بنیامین نیتن یاہو بمقابلہ نفتالی بینیٹ کیا اسرائیلی وزیرِ اعظم کی حکومت اپنے ہی سابق وزیر کے ہاتھوں ختم ہوگی؟
اسرائیل کی داخلی سیاسی صورتحال اس وقت ’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘ کی مصداق ہے جہاں تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے بنیامین نیتن یاہو کی حکومت اپنی ہی کابینہ میں رہنے والے شخص کی وجہ سے خطرے میں ہے۔
اسرائیلی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کو عہدے سے ہٹانے کے لیے کافی تعداد میں ووٹ موجود ہیں۔
اور اُن کے مرکزی حریف ہیں نفتالی بینیٹ، جو 2013 سے لے کر 2020 تک وزارتِ دفاع، وزارتِ اقتصادیات، اور وزارتِ تعلیم سمیت دیگر قلمدانوں کے حامل رہے ہیں۔
بنیامین نیتن یاہو طویل ترین عرصے تک اسرائیل کے وزیرِ اعظم رہنے والے شخص ہیں اور اقتدار پر اپنی مضبوط گرفت کے باوجود اُن کا دور مسائل سے خالی نہیں رہا ہے۔
سنہ 2019 میں دو انتخابات اور سنہ 2020 و 2021 میں ایک ایک انتخاب کے باوجود اپنی اکثریت ثابت نہ کر سکنے کی وجہ سے کئی مرتبہ یہ لگا کہ اُن کی حکومت ابھی گئی یا ابھی، لیکن وہ اب بھی کرسی پر موجود ہیں۔
تاہم اب لگتا ہے کہ اُن کے حریف نفتالی بینیٹ اُنھیں اقتدار سے بے دخل کر کے ہی دم لیں گے۔
نفتالی بینیٹ: اسرائیل کے اگلے وزیرِ اعظم؟
نفتالی بینیٹ ایک ارب پتی شخصیت اور سابق ٹیکنالوجی انٹرپرینیور ہیں۔ اگر اُن کے سیاسی نظریات کی بات کی جائے تو وہ بھی بنیامین نیتن یاہو کی طرح دائیں بازو سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
نفتالی بینیٹ ماضی میں مقبوضہ غربِ اردن کے تمام علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی حمایت کر چکے ہیں۔
وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو کوئی ممکنہ حل تسلیم نہیں کرتے اور اُن کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔
اب وہ نیتن یاہو کو ہٹانے کے اتنے درپے ہیں کہ اُنھوں نے اعتدال پسند یائر لاپید کے ساتھ اقتدار میں شراکت کا اعلان کیا ہے جس کے تحت پہلے بینیٹ اور پھر لاپید وزیرِ اعظم بنیں گے، تاہم ابھی یائر لاپید کو اس اتحاد کا باقاعدہ اعلان کرنا ہے۔
اسرائیل میں انتخابی نظام متناسب نمائندگی پر مبنی ہے اور اس کی نوعیت ایسی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے بل بوتے پر بمشکل ہی حکومت بنا سکتی ہے، چنانچہ بنیامین نیتن یاہو خود بھی نفتالی بینیٹ کو اقتدار میں شراکت کے لیے اتحاد بنانے کی دعوت دے چکے ہیں۔
اُنھوں نے سنیچر کو اپنے سخت ترین حریف نفتالی بینیٹ کو یہ پیشکش کی، مگر اسے مسترد کر دیا گیا، اور پھر اُنھوں نے اتوار کو یہ پیشکش دوبارہ کی مگر لگتا یہی ہے کہ اب نیتن یاہو کے وزارتِ عظمیٰ میں دن پورے ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل میں دو سال میں چار مرتبہ انتخابات ہو چکے ہیں اور اگر اس مرتبہ بھی حکومت نہیں بن پاتی تو پانچویں مرتبہ انتخابات ہوں گے۔
نیتن یاہو کرپشن کے ٹرائل کے باوجود اقتدار میں رہنے پر بضد ہیں جس کی وجہ سے اُنھیں سیاسی جماعتوں کی حمایت بمشکل ہی مل پا رہی ہے اور اُن کے مخالفین نے انھیں ہٹانے کی کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔
غیر فطری اتحاد
نفتالی بینیٹ غربِ اُردن میں یہودی آبادکاریوں کے سخت تر حامی ہیں مگر اُن کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو سیاسی بحران سے بچانے کے لیے اپنے مخالف (اعتدال پسند یائر) سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔
اور نیتن یاہو نے اسی نکتے کو بنیاد بناتے ہوئے طعنہ انگیز بیان دیا کہ ‘پھر آبادکاری کا خیال کون رکھے گا؟’
اور اگر نیتن یاہو صرف اکا دکا ہی ارکان کو ہی اس طرح کے بیانات سے اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو نفتالی بینیٹ کے خوابوں پر پانی پھر سکتا ہے۔
جب نیتن یاہو سنہ 2006 سے 2008 کے درمیان حزبِ اختلاف کے رہنما تھے تو نفتالی بینیٹ اُن کے سینیئر مشیر تھے، تاہم کہا جاتا ہے کہ دونوں کے درمیان ان بن کی وجہ سے نفتالی بینیٹ نے اُنھیں چھوڑ دیا اور 2009 میں نیتن یاہو وزیرِ اعظم بن گئے۔
تاہم اس کے باوجود نفتالی بینیٹ ان کی کابینہ کا حصہ رہے اور اسرائیلی پارلیمان ‘کنیسیٹ’ میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف وزارتوں پر فائز رہے ہیں۔
حکومت کیسے بنے گی؟
اس وقت وہ انتہائی دائیں بازو کے سیاسی اتحاد یامینا کے سربراہ ہیں پر اگر وہ چاہتے ہیں کہ حکومت بنائیں، تو اُنھیں پارلیمان میں بائیں بازو، اعتدال پسندوں اور عرب ارکان کی حمایت درکار ہو گی جو کہ غربِ اُردن پر اسرائیلی قبضے کی حمایت شاید ہی کریں۔
کنیسیٹ میں کُل 120 نشستیں ہیں جن میں سے 30 نشستیں بنیامین نیتن یاہو کی جماعت لیکود کے پاس ہیں جبکہ یائر لاپید کی یش اتید کے پاس 17، آریہ دیری کی شاس کے پاس نو، بینی گینٹز کے بلیو اینڈ وائٹ اتحاد کے پاس آٹھ اور نفتالی بینیٹ کے اتحاد یامینہ کے پاس سات نشستیں ہیں۔
حکومت بنانے کے لیے کسی بھی اتحاد یا سیاسی جماعت کو 61 نشستوں کی سادہ اکثریت اسرائیل کے صدر کے سامنے ثابت کرنی ہوگی جس کے لیے اُن کے پاس بدھ کی رات تک کا وقت ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا 12 سال سے اسرائیل کی وزارتِ عظمیٰ پر فائز نیتن یاہو ایک مرتبہ پھر ان خطرات سے ابھر کر سامنے آتے ہیں یا پھر اُن کے اپنے سابق وزیر نفتالی بینیٹ اُن کے نشیمن پر بالآخر بجلی بن کر گریں گے۔