کیا بنگلہ دیش کی ریاست کا سرکاری مذہب اب اسلام نہیں

کیا بنگلہ دیش کی ریاست کا سرکاری مذہب اب اسلام نہیں

کیا بنگلہ دیش کی ریاست کا سرکاری مذہب اب اسلام نہیں رہے گا؟

خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ نے ملک میں سنہ 1972 کا سیکولر آئین دوبارہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ریاست کا سرکاری مذہب اسلام نہیں رہے گا۔ اس حوالے سے فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب ملک میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے بعد ہندو برادری پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

بنگلہ دیش میں تیرہ اکتوبر سے شروع ہونے والے پُرتشدد واقعات میں اب تک آٹھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان حملوں میں سینکڑوں گھروں اور درجنوں مندروں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

سخت گیر مذہبی گروہوں نے عوامی لیگ کی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سنہ 1972 کے سیکولر آئین کی واپسی کے لیے بل پیش کیا گیا تو ملک میں پُرتشدد واقعات بڑھ سکتے ہیں۔ سنہ 1988 میں فوجی حکمراں ایچ ایم ارشاد نے اسلام کو بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب قرار دیا تھا۔

बांग्लादेश

عوامی لیگ کے بعض رہنماؤں جیسے ڈھاکہ کے سابق میئر سید خوکون نے وزیر اطلاعات مراد حسن کے اس بیان کی مخالفت کی ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ’سنہ 1972 کے آئین کے تحت بنگلہ دیش کو سیکولر ملک بنایا جائے گا۔‘

یاد رہے سنہ 1972 کا آئین ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان نے نافذ کیا تھا۔

سید خوکون کے مطابق یہ فیصلہ غلط وقت پر کیا جا رہا ہے جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ مراد حسن نے کہا تھا کہ ’ہمیں ہر صورت 1972 کے آئین پر واپس جانا ہو گا۔ میں پارلیمان میں اس کے لیے بات کروں گا۔‘

وزیر اطلاعات مراد حسن نے ایک تقریب کے دوران کہا کہ ’میرا نہیں خیال اسلام ہمارا قومی مذہب ہے۔ ہم 1972 کا آئین واپس لائیں گے۔ ہم وزیر اعظم شیخ حسینہ کی قیادت میں پارلیمان سے قانون منظور کروائیں گے۔ جلد ہم 1972 کا سیکولر آئین اپنا لیں گے۔’

اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو اکثریتی مسلمان آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں اسلام ریاست کا سرکاری مذہب نہیں رہے گا۔

جماعت اسلامی اور حفاظت اسلام جیسے مذہبی گروہوں کے رہنماؤں نے اس قانون کے پیش ہونے کی صورت میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

حفاظت اسلام کے سیکریٹری جنرل نور الاسلام جہادی نے کہا کہ ‘اسلام ریاست کا سرکاری مذہب تھا، ہے اور رہے گا۔ ملک کو مسلمانوں نے آزادی دلائی اور اب ان کے مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب برقرار رکھنے کے لیے ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔‘

बांग्लादेश

عوامی لیگ کے بعض رہنماؤں جیسے سابق میئر خوکون نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس پر جماعت میں تفصیل سے بات نہیں ہوئی ہے۔ جماعت کے کچھ رہنماؤں کا خیال ہے کہ مراد حسن تنہا ایسا بڑا اعلان نہیں کر سکتے اور اگر انھوں نے ایسا کیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انھیں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

عوامی لیگ کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘اگر شیخ حسینہ اس اعلان سے واقف نہ ہوتیں، وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک میں ہندوؤں کے خلاف پُرتشدد واقعات ہو رہے ہیں تو یقیناً جماعت کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے مراد حسن کی سرزنش کی جاتی۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوا اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس فیصلے پر گرین سگنل دے رکھا ہے۔‘

بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات مراد حسن نے یہ اعلان 14 اکتوبر کو کیا تھا۔

صرف ایک دن قبل مشتعل مسلمانوں نے کومیلا سمیت دیگر شہروں میں ہندو مندروں، گھروں اور کاروباروں پر حملے کیے تھے۔ اس سے قبل کومیلا میں ایک درگا پوجا کے دوران قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی ویڈیو فیس بک پر وائرل ہوئی تھی، جس سے پُرتشدد واقعات کا آغاز ہوا۔

کم از کم 23 اضلاع میں پُرتشدد واقعات کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ریپڈ ایکشن بٹالین کو حالات پر قابو پانے کا حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں پولیس نے 350 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں کومیلا کے دو دکاندار بھی شامل تھے جن پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام ہے۔

शेख हसीना

ان میں سے ایک شخص فیاض احمد سعودی عرب میں کئی برسوں تک ملازمت کرتے تھے۔ بنگلہ دیش واپسی پر اب وہ اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔

عوامی لیگ نے حزب اختلاف کی مذہبی جماعتوں جیسے بی این پی اور جماعت اسلامی پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ہندو تہوار درگا پوجا کے دوران لوگوں کو ہندوؤں پر حملے کے لیے اکسایا تھا۔

کومیلا میں عوامی لیگ کی خواتین کے ونگ کی رہنما عائشہ زمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مورتی کے قدموں میں رکھا گیا قرآن سعودی عرب میں چھپا تھا۔ بی این پی کے میئر منیر الاسلام اور بزنس مین فیاض نے اقبال حسین کی مدد سے اسے بت کے پاس رکھا۔‘

سی سی ٹی وی فوٹیج میں اقبال کو یہ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو اشتعال میں لانے کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔’

پانچ برس قبل ناصر آباد میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی ہی ایک تصویر وائرل کی گئی تھی۔

جب سنہ 1971 میں بنگلہ دیش کا قیام ہوا تو اسے سیکولر ملک قرار دیا گیا۔ اس کی بنیاد بنگالی ثقافت اور زبان کی بنیاد پر قوم پرستی تھی۔ اس سے وہاں پاکستان میں اسلامی قوانین کا رواج ختم ہوا۔

سنہ 1972 میں نافذ ہونے والے بنگلہ دیش کے آئین میں تمام مذاہب کی برابری کی یقین دہانی کرائی گئی۔ لیکن پاکستان سے آزادی کے صرف چار سال بعد ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے خلاف فوج نے مداخلت کی، جس میں انھیں اور ان کے خاندان کے کچھ افراد کو قتل کر دیا گیا۔ اس میں ان کی صرف دو بیٹیاں بچ سکیں جن میں موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ اور ان کی بہن شیخ ریحانہ شامل ہیں۔

فوجی رہنما جنرل ضیا الرحمان اور ایچ ایم ارشاد نے جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتوں کی حمایت کی۔ انھیں الیکشن کمیشن میں اندراج کی اجازت دی گئی اور ایک بار پھر اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا۔

فوجی مداخلت پر کتاب ‘مڈ نائٹ میسکر‘ میں سکھرنجن داس گپتا کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ‘فوجی حکمران عوامی لیگ کو محدود کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے عوامی لیگ کے خلاف سیاسی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے عوامی لیگ کی بنگالی قوم پرستی کو بھی روکنے کی کوشش کی۔

یہ پاکستان کی طرح اسلام کی بنیاد پر سیاست تھی۔ ضیا اور ارشاد دونوں نے مذہب کارڈ کھیلنے والی جماعتیں بنائیں۔’

बांग्लादेश

عوامی لیگ کے نوجوان رہنما اور ‘ڈیجیٹل بنگلہ دیش’ کے منتظم صوفی فاروق کہتے ہیں کہ ‘ارشاد شراب نوشی اور خواتین کی لت کے لیے مشہور تھے۔ وہ بہت کم نماز پڑھتے تھے۔ وہ شاعری کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے لیے اسلام ایک سیاسی ہتھیار تھا، جیسے جناح کے لیے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘سنہ 1991 سے 1996 اور سنہ 2001 سے 2006 کے دوران بی این پی اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومتوں کے ادوار میں ہندوؤں کو ظلم و ستم کا سامنا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں ہندوؤں نے انڈیا میں پناہ لی تھی۔ بنگلہ دیش کی آبادی میں ہندو 20 فیصد تھے مگر ان کی تعداد سنہ 2010 کی مردم شماری کے تحت 10 فیصد رہ گئی تھی۔’

ان کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش کے محکمہ شماریات کے مطابق عوامی لیگ کی حکومت کے گذشتہ دس برسوں میں ہندوؤں کی آبادی اب 12 فیصد ہو گئی ہے۔ یعنی ہندوؤں کی ہجرت رک گئی ہے۔‘

سابق وزیر اطلاعات ترانہ حلیم کہتی ہیں کہ انتخابات کے دوران ملک کے موجودہ ماحول میں ہندوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ‘درگا پوجا کے دوران ہندو مخالف تشدد کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔’

ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان واپس آ چکے ہیں مگر بنگلہ دیش کے پارلیمانی انتخابات میں عوامی لیگ کی ہی فتح ہوگی جو دسمبر 2023 میں ہوں گے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر شاہ علی فراد کہتے ہیں کہ ‘یہ شرمناک ہے۔ ہمیں ہر حالت میں ہندوؤں کی حفاظت کرنی ہو گی۔‘ اسی لیے شاید اب وزیر اعظم شیخ حسینہ نے 1972 کے سیکولر آئین کی واپسی کا منصوبہ بنایا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *