بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے اہلکار کے خلاف بچے کے ریپ کے الزام میں مقدمہ درج
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ میں فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار کے خلاف ایک بچے کے ریپ کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں بچے کے بھائی نے موقف اختیار کیا ہے کہ شہد جمع کرنے کے لیے جانے والے ان کے نو عمر بھائی کو قریبی چیک پوسٹ پر تعینات اہلکار نے ریپ کیا جس کے بعد وہ روتے ہوئے گھر آیا۔
پولیس نے ایف سی اہلکار کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 377 بی کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
الزام ثابت ہونے کی صورت میں اس کی سزا سات سال تک قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔
ہمارے دونوں بچے گھر سے خوشی خوشی شہد جمع کرنے گئے تھے لیکن واپسی پر دونوں زار و قطار روتے ہوئے واپس آئے۔‘
یہ کہنا تھا پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے عبید (فرضی نام) کا جن کے 14 برس کے بھائی کے بارے میں بدھ کے روز یہ خبر وائرل ہوئی تھی کہ انھیں فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا ہے۔
ضلع کیچ کی انتظامیہ کے مطابق بچے کے طبی معائنے کے بعد جاری ہونے والی رپورٹ میں ریپ ثابت نہیں ہوا تاہم لڑکے کے بھائی کا کہنا تھا کہ ’اہلکار نے ان کے بھائی کا ازار بند کھولا تھا۔‘
ان کے مطابق انھیں بتایا جا رہا ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں ریپ ثابت نہیں ہوا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ’جب اہلکار نے بچے کا ازار بند کھول دیا تو اس سے بڑھ کر زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایف سی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک لڑکے کےساتھ ریپ کے حوالے سے گمراہ کن خبریں سرگرم ہیں جو کہ حقیقت کے برعکس ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال تربت کی میڈیکل رپورٹ پہلے ہی منظرِ عام پر آ چکی ہے جس کے مطابق ریپ کے شواہد نہیں ملے لیکن انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نامزد ملزم کو ایف سی کی جانب سے لیویز حکام کے حوالے کیا جا چکا ہے۔
یہ مبینہ واقعہ ضلع کیچ میں کہاں پیش آیا؟
یہ مبینہ واقعہ ہوشاپ کے علاقے میں پیش آیا جو ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت سے تقریبا 118 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
عبید نے بتایا کہ اس موسم میں ان کے علاقے میں شہد بہت ہوتا ہے جسے جمع کرنے ان کے دو چھوٹے بھائی قریبی علاقے میں گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا جس مقام پر وہ شہد جمع کرنے گئے وہ ایف سی کی چوکی اور کیمپ سے تھوڑے سے فاصلے پر ہے۔
عبید کے مطابق دونوں لڑکے شہد جمع کرنے کے بعد واپس روانہ ہوئے لیکن جو برتن لے کر گئے تھے ان میں سے ایک وہیں چھوڑ آئے۔
’راستے میں یاد آنے پر بڑا بھائی خود وہاں رک گیا اور چھوٹے کو برتن لینے کے لیےبھیج دیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب چھوٹے بھائی کو واپس آنے میں تاخیر ہوئی تو بڑے بھائی کو تشویش ہوئی اور وہ اس جانب روانہ ہوا جہاں اسے چھوٹے بھائی کے رونے کی آواز آئی۔
چھوٹے بھائی نے گھر واپسی پر کیا بتایا؟
عبید نے بتایا کہ دونوں بھائی جس طرح خوشی خوشی شہد لینے گئے تھے، وہ واپس اسی طرح خوش نہیں بلکہ روتے ہوئے آئے۔
’ہمارے استفسار پر اس نے بتایا کہ جب وہ برتن لینے گیا تو وہاں ایف سی کا ایک اہلکار موجود تھا۔ بچے نے بتایا کہ اہلکار نے اپنا ایک ہاتھ ان کے منہ پر رکھ کر اسے بند کیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کا ازار بند کھول دیا۔‘
عبید نے بتایا کہ گھر آنے کے بعد ’دونوں بچے نہ صرف رو رہے تھے بلکہ وہ شدید خوفزدہ بھی تھے۔‘
واقعے کے خلاف احتجاج
اس واقعے کی خبر عام ہونے کے بعد علاقے کے لوگوں نے ہوشاپ تربت ہائی وے کو بند کر دیا تھا۔
عبید نے بتایا کہ ’یہ پورے علاقے کی عزت کا سوال تھا اس لیے ان کے کہے بغیر لوگ گھروں سے نکلے اور سڑک بند کر دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران لوگوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ مبینہ ریپ کے ملزم کو گرفتار کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اہلکار کی شناخت
عبید نے بتایا کہ وہ بچوں کو لے کر علاقے کے نائب تحصیلدار کے ہمراہ ایف سی کے کیمپ بھی گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے وہاں ایف سی کے حکام سے مطالبہ کیا کہ واقعے کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
عبید کے مطابق ’وہاں بچے نے اس اہلکار کو شناخت بھی کیا جس پر الزام تھا جس کے بعد کیمپ میں فورس کے ایک افسر نے ملزم سے رائفل لے کر اسے حراست میں لینے کا حکم دیا۔‘
بی بی سی نے اس سلسلے میں ایف سی حکام سے رابطے اور اس معاملے کے سلسلے میں ان کا موقف لینے کی کوشش کی لیکن بارہا کوشش کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔
ضلعی انتظامیہ کا موقف کیا؟
جب اس واقعے کے بارے میں ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بدھ کو بچے کے رشتہ دار ہوشاپ میں ایف سی کیمپ میں نائب صوبیدار کے پاس گئے تھے اور انھیں بتایا کہ ان کے بچے کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی الزام لگاتا ہے تو صرف اس کی بنیاد پر کارروائی نہیں ہوتی بلکہ قانون کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور اس طریقۂ کار کے مطابق ایف سی اہلکار کو بلایا گیا اور بچے کو بھی طبی معائنے کے لیے بلایا گیا۔
ڈی سی کیچ کے مطابق