بلوچ یکجہتی مارچ میں گرفتار افراد کی تفصیل کے ساتھ آئی جی اور سیکریٹری

بلوچ یکجہتی مارچ میں گرفتار افراد کی تفصیل کے ساتھ آئی جی اور سیکریٹری

بلوچ یکجہتی مارچ میں گرفتار افراد کی تفصیل کے ساتھ آئی جی اور سیکریٹری داخلہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ یکجہتی مارچ کے دوران گرفتار ہونے والے مظاہرین کی رہائی کے لیے گزشتہ روز دائر ہونے والی درخواست پر سماعت کا آغاز۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ درخواست لانگ مارچ کے منتظمین میں سے سمی بلوچ اور عبدالسلام نے وکیل ایمان مزاری کے ذریعے دائر کی تھی اور ساتھ اس پر فوری سماعت کی استدعا بھی کی تھی۔

آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے آغاز پر ہی عدالت نے جونیئر پولیس اہلکاروں کی جانب سے پیش ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا گیا اور آدھے گھنٹے میں آئی جی اسلام آباد کو طلب کر لیا ہے۔

بلوچ یکجہتی مارچ کے گرفتار مظاہرین کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل عطا اللہ کُنڈی نے کہا کہ ’ایس ایس پی نے ہمیں کہا ہمیں وزیراعظم کی ہدایت ہے انکو واپس بلوچستان بھیجیں، پولیس نے زبردستی تمام خواتین کو بسوں میں سوار کروا دیا، اسی دوران اسلام آباد میں زیرِ تعلیم کچھ طلبہ کو بھی زبردستی بسوں میں سوار کر دیا گیا۔‘

وکیل درخواست گُزار کا عدالت میں کہنا تھا کہ ’اس دوران آئی جی اسلام آباد تھانے پہنچے اور انھوں نے بھی کہا کسی طرح ان کو یہاں سے بھیجیں، اس کے بعد پولیس نے تھانے کے دروازے بند کر دیے، جس کے بعد صبح پانچ بجے پولیس نے بیان جاری کیا ہم نے ان کو بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔‘

اس پرعدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ ’پولیس کی طرف سے کون پیش ہوا ہے؟

اس پر ایک پولیس انسپکٹر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ جس پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ اس معاملے میں آئی جی کو یا سیکرٹری داخلہ کو کہیں کہ وہ پیش ہوں؟

عدالت کی جانب سے دیے جانے والے ریمارکس میں کہا گیا کہ ’تمام لوگ کہاں ہیں ان کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے، عدالت کی جانب سے پولیس کو حکم دیا گیا کہ آدھے گھنٹے میں عدالت میں رپورٹ جمع کروائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *