 27 سال کے جگدیش کمار کو ان کے درجنوں ساتھیوں نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ ان پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔

مئی 2021 میں مشتعل ہجوم نے دارالحکومت اسلام آباد کے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا۔ یہاں توہینِ مذہب کے الزام میں دو بھائی قید تھے۔

اسی برس اگست میں رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر پر حملہ کیا۔ نومبر میں چارسدہ میں ایک پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی گئی اور دسمبر میں ایک ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کو ہلاک کر دیا۔

پریانتھا کمارا
سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں توہین مذہب کے الزام میں مینیجر پریانتھا کمارا کو مبینہ طور پر فیکٹری ملازمین سمیت ایک مشتعل ہجوم نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا اور اُن کی لاش کو نذر آتش کر دیا گیا تھا

’اقلیت کے نام پر بنا ملک اقلیتوں کے لیے ہی غیر محفوظ‘

ملک میں اقلیتی برادری کے عدم تحفظ سے متعلق بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ڈائریکٹر فرح ضیا کہتی ہیں کہ پاکستان کی ریاست اکثریت کے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔

’ایک ایسا ملک جو مذہبی اقلیت کے نام پر بنا ہو جب وہ اپنی ہی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو جائے تو یہ تعجب کی بات ہے۔ ہماری ریاست شروع سے ہی اقلیتوں کے سوال پر مخمصے اور کنفیوژن کا شکار رہی ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’جمہوری ریاست کا کام تو اقلیت کو اکثریت کے جبر سے بچانا ہے مگر یہاں اس اصول کے برعکس پاکستان کی ریاست اکثریت کے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور انھیں خوش کرتی ہے، چاہے وہ آئین کی شقوں یا قوانین کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہماری اقلیتیں آج ایک پرتشدد ہجوم کے رحم و کرم پر ہیں اور ریاست ان کو تحفظ دینے میں یکسر ناکام ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں ’ریاست نے ان پرتشدد گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے اپنے اثاثوں کے طور پر استعمال کیا۔ پنجاب میں تو کچھ سیاسی جماعتوں نے ان کے ساتھ الیکشن کے لیے اتحاد کیا اور ان جتھوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ تمام عوامل ہیں، بات اب خوف کی فضا سے کافی آگے ہے۔‘

پرتشدد اور مشتعل ہجوم کے لیے سزا کا کیا نظام ہے؟

اسلام آباد ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ایسوسی ایٹ اور نسٹ یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک ماہین احمد نے بی بی سی سے اسی بارے میں بات کی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ ہجوم کا حصہ بن جائیں تو آپ کی انفرادی پہچان تو ختم ہوتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب جاتی ہے۔ آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کرتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ملک میں لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیں اور فوری انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

’ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان کی اور ان کے فعل کی پہچان اب ختم ہو گئی ہے اس لیے انھیں علم ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہو گی۔‘

دوسری جانب وہ سمجھتی ہیں کہ اس معاملے میں قانون میں سقم بھی موجود ہے۔ ’یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندہ مر گیا تو قتل کا مقدمہ ہو گا، زخمی ہوا تو اس سے متعلق مقدمہ ہو گا مگر آپ ایک پرتشدد ہجوم کا حصہ بنے، اس پر سزا نہیں ملتی۔‘

پولیس افسر عمر سعید اس وقت سیالکوٹ کے ڈی پی او تھے، جب وہاں دسمبر 2021 میں ایک سری لنکن شہری کو ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہجوم میں جرم کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر عائد کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جیسے سیالکوٹ میں سنہ 2010 میں ہلاک ہونے والے دو بھائیوں منیب اور مغیث کے مجرمان۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’مردان میں مشعال خان کے قتل کے واقعے میں مرکزی ملزم ایک تھا جس کی ویڈیو کی بنیاد پر شناخت ہوئی کہ انھوں نے گولی مار کر مشعال خان کو ہلاک کیا لیکن سیالکوٹ میں دونوں بھائیوں پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کے دوران یہ واضح نہ ہو سکا کہ وہ کونسا شخص تھا، جس کی ضرب سے ان بھائیوں کی جان گئی اور شاید یہی وہ خلا ہے جو پُرتشدد ہجوم کو سخت سزاؤں سے بچا رہا ہے۔‘

تاہم قانونی ماہرین کے مطابق قتل یا اقدام قتل نہ سہی، حملے میں شامل اور کسی معصوم شہری پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے یا جھوٹی گواہی دے کر کسی کی زندگی خطرے میں ڈالنے والے افراد کو ان شقوں کے تحت سزائیں مل سکتی ہیں جو کسی بھی دوسرے شہری کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہیں۔

یہ چند قوانین تو موجود ہیں مگر کیا ان پر عملدرآمد ہوتا ہے؟ کم از کم رمشا مسیح کے معاملے میں تو ایسا نہیں ہوا۔

پرتشدد ہجوم
متعدد ایسے واقعات ہوئے ہیں جب پرتشدد ہجوم نے سرکاری املاک، عبادت گاہوں اور عام شہریوں پر حملے کیے

رمشا مسیح کے ساتھ کیا ہوا؟

رمشا مسیح نے اگلے چند ہفتے پولیس کی حراست میں گزارے جبکہ ان کے والدین کو حکومت نے محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور معاملے کی انکوائری کا آغاز ہوا۔ ملک میں نافذ توہین مذہب کے قوانین کے باعث اس کیس کی پیروی کرنے والوں کو یقین تھا کہ رمشا کو ان کی عمر کی بنیاد پر ریلیف نہ ملا تو وہ زندگی بھر جیل میں رہیں گی یا موت کی سزا سنا دی جائے گی۔

ان کے والدین نے یہ بیان تک دے دیا کہ ان کی بیٹی ’ذہنی مریضہ‘ ہیں مگر اس کہانی میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب پولیس نے امام مسجد کو شک کی بنیاد پر حراست میں لیا جنھوں نے رمشا مسیح پر توہین مذہب کا الزام لگایا تھا۔

ان کے ماتحت ایک مولوی اور دو دیگر ساتھیوں نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا کہ امام مسجد نے رمشا کے تھیلے میں موجود جلے ہوئے صفحات میں قرآن مجید کے صفحات ڈالے اور جھوٹے شواہد پولیس کے حوالے کیے۔

انھوں نے مجسٹریٹ کو بتایا کہ ان تینوں نے امام مسجد کو منع کیا کہ وہ ایسا نہ کریں مگر انھوں نے کہا کہ ’اس بستی سے عیسائیوں کو نکالنے کا یہی واحد طریقہ ہے‘۔

رمشا مسیح عدالت میں بے گناہ ثابت ہوئیں اور آٹھ ستمبر 2012 کو پاکستان سے کینیڈا منتقل ہو گئیں۔ ان پر جھوٹا الزام لگانے والے امام مسجد پولیس کی حراست میں تھے مگر گرفتاری کے ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد انھیں عدالت نے کیس کی پیروی نہ ہونے کی وجہ سے باعزت بری کر دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *