شکارپور آپریشن کچے کا علاقہ کیا ہے، ڈاکو کیوں یہاں

شکارپور آپریشن کچے کا علاقہ کیا ہے، ڈاکو کیوں یہاں

شکارپور آپریشن کچے کا علاقہ کیا ہے، ڈاکو کیوں یہاں چھپتے اور یہاں سے کارروائی کرتے ہیں؟

سندھ کے ضلع شکارپور کے کچے کے علاقے میں پولیس نے مساجد سے اعلان کر کے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ عارضی طور پر نقل مکانی کر جائیں تاکہ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

یاد رہے کہ شمالی سندھ کے ضلعوں سکھر، شکارپور اور کشمور میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ اتوار کو ڈاکوؤں کے خلاف جاری اس آپریشن میں دو پولیس اہلکار اور ایک پولیس مددگار اس وقت ہلاک ہوگئے تھے جب ڈاکوؤں نے بھاری اسلحے کی مدد سے اُن کی بکتربند گاڑی کو نشانہ بنایا تھا۔

پیر کو پولیس نے تیغانی قبیلے کے سربراہ تیغو خان تیغانی کو کراچی سے گرفتار کیا جس کے بعد عدالت نے اُنھیں ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

کچے کا علاقہ کیا ہے؟

دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں کچے کے علاقے میں محکمہ جنگلات کی لاکھوں ایکڑ زمین موجود ہے، جس میں سے محکمے کے مطابق وسیع رقبے پر قبضہ ہے۔

کئی بڑے بڑے زمینداروں کی کچے میں ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس کو مقامی زبان میں کیٹی کہا جاتا ہے۔

ان میں سے کئی بڑے زمیندار سیاست میں بھی متحرک ہیں۔

کچے کا علاقہ سال کے زیادہ تر عرصے میں خشک رہتا ہے لیکن سیلابی موسم میں یہ پانی سے بھر جاتا ہے۔ یہاں کی زمین دریائی معدنیات کی موجودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ زرخیز تصور کی جاتی ہے۔

سندھ کے محکمہ آفات کے اندازوں کے مطابق یہاں 10 لاکھ سے زائد آبادی رہتی ہے، جو مویشی بانی اور زراعت سے وابستہ ہیں۔

دریا کی ایک طرف ضلع کشمور ہے تو دوسری جانب ضلع گھوٹکی واقع ہے۔ دریائے سندھ کا کچے کا علاقہ وسطی اور جنوبی سندھ کے بھی کئی ضلعوں میں ہے لیکن کشمور، گھوٹکی، شکاپور اور جیکب آباد وہ اضلاع ہیں جہاں ڈاکو سرگرم ہیں اور قبائلی تنازعات بھی ان اضلاع میں شدید ہیں۔

جنگلات، جھاڑیوں اور کچی زمین کی وجہ سے یہاں ڈاکوؤں کے لیے چھپ کر اپنی کارروائیاں کرنا اور یہاں پناہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔

ڈاکو

سکھر کے صحافی اور تجزیہ نگار جان محمد مہر کہتے ہیں کہ سکھر ریجن میں شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع شامل ہیں اور یہاں امن و امان کی صورتحال بہت خراب تھی اور یہاں سے گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد اغوا ہو چکے ہیں۔

جان محمد مہر کے مطابق جب ڈاکوؤں نے سوشل میڈیا ویڈیوز بنا کر شیئر کیں، پولیس کو للکارا اور شکارپور میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی تو پھر شدید تنقید سامنے آئی جس پر وزیر اعظم نے بھی اس کا نوٹس لیا اور وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کراچی پہنچے، جہاں اُنھوں نے ڈی جی رینجرز کے ساتھ ملاقات کی۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ شکارپور آئے اور یوں آپریشن میں شدت لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

‘جو پیچھے رہا، مجرم تصور کیا جائے گا’

ایس ایس پی شکارپور تنویر تنیو نے بی بی سی کو بتایا کہ کچے میں پانی آنے کے بعد ویسے بھی لوگ محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں اور آنے والے دنوں میں اِنھیں ویسے بھی یہ کرنا ہے، لہٰذا پولیس نے لوگوں کو اس آپریشن میں مدد کی درخواست کی ہے۔

‘ہم نے جو گڑھی تیغو اور آس پاس کے علاقے میں لوگوں کو نکل جانے کے لیے کہا ہے، اس کے بعد اگر وہاں کوئی شخص رہ جاتا ہے اور اس کے پاس اسلحہ ہے اور وہ پولیس پر فائرنگ کرتا ہے تو اس کو بھی مجرم یا مجرم کا ساتھی تصویر کیا جائے گا۔’

واضح رہے کہ شکارپور کے کچے میں پولیس پارٹی پر حملے اور دو پولیس اہلکاروں سمیت تین افراد کی ہلاکت کے بعد کچے میں آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔

اس سے قبل ایس ایس پی شکارپور عامر مسعود مگسی اور ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔

دشوار علاقے اور ‘کیریئرز’

ایس ایس پی شکارپور کا کہنا ہے کہ ضلع میں دو طرح کے جرائم سب سے زیادہ ہوتے ہیں، ایک جس میں قومی شاہراہ یا سڑکوں سے لوگوں کو اغوا کر کے کچے میں پہنچایا جاتا ہے اور دوسرا کچے میں مال مویشی کی چوری۔

‘ہم نے دو ایسے کیریئرز کو حراست میں لیا ہے جو پکے علاقے سے لوگوں کو اغوا کرنے میں مددگار رہے ہیں ان کی مدد سے ہم ان گینگس کا پتہ لگا رہے ہیں جو اغوا برائے تاوان میں ملوث رہے ہیں۔’

پولیس

ایس ایس پی شکارپور تنویر تنیو کے مطابق گڑھی تیغو اور چک کے وہ علاقے جہاں وارداتیں عام ہیں، وہاں چوکیاں قائم کردی گئی ہیں جبکہ اب بیس کیمپ بنائے جارہے ہیں۔ ‘اس بیس کیمپ کے بیک اپ میں بھی کیمپ ہیں تاکہ دور سے آکر کارروائی نہ کرنی پڑے بلکہ یہ کیمپ فوری ردعمل دیتے ہوئے فوری مدد کے لیے بھی پہنچ جائیں گے۔

اسلحے اور سیفٹی میں بہتری

شکارپور میں گذشتہ ہفتے آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کی گولیوں اور راکٹوں نے پولیس کی بکتر بند گاڑیوں کو بھی چیر دیا تھا۔

اب ایس ایس پی شکارپور تنویر تنیو بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کے پاس جدید ترین بکتر بند گاڑیاں ہیں جس پر طیارہ شکن بندوقیں اور بھاری اسلحہ مثلاً راکٹ وغیرہ اثر نہیں کریں گے۔

‘پولیس اس وقت ڈرون کیمرے بھی استعمال کر رہی ہے جس سے ڈاکوؤں کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جا رہی ہے اور ان کے پاس اس وقت سنائپر بھی موجود ہیں، لیکن پہلے مرحلے میں کچے میں رسائی حاصل کر کے بیس کیمپ بنائے جائیں گے جس کے بعد پیش قدمی ہوگی۔’

سکھر سے رسد کا راستہ بند

شکارپور کے ساتھ سکھر کا کچا ایریا بھی لگتا ہے۔ ایس ایس پی سکھر عرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے کچے میں 25 سے زائد چوکیاں لگا لی ہیں جبکہ دریاِئے سندھ کے قریب رسائی حاصل کر لی ہے تاکہ شکارپور سے ملزمان کو اس طرف فرار ہونے کا موقع نہ مل سکے اور دوسرا رسد کو روکا جائے۔

ڈاکو

اُنھوں نے بتایا کہ پنوعاقل کے کچے میں مقامی لوگوں کے علاوہ دوسروں کے جانے پر بھی سختی کردی گئی ہے تاکہ رسد معطل رہے اور دوسرا یہاں سے کوئی نکل نہ سکے۔ اس کے علاوہ پکے علاقوں میں ڈاکوؤں کے سفید پوش معاونوں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔

کشمور میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہوں میں آگ

سندھ کا ضلع کشمور پنجاب کا سرحدی علاقہ ہے اور ماضی میں پنجاب سے ڈاکو کارروائی کر کے سندھ میں اور سندھ میں کارروائی کرکے پنجاب میں پناہ لیتے رہے ہیں۔

ایس ایس پی کشمور امجد شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ کشمور میں شکارپور سے پہلے ہی آپریشن جاری تھا جس میں ڈاکوؤں کی پناہ گاہوں کو آگ لگا کر ختم کیا گیا ہے اور پولیس آگے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے، جبکہ روزانہ کی بنیاد پر فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ راستے میں جنگلوں اور جھاڑیوں کی صورت میں رکاوٹیں بھی ہیں جنھیں ختم کیا جا رہا ہے جبکہ شکارپور کے کچے کے ساتھ جو کچے کا علاقے ہے اس کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *