تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ پنجاب حکومت اور ٹی ایل پی کے مذاکرات جاری، لاہور میں رینجرز طلب
کالعدم تنظیم تحریکِ لبیک کے اسلام آباد کی جانب ہونے مارچ کو روکنے کے سلسلے میں پنجاب حکومت اور تنظیم کے درمیان لاہور میں مذاکرات ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب لاہور کی انتظامیہ نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے رینجرز کی مدد طلب کر لی ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ریلی سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو شہر میں طلب کر لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی آج ایک روزہ دورے پر لاہور میں موجود ہیں۔
ذرائع ابلاغ نے تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور اب کارکن لانگ مارچ کی تیاری کر رہے ہیں تاہم پنجاب حکومت کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
نظیم کی مرکزی شوریٰ کہہ چکی ہے کہ اگر یہ مارچ روکنے کی کوشش کی گئی تو ان کے پاس ’پلان بی بھی موجود ہے۔‘
ادھر پنجاب کے وزیراعلیٰ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے وزیر قانون راجہ بشارت اور چوہدری ظہیرالدین مذاکرات کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و آشتی کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ تحریک لبیک کی قیادت حکومتی مذاکراتی ٹیم سے فرانسیسی سفیر کے معاملے پر کیے گئے معاہدے پر عمل کرنے پر مصِر ہے۔
نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق تحریکِ لبیک کے کارکن اب ملتان روڈ پر واقع اپنے مرکز سے سے آگے بڑھ کر رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے چوبرجی کے نزدیک پہنچ گئے ہیں جہاں پولیس اور رینجرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔
نامہ نگار عمر ننگیانہ نے بتایا کہ مقامی پولیس کے مطابق مظاہرین کو اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پولیس حکام کے مطابق حکومت کی ہدایات کا انتظار کیا جا رہا ہے اور احکامات کی صورت میں ریلی کے نکلنے کے راستے پر کنٹینر لگا کر اسے روکا جائے گا۔
ٹی ایل پی کے مارچ کو روکنے کے لیے لاہور اور اسلام آباد میں پولیس اور انتظامیہ نے متعدد شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔ حکام کی جانب سے موٹروے ایم ٹو پر لاہور کے قریب بابو صابو انٹرچینج کو بند رکھا گیا ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے داخلی راستوں اور مرکزی شاہراہوں کو جزوی یا مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کنٹینرز لگائے گئے ہیں۔
راولپنڈی میں اس وقت مری روڈ اور فیض آباد ٹریفک کے لیے بند ہیں جبکہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ان کے مطابق سٹیڈیم روڈ کو بھی دونوں جانب ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد سے نامہ نگار شہزاد ملک نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعہ کی صبح تحریکِ لبیک پاکستان کے مزید چالیس کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں 20 کارکنان کو اٹک، 10 کو ٹیکسلا اور 10 کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا ہے۔
جمعہ کے روز صبح سے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقعہ فیض آباد چوک اور راولپنڈی سٹیڈیم روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ مری روڈ کو بھی متعدد جگہوں سے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے، جس سے دونوں شہریوں کو آمد و رفت میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کالعدم تحریک لبیک کے کارکن دھرنے پر بیٹھے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت ان کی جماعت کے ساتھ چند ماہ پہلے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرے۔
لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر نے کہا ہے کہ شہر کا امن و امان کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ دھرنے کے مقام پر مظاہرین نے دو آئل ٹینکر کھڑے کر رکھے ہیں جن میں پیٹرول موجود ہے تاہم تاحال مظاہرین پُرامن رہے ہیں۔ اہلکار کے مطابق آئل ٹینکر قریب واقع پیٹرول پمپ سے لا کر کھڑے کیے گئے تھے۔
’فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے یورپی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں‘
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے گذشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کالعدم تحریک لبیک کے مطالبے پر پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا گیا تو پاکستان کے یورپی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پولیس کی پاسنگ آؤٹ تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے یورپی ممالک سے تعلقات متاثر ہوں گے جس کا ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
یاد رہے کہ تحریک کا اپریل میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے کالعدم مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کے مطالبے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد ختم کیا گیا تھا۔
انٹیلیجنس رپورٹس کی بنیاد پر گرفتاریاں
جمعرات کی شب بھی لاہور اور راولپنڈی میں پولیس نے تحریک لبیک کے درجنوں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ لاہور پولیس کے مطابق گذشتہ روز ہونے والی مختلف کارروائیوں میں پولیس نے تحریک لبیک پاکستان کے 20 سے 25 کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے تاہم دھرنے کے مقام پر موجود مظاہرین میں سے تاحال کسی کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
دوسری جانب راولپنڈی پولیس نے بھی رات گئے شہر کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے دو درجن سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کو خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے کالعدم تنظیم کے کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ خفیہ اداروں کی رپورٹس روشنی میں کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے متحرک کارکن لاہور میں دھرنا دینے کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم میں واقع فیض آباد پر دھرنا دینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
سعد رضوی کی نظربندی
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی کے چچا کی درخواست پر ان کی نظر بندی کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دیا گیا تاہم پنجاب حکومت نے سعد رضوی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سعد رضوی کو رہا کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ عدالتِ عالیہ کو اس کیس سے متعلق تفصیلی ریکارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا اور یہ کہ سعد رضوی کی نظربندی کا حکومتی فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔
صوبائی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ سعد رضوی کی رہائی کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ابتدائی سماعت کے بعد یہ معاملہ دوبارہ لاہور ہائیکورٹ کو ریفر کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ اپنے والد خادم رضوی کی وفات کے بعد مذہبی جماعت ٹی ایل پی کے سربراہ مقرر ہونے والے سعد رضوی کو پہلے وفاقی حکومت کے احکامات پر ایم پی او (نقص امن عامہ) کے قانون کے تحت نظر بند کیا گیا تھا اور ساتھ ہی انھیں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی دفعہ 11 ٹرپل ای کے تحت بھی جیل میں رکھا گیا تھا۔
سعد رضوی کی گرفتاری کا پس منظر
ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو رواں برس اپریل میں لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
پیغمبرِ اسلام کے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی سفیر کو 20 اپریل تک ملک بدر نہ کیے جانے کی صورت میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی دھمکی دینے والے تحریکِ لبیک کے امیر سعد رضوی کو اپریل کے وسط میں لاہور پولیس نے حراست میں لیا تھا۔
سعد رضوی پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنی جماعت کے کارکنان کو حکومت کے خلاف مظاہروں پر اکسایا جس کے دوران پرتشدد کارروائیوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد تحریکِ لبیک کی جانب سے ملک کے متعدد شہروں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
اس احتجاج کے دوران کم از کم چار پولیس اہلکار ہلاک جبکہ سینکڑوں اہلکار اور کارکن زخمی ہوئے تھے۔
حکومت نے 16 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکاتی معاہدہ کیا تھا جس کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا تھا۔
اس معاہدے پر عمل نہ ہونے کے بعد فروری 2021 میں مذکورہ جماعت اور حکومت کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔
اس کے بعد تنظیم نے 20 اپریل تک فرانس کے سفیر کی ملک بدری نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم 12 اپریل کو احتجاج کا حالیہ سلسلہ تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد شروع ہوا تھا۔
سعد رضوی کون ہیں؟
خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی 18 رکنی شوریٰ نے گذشتہ برس ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا جس کا اعلان جماعت کے مرکزی نائب امیر سید ظہیر الحسن شاہ نے جنازے کے موقع پر کیا تھا۔
لاہور میں خادم رضوی کے جنازے کے موقع پر ان کے بیٹے سعد رضوی نے خطاب میں اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔
سعد رضوی لاہور میں اپنے والد کے مدرسہ جامعہ ابوذر غفاری میں درس نظامی کے طالبعلم رہے۔ درس نظامی ایم اے کے برابر مدرسے کی تعلیم کو کہا جاتا ہے۔
ان کے قریبی دوستوں کے مطابق سعد کا کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سے گہرا رابطہ ہے۔
وہ شاعری سے خصوصی شغف رکھتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ جدید دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے بھی خوب واقف ہیں اور فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹس چلاتے ہیں۔