تحریکِ انصاف بلے کے نشان سے محروم ہی رہی

تحریکِ انصاف بلے کے نشان سے محروم ہی رہی

تحریکِ انصاف بلے کے نشان سے محروم ہی رہی تو کیا وہ کسی دوسری پارٹی کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے؟

پاکستان میں انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور جماعت سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے بعد سے یہ بحث جاری ہے کہ اب پی ٹی آئی کی انتخابی حکمتِ عملی کیا ہو گی۔

بعد ازاں 26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ نو جنوری کو ڈویژن بینچ کیس کا فیصلہ کرے گا تاہم بُدھ کو پشاور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست منظور کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لے لیا تھا جس کے بعد پی ٹی آئی ایک بار پھر اپنے انتخابی نشان بَلے سے محروم ہو گئی۔

جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر بلے کا انتخابی نشان واپس لیا تھا تو پی ٹی آئی کا موقف یہ تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو بطور ایک سیاسی جماعت کے انتخابی عمل سے باہر کرنا چاہتا ہے۔

اس کے بعد جب پشاور ہائی کورٹ نے انتخابی نشان کو بحال کیا تو دوسری سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت رَدعمل دیا گیا۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو الیکشن کمیشن کے اختیار پر حملے کے مترادف ٹھہرایا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے بھی تنقید کرتے ہوئے فیصلہ دینے والے جج کو پی ٹی آئی کا حامی قرار دیا تھا۔ جہانگیر ترین کی جانب سے بھی اس بارے میں تنقید کی گئی تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ’انتخابی نشان دینا یا واپس لینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے پشاور ہائی کورٹ کا نہیں۔‘

لیکن اب پشاورہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کئی نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کو ڈویژن بینچ یا سپریم کورٹ سے کوئی ریلیف نہیں ملتا اور بَلے کے نشان سے محروم ہی رہتی ہے تواس کی حکمت عملی کیا ہو گی اور اس کے پاس دیگر آپشن کیا ہیں؟

بلے کے نشان سے محرومی انتخابی مہم چلانے کے ساتھ الیکشن لڑنے کی صورتحال کو کس حد تک متاثر کر سکتی ہے۔

کیا پی ٹی آئی کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے؟ علاوہ ازیں مختلف انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن جیتنے والے پی ٹی آئی کے اُمیدوار اگر اپنی جماعت کی حکومت بنتا نہیں دیکھتے تو کیا پارٹی کے ساتھ اپنی وفاداری رکھ سکیں گے؟

سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو عدلیہ سے ریلیف کی کس حد تک توقع ہے۔

pti
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ انھیں نوے فیصد سے زیادہ یقین ہے کہ سپریم کورٹ بَلے کا نشان بحال کر دے گی

پی ٹی آئی کو عدلیہ سے ریلیف کی کتنی توقع

اپنے انتخابی نشان کی بحالی کے حوالے سے پی ٹی آئی کو عدلیہ سے ریلیف کی توقع ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ردِعمل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’نوے فیصد سے زیادہ یقین ہے کہ سپریم کورٹ بَلے کا نشان بحال کر دے گی۔‘

مگر پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے پاس انتخابی نشان بحال کروانے کے دو مرحلے باقی ہیں۔

’ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ اور سپریم کورٹ بالخصوص سپریم کورٹ جس کی ہر کیس پر بڑی گہری نظر ہے۔ البتہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں مسائل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد اور کیس بہت مضبوط تھے۔‘

بَلے کا نشان بحال نہیں ہوتا تو پی ٹی آئی کن آپشنز پر غور کرے گی؟

زمینی حقائق پی ٹی آئی کے لیے موافق نہیں اور ایک ایسے موقع پر جب الیکشن کا انعقاد لگ بھگ ایک ماہ کی دُوری پر ہے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت قید و بند میں ہے اور اس جماعت کو اپنے کئی اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی شکایات کے ساتھ لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہ ہونے کا شکوہ بھی ہے۔

اگر پی ٹی آئی کو عدلیہ سے ریلیف نہیں ملتا تو ایسے حالات میں جب یہ جماعت مشکلات کا شکار ہے تو اس کے پاس پلان کیا ہو گا اور اس حوالے سے کون سے آپشنز زیرِ غور آ سکتے ہیں؟

بیرسٹر گوہر کے مطابق ’اگر ہم سے نشان لیا گیا تو پلان بی پر غور کریں گے۔‘ اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما احمد اویس کہتے ہیں کہ ’اگر بَلے کا نشان نہیں ملتا تو ہم کسی اور انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن میں جائیں گے۔ نشان کوئی بھی ہو ووٹرز پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔‘

اس حوالے سے کالم نگار و صحافی عامر ہاشم خاکوانی کا خیال ہے پی ٹی آئی کے پاس بلے کے نشان کی عدم موجودگی میں پلان بی یہ ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اُمیدواروں کی فہرست جاری کر کے بتایا جائے کہ یہ آزاد اُمیدوار پی ٹی آئی کے ہیں۔

عامر ہاشم خاکوانی کا خیال ہے کہ ’عمران خان سمجھتے ہیں کہ آزاد اُمیدواروں کی صورت میں زیادہ تر نظریاتی لوگوں کو الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے گا کیونکہ وہ جیت کر دوسری پارٹی میں نہیں جائیں گے اور وفاداری تبدیل نہیں کریں گے۔‘

bat and lion

پی ٹی آئی کسی دوسری پارٹی کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے؟

اگر پی ٹی آئی بَلے کے نشان سے محروم رہتی ہے اور دوسرے انتخابی نشان کا حصول بھی کسی وجہ سے ممکن العمل نہیں ہو پاتا تو کیا کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کی طرف جا سکتی ہے؟

یہ سوال بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا جواب پی ٹی آئی کی ساخت طرزِ سیاست اور پی ٹی آئی رہنما عمران خان کے سیاسی اسلوب سے بہت حد تک مل جاتا ہے۔ عمران خان کا اندازِ سیاست غماز ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کو قطعی ترجیح نہیں دیتے تاہم دوسری طرف وہ چند سیٹیں رکھنے والی جماعت ق لیگ کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی دے چکے ہیں۔

اسی طرح 2018 کے الیکشن میں ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر چکے ہیں اور الیکشن کے بعد چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بھی بنا چکے ہیں مگر اس سب کے باوجود موجودہ حالات میں شاید وہ ایسا نہ کر سکیں۔

احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کسی دوسری جماعت سے الحاق کرے۔ اس طرح وہ اپنی مخصوص سیٹیں بھی بچا سکتے ہیں۔‘

جبکہ عامر ہاشم خاکوانی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے پاس یہ آپشن ہے کہ اس کے اُمیدوار شیخ رشید کی عوامی لیگ اور وحدت المسلمین کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن اگر پی ٹی آئی ایسا کرتی ہے تو اس کی اپنی شناخت متاثر ہو گی کہ مذکورہ بالا پارٹیاں، چھوٹی سطح کی ہیں اور عمران خان کو اپنی پارٹی کے حوالے سے احساسِ تفاخر بھی ہے، یوں یہ گنجائش نہیں کہ وہ کسی پارٹی کے ساتھ الحاق کر سکیں۔

’پی ٹی آئی نے اپنے پاس کسی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی آپشن رکھی ہی نہیں۔۔۔ جو جماعت اسٹیبلشمنٹ کی معتوب ہو اس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کون کرے گا؟‘

اب یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کسی جماعت سے الحاق نہیں کرتی اور بَلے کے نشان سے بھی محروم رہتی ہے تو کس نوعیت کے سیاسی نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے؟

وہ انتخابی مہم کیسے چلائے گی اور کیا کسی مخصوص نشان کے حصول کے ذریعے سیاسی نقصان سے بچنے کی تدبیر کی جائے گی؟

pti

کیا کوئی مخصوص نشان پی ٹی آئی کا تصور ہو گا؟

اگر ہم 2018 کے الیکشن کو ذہن میں رکھیں تو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والوں کی بڑی تعداد کو جیپ کا نشان الاٹ ہوا تھا اور یہ نشان خاص قسم کے اُمیدواروں کے ساتھ منسوب ہو کر رہ گیا تھا۔

کیا اس بار ایسا ہو سکتا ہے؟ کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی کہتے ہیں کہ ’ایسا ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار ایک ہی نشان لینے کی کوشش کریں۔ ماضی میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں چودھری نثار سمیت متعدد آزاد اُمیدواروں نے جیپ کا نشان لیا تھا لیکن یہ صرف اُس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب سب کو آر اوز نشان الاٹ کریں۔‘

اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ کہتے ہیں کہ ’اگر بَلے کا نشان نہیں ملتا تو کوئی دوسرا نشان تو ضرور ملے گا۔

’کسی بھی سیاسی جماعت کو اُس کے بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ پانچ سال بعد ووٹرز ووٹ ڈالنے جائیں تو سامنے انتخابی نشان ہی نہ ہو تو اس سے مسائل تو پیدا ہوں گے۔‘

ابھی پی ٹی آئی کے پاس ڈویژن بینچ اور سپریم کورٹ کی آپشنز موجود ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ریلیف مل جائے۔ اگر ریلیف نہیں ملتا تو پی ٹی آئی کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔

اب ایک ایسے حالات میں جب پی ٹی آئی کے لیے انفرادی سطح کی مہم ممکن ہی نہیں پی ٹی آئی کے لیے اجتماعی مہم ہی فائدہ مند رہے گی اور یہ ایک نشان پر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔

لہٰذا تمام تر حکمت عملی اور متبادل پلان کے ساتھ پی ٹی آئی کی کوشش ہو گی کہ عدالتوں کی جانب سے ریلیف مل جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *