بنگلہ دیش اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کے بعد ہونے والے متنازع

بنگلہ دیش اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کے بعد ہونے والے متنازع

بنگلہ دیش اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کے بعد ہونے والے متنازع انتخابات میں شیخ حسینہ واجد مسلسل چوتھی بار کامیاب

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اتوار کو ملک میں ہونے والے متنازع عام انتخابات کے نتیجے میں مسلسل چوتھی مرتبہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اتوار کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے مطابق حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ اور اُن کی اتحادی جماعتوں نے 300 پارلیمانی نشستوں میں سے کم از کم 223 نشستیں جیت لی ہیں۔ ان نتائج کے بعد اب حسینہ واجد مزید پانچ سال تک اقتدار میں رہیں گی۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی جانب سے اِن انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا اور اب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ باقی رہ جانے والی نشستوں پر بھی عوامی لیگ اور ان کی اتحادی جماعتیں ہی کامیاب قرار پائیں گی۔

بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ’بی این پی‘ نے الزام عائد کیا کہ یہ انتخابات ایک ’دھوکہ‘ اور ’فریب‘ تھے۔

یاد رہے کہ ان انتخابات کے قبل حزب اختلاف کی بڑی جماعت بی این پی کے رہنماؤں اور حامیوں کی بڑی پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی تھیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ووٹ دینے کے اہل افراد میں سے فقط 40 فیصد نے ان انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کیا یعنی ووٹر ٹرن آؤٹ لگ بھگ 40 فیصد رہا۔ تاہم ناقدین کو اِن اعداد و شمار کو بھی حکمراں عوامی لیگ کی جانب سے بڑھا چڑھا کر پیش کیے جانے کا خدشہ ہے۔ بنگلہ دیش میں سنہ 2018 میں ہونے والے آخری عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 80 فیصد سے زیادہ تھا۔

آزاد اُمیدواروں، جن میں سے بیشتر کا جھکاؤ عوامی لیگ کی جانب ہے، نے 45 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ عوامی لیگ کی اتحادی جماعت جاتیہ (قومی) پارٹی نے آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ توقع ہے کہ نتائج کا باضابطہ اعلان آج (پیر) کر دیا جائے گا۔

پہلی مرتبہ سنہ 1996 میں اور اُس کے بعد 2009 میں دوبارہ مُلک کی وزیر اعظم منتخب ہونے والی شیخ حسینہ واجد مجموعی طور پر پانچویں مرتبہ مُلک کی وزیر اعظم بننے جا رہی ہیں۔

انھوں نے اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے نامہ نگاروں سے کہا تھا کہ ’میں اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہوں کہ اس ملک میں جمہوریت برقرار رہے۔‘ عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ پارٹی کی سربراہ حسینہ واجد نے اپنے حامیوں کو جیت کا جشن منانے اور ریلیاں نکالنے سے منع کیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا اندازہ ہے کہ 28 اکتوبر کو حزب اختلاف کی ایک ریلی میں تشدد کے واقعات رونما ہونے کے بعد تقریباً 10 ہزار حزب اختلاف کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کم از کم 16 افراد ہلاک اور پانچ ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

ان واقعات کے بعد شروع ہونے والی حکومتی کریک ڈاؤں نے بعد حکمراں عوامی لیگ پر سیاسی مخالفین سے جیلیں بھرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

تاہم عوامی لیگ کی جانب سے مخالفین کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عوامی لیگ کی یہ نئی فتح بنگلہ دیش میں درحقیقت ایک پارٹی کی حکمرانی کا باعث بن سکتی ہے۔

لوگوں کے خدشات ہیں کہ اس بات کی توقع نہیں کہ حکومت اپنے مخالفین پر جاری کریک ڈاؤن میں نرمی کرے گی۔

عوامی لیگ کی جانب سے آزاد نگران حکومت کے مطالبے کو مسترد کیے جانے کے بعد حزب اختلاف کی جماعت بی این پی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

