عمران خان اور تحریکِ عدم اعتماد کیا پاکستان تحریک

عمران خان اور تحریکِ عدم اعتماد کیا پاکستان تحریک

عمران خان اور تحریکِ عدم اعتماد کیا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو آئین شکن کے طور پر یاد رکھا جائے گا؟

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین اپریل کے اقدامات اور اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا پر کئی مختلف آرا کے درمیان ایک تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئین شکنی کی ہے اور اس کا ثبوت سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہے۔

یاد رہے تین اپریل کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل پانچ کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا جس کے بعد صدرِ پاکستان عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔

گذشتہ جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے دیتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے اقدام کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نو اپریل کو طلب کرنے کا فیصلہ سُنایا تھا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں کچھ حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف وہ پہلی سول حکومت ہے جس کے اقدامات کو آئین شکنی کے زمرے میں یاد رکھا جائے گا؟

قومی اسمبلی

کیا پی ٹی آئی حکومت کو سیاسی تاریخ میں آئین شکن قرار دیا جائے گا؟

اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات و قانون فواد چوہدری کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل درست نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سپیکر قومی اسمبلی کے تین اپریل کے جو اقدامات ہیں وہ شواہد کی بنیاد پر ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں انھوں نے شواہد نہیں دیکھے گئے۔‘

وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہم متفق ہیں کہ شواہد کے بغیر سپریم کورٹ کا ان اقدامات کو غیر قانونی قرار دینا عقل سے باہر ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کے اداروں کے اختیارات کی تقسیم کے فارمولے پر بہت زیادہ ضرب آئی ہے۔‘

انھوں نہ کہا کہ ’اس فیصلے کے نتیجے میں پارلیمان کی بالادستی ختم ہو گئی ہے اور سپریم کورٹ نے خود کو پارلیمان سے بالا تر کر لیا ہے۔ جو کسی طور پر بھی کسی جمہوریت میں ممکن نہیں ہے۔‘

فواد چوہدری کا اس بارے میں مزید کہنا تھا کہ ’اسی وجہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر قوامی حلقوں میں بہت تنقید کی جارہی ہے اور ہر طبقہِ فکر سے تعلق رکھنے والا شخص اس فیصلے کو درست قرار نہیں دے رہا۔ عوامی تاثر تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے آئین شکنی کرنے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست نہیں ہے۔‘

سیاسی ماہرین کی رائے

سنیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاملات کے دو طرح کے پہلو ہوتے ہیں، ایک سیاسی اور دوسرا قانونی۔

’اس لیے اگر اس معاملے کو سیاسی پہلو سے دیکھا جائے تو یقیناً سیاسی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کو ملک کی تاریخ میں ایک آئین شکن حکومت یاد رکھا جائے گا اور اس کے سیاسی حریف اس پر یہ الزام لگاتے رہیں گے کہ ان کے سپیکر یا ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے آئین کی شقوں کی صریحاً خلاف ورزی کی اور آئین کے تحت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہیں ہونے دی۔‘

انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’قانونی طور پر تحریک انصاف کی جماعت کو آئین شکن جماعت یا حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جو بھی اقدام ہوا، وہ قومی اسمبلی کے اندر ہوا اور یہ آئین کی تشریح کا معاملہ تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سپیکر قومی اسمبلی نے ایک طرح سے آئین کی تشریح کی اور سپریم کورٹ نے اس تشریح کو رد کر دیا۔ لہٰذا قانونی طور پر انھیں آئین شکن کے طور پر نہیں لیا جائے گا لیکن سیاسی طور پر ان پر یہ ایک سنگین الزام موجود رہے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تحریک انصاف کی حکومت کے اس اقدام کو کسی فوجی آمر کے آئین کی پامالی یا معطلی کے اقدام سے جوڑ نہیں سکتے کیونکہ آمر آئین کو یکسر معطل کر دیتا ہے لیکن سول حکومتیں اس کی تشریح میں غلطی کرتی ہیں۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’جس طرح کا اقدام تین اپریل کو پیش آیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی کیونکہ اس سے آئین کو ٹھیس پہنچی تھی اور اس کی شقوں کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ عمومی تشریح ہوتی تو عدالت قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت نہ کرتی اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم نہ کرتی۔‘

باجوہ

’طاقت ہمیشہ جرنیل اور جاگیردار کے پاس رہی‘

تجزیہ کار اور کالم نگار ہارون الرشید اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قائداعظم اور لیاقت علی جناح کے علاوہ تمام فوجی آمر یا سول حکومتیں آئین شکن رہی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان آئین و قانون کی پیروی کا مزاجاً قائل ہی نہیں ہیں۔ ‘لہٰذا تحریک انصاف کے لیے یہ معاملہ سیاسی طور پر کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘آئین شکنی ایک بہت سنگین بات ہے کیونکہ اگر آئین کو سپریم نہیں مانا جاتا تو ملک میں معاشرہ کبھی پُر امن نہیں ہو سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی تاریخ میں آئین نافذ کرنے والے سول ادارے کبھی طاقتور رہے ہی نہیں، پولیس، سول سروس، عدلیہ ہمیشہ کمزور رہے ہیں۔ پاکستان میں طاقت ہمیشہ جرنیل اور جاگیردار کے پاس رہی ہے یا ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے سیاستدانوں کے پاس۔‘

ڈپٹی سپیکر قاسم سوری

سنیئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے تین اپریل کے اقدامات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کو ملکی سیاسی تاریخ میں آئین شکن کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آئین شکن ایک بہت بھاری بھرکم لفظ ہے اور یہ ان کے لیے استعمال ہوتا ہے جو آئین جو توڑ دیتے ہیں یا آئین کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی اور ایسی خلاف ورزیاں ماضی میں دیگر حکومتیں بھی کرتی رہی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے ’ان کے اقدامات کو آئین کی سنگین خلاف ورزی تو کہا جا سکتا ہے لیکن تحریک انصاف کو آئین شکن نہیں کہا جا سکتا۔‘

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت ایک سیاسی جماعت کی ہے اور وہ اسی آئین کے تحت برسراقتدار آئے ہیں۔ تین اپریل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کافی واضح ہے کہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نو اپریل کو ہونے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کا نام اس وزیر اعظم کے نام پر ضرور یاد رکھا جائے گا کہ جن کے خلاف ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف نے اس پر جو سیاسی بیانیہ بنایا ہے وہ یہ ہے کہ ایک منتخب حکومت کو ’عالمی سازش‘ کے تحت تبدیل کیا گیا ہے۔ لہٰذا لوگ اپنے اپنے انداز میں تاریخ کو پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’البتہ یہ ضرور ہے کہ عدلیہ کے اس فیصلے نے پاکستان کے متنازع نظریہ ضرورت کو تقریباً دفن کر دیا اور حنا جیلانی کے مقدمے کے بعد اس فیصلے کو ایک یادگار فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *