تحریک عدم اعتماد سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پانچ اہم سوالات
پاکستان کی گذشتہ 37 سال کی پارلیمانی تاریخ میں صرف دو ہی ایسے وزرائے اعظم، راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی، گزرے ہیں جنھیں ایک مرتبہ قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
جنرل ضیا الحق نے جب غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے اور جمہوری حکومت قائم ہوئی تو سنہ 1985 میں محمد خان جونیجو نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تاکہ اپنی اکثریت ثابت کر سکیں۔
محمد خان جونیجو کے بعد آنے والی حکومتوں میں بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف، میر ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی کو بھی اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پڑی۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان سے قبل دو وزرائے اعظم نے عدم اعتماد کی تحریکوں کا سامنا کرتے ہوئے حزب اختلاف کو شکست دی۔
پاکستان میں جاری سیاسی بحران: پاکستان میں جاری اس صورتحال سے آپ کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟
سنہ 1989 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔ سنہ 2006 میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
حمایت اور مخالفت کے دروازے
قومی اسمبلی میں سنیچر کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری اوپن ووٹ کے ذریعے ہو گی۔
طریقہ کار کے مطابق ووٹنگ سے قبل ایوان میں گھنٹی بجائی جائے گی تاکہ جو بھی اراکین اسمبلی میں موجود ہیں وہ مقررہ وقت میں ایوان میں آ جائیں جس کے بعد دروازے بند کر دیے جائیں گے۔
ایوان میں آئیز (حق) اور نوز (مخالفت) کی دو لابیاں بنائی جائیں گی۔ جو اراکین عدم اعتماد کے حق میں ہوں گے وہ آئیز لابی کے دروازے کی طرف جائیں گے جہاں اسمبلی کا عملہ ان کے نام پر ٹک کا نشان لگا کر دستخط لے گا۔ اسی طرح نوز والی لابی میں مخالفت کرنے والوں کا ووٹ لیا جائے گا۔
رائے شماری مکمل ہو جانے کے بعد تمام اراکین دوبارہ اسمبلی میں داخل ہوں گے اور ووٹوں کی گنتی کے بعد سپیکر کی جانب سے نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔
اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو سپیکر کی جانب سے تحریری طور پر صدر پاکستان کو آگاہ کیا جائے گا اور سیکرٹری کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری ہو گا۔
عدم اعتماد کے 24 گھنٹوں میں وزیراعظم کا انتخاب
آئین پاکستان کے مطابق وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخابات اوپن ووٹ کے ذریعے ہوتے ہیں جبکہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر سمیت دیگر منصبوں کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے کیا جاتا ہے۔
متحدہ اپوزیشن کی جانب سے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے جن کا الیکشن بھی اوپن ووٹ کے ذریعے ہو گا۔ قانون کے مطابق عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اسی روز سپیکر نامزدگی جمع کروانے کا اعلان کریں گے جس کے بعد ان کی چھان بین ہو گی۔
سپیکر کو ان نامزدگیوں کو قبول اور مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس کے بعد اگلے دن دوپہر 12 بجے وزیراعظم کا الیکشن ہو گا۔
صدر پاکستان نو منتخب وزیراعظم سے حلف لیں گے جس کے بعد فوری کابینہ تشکیل دی جائے گی جس میں وفاقی وزرا اور مملکتی وزیروں سے صدر حلف لیں گے جبکہ مشیروں اور معاونوں سے حلف نہیں لیا جاتا۔
عام انتخابات کب ہوں گے؟
موجودہ قومی اسمبلی 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں عمل آئی تھی اور 15 اگست کو اسپیکر کا انتخاب کیا گیا تھا، آئین پاکستان کے آرٹیکل 52 کے مطابق اسمبلی کی مدت اس کے پہلے دن سے گنی جائے گی اس طرح موجودہ اسمبلی کی مدت 15 اگست 2023 کو مکمل ہو گی جس کے بعد نگران حکومت قائم ہو گی جو عام انتخابات کروائے گی۔
وزیراعظم عمران خان قبل از وقت عام انتخابات کروانا چاہتے تھے۔ اگر ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر یہ فیصلہ متحدہ اپوزیشن کرے گی کہ کب انتخابات کروائے جائیں۔
اس سے قبل متحدہ اپوزیشن کی قیادت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ پہلے انتخابی اصلاحات لائیں گے جس کے بعد انتخابات کروائے جائیں گے۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اس حق میں ہیں کہ ضروری اصلاحات کے بعد کوشش کرنی چاہیے کہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کروائیں۔
’پیشگی شرط انتخابی اصلاحات ہیں۔ یہ مراحل طے کرنے کے بعد فوری طور پر اس کی طرف رجوع کریں گے۔‘
بلاول بھٹو بھی اسی مؤقف کے حمایتی نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب انتخابی اصلاحات کے بعد شفاف انتخابات کی طرف بڑھیں گے۔ اس سے قبل انھوں نے سپریم کورٹ میں بھی الیکشن اصلاحات کے بارے میں سفارشات جمع کرائی تھیں۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھی طلب کیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے جمعے کے دن ملکی صورتحال پر اجلاس طلب کیا اور بتایا کہ اُنھوں نے حلقہ بندیوں پر فوری طور پر کام شروع کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قبل از وقت الیکشن کروائے بھی جائیں تو یہ اکتوبر میں ہی ممکن ہیں۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا گیا کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے چار ماہ کا وقت درکار ہے اس لیے اکتوبر تک ہی الیکشن ممکن ہو سکتے ہیں۔
اگر قبل از انتخابات نہیں ہوئے تو اگلے ڈیڑھ سال کی مدت میں حکومت جب چاہے انتخابات منعقد کروا سکتی ہے۔
انتخابات سے قبل وزیراعظم قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگراں وزیراعظم کو تعینات کریں گے، جس کے بعد تین ماہ کی نگران حکومت قائم ہو گی جو عام انتخاب کا انعقاد کرے گی اور اکثریت ثابت کرنے والی جماعت کو اقتدار سونپا جائے گا۔
ڈپٹی سپیکر کے خلاف کارروائی ہو گی؟
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں تاہم سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان کی رولنگ کو غیر آئینی تو قرار دیا ہے لیکن ڈپٹی سپیکر کے خلاف کوئی کارروائی تجویز نہیں کی نہ ہی اب تک متحدہ اپوزیشن کی جانب سے کسی کارروائی کا اعلان یا مطالبہ سامنے آیا۔
یاد رہے کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے متحدہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد وزیر اعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔
سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت کے موقع پر صدر اور وزیر اعظم کی کارروائیوں کو عدالتی احکامات کے تابع کیا تھا جبکہ تحریری حکم میں سپیکر قومی اسمبلی کو بھی ان احکامات کا تابع کیا گیا ہے۔
عمران خان کے پاس محدود راستے ہی ہیں
مظہر عباس، تجزیہ کار
وہ ڈپلومیٹک کیبل کے حوالے سے قانونی ماہرین سے رائے لینا چاہ رہے ہیں کہ کیا اس کو پبلک کیا جا سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم تجویز کریں، کابینہ کے اجلاس میں یہی فیصلہ متوقع ہے۔
ان کی ساری کوشش ہے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک سے قبل ایسا بیانیہ کھڑا کریں کہ جس میں لوگوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ان کے خلاف جو ہونے جا رہے ہیں وہ دراصل امریکی سازش ہے اور دوسرے اس کا حصہ ہیں۔
ایک آپشن یہ بھی ہے کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں یا اجتماعی استعفے دے دیں لیکن ان کی جو شخصیت ہے اس سے یہ لگتا نہیں ہے کہ وہ خود مستعفی ہوں گے اور اجتماعی استعفوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا دباؤ ہے۔
متحدہ اپوزیشن کے وزیر اعظم کے امیدوار شہباز شریف نے گذشتہ روز اُنھیں مفاہمت کی پیشکش کی تھی، تو کیا عمران خان اپوزیشن سے مذاکرات کر سکتے ہیں؟ نہیں! آصف زرداری اور شریف برادران کے بارے میں ان کا جو بیانیہ رہا ہے اس میں مذاکرات عمران خان کی ڈکشنری میں ہی نہیں ہے۔
کیا حکومت بچ سکتی ہے۔۔۔ اگر اپوزیشن 172 کی اکثریت ثابت نہ کر سکے تو پھر یہ ممکن ہے کہ ان کی حکومت بچ جائے لیکن اس وقت یہ ناممکن نظر آ رہا ہے۔