سنہ 2008 سے لندن میں مقیم بی این پی کے قائم مقام چیئرمین طارق رحمٰن نے لندن سے ای میل کے ذریعے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری پرامن اور غیر متشدد تحریک بھرپور انداز میں جاری رہے گی۔‘

حسینہ واجد کی سخت حریف سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کے بیٹے رحمان نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ بی این پی کے کارکن انتخابات سے قبل تشدد کے واقعات میں ملوث ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ خالدہ ضیا اس وقت بدعنوانی کے الزامات کے تحت گھر میں نظربند ہیں۔

سنہ 2004 میں حسینہ واجد کی انتخابی ریلی پر دستی بم حملہ کرنے کے الزام میں سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کے بیٹے رحمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس واقعے میں حسینہ واجد زخمی ہوئیں اور کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رحمان نے کہا کہ ’میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کی جڑیں سیاسی انتقام پر مبنی ہیں۔‘

بی این پی نے عوام سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نہ نکلیں۔

تاہم حسینہ واجد کے حامیوں کا اصرار ہے کہ انھوں (حسینہ) نے بنگلہ دیش کو مُشکلات سے نکال کر انتہائی ضروری اور اہم وقت میں سیاسی استحکام فراہم کیا ہے۔

بنگالہ دیش

بنگلہ دیش کے موجودہ وزیرِ قانون انیس الحق کا کہنا ہے کہ ’ہم نے جمہوری عمل کو جاری رکھا ہے جس سے سیاسی استحکام حاصل ہوا ہے۔ میرے خیال میں دنیا کو اس کا سہرا شیخ حسینہ کو دینا چاہیے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ 15 سالوں میں حسینہ واجد کی سب سے بڑی کامیابی وہ اعتماد ہے جو انھوں نے بنگلہ دیش کے عوام کے ذہنوں میں پیدا کیا ہے۔ انھیں خود پر اعتماد ہونے لگا ہے۔‘

شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلہ دیش آج ایک متضاد تصویر پیش کرتا ہے۔ مسلم اکثریتی ملک، جو کبھی دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا، نے 2009 سے ان کی قیادت میں قابل اعتماد معاشی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

یہ اب خطے میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ہے، یہاں تک کہ اپنے بڑے ہمسایہ ملک انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ گذشتہ دہائی میں اس کی فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ گذشتہ 20 سالوں میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ افراد کو غربت سے نکالا گیا ہے۔ یہ چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کپڑا پیدا کرنے والا ملک بھی ہے۔

لیکن وبائی مرض اور عالمی اقتصادی سست روی کے بعد 2022 کے وسط میں معاشی بحران کا شکار ہوا۔

بڑھتی ہوئی افراط زر اور آئی ایم ایف کی جانب سے پہلے لیے گئے قرضے کی شرائط کی وجہ سے حکومت کو عوامی مسائل سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اب ان موجودہ حالات میں بنگلہ دیش پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔

ستمبر میں واشنگٹن نے بنگلہ دیشی حکام پر ویزا پابندیاں عائد کرنا شروع کیں جنھیں ملک کے جمہوری انتخابی عمل کو کمزور کرنے کا قصوروار پایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اختلاف رائے کو دبانے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

لیکن حسینہ واجد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جب تک انڈیا ان کی حمایت کرتا رہے گا، مغرب کی جانب سے بڑی پابندیوں کے کسی بھی خطرے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری کو دی جانے والی مراعات سے دستبرداری سے لاکھوں مزدور متاثر ہوں گے جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔

حسینہ واجد 2009 میں دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے اب تک اقتدار میں ہیں، جس سے وہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیراعظم رہنے والی رہنما بن گئیں ہیں۔

وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنی مدت کے اختتام تک وہ 81 سال کی ہو جائیں گی۔ ان کا جانشین کون ہو گا، یہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کے حامیوں سمیت بہت سے لوگوں کے لیے ایک بڑا سوال ہے۔

جیسا کہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’انتخابی نتائج واضح تھے، لیکن مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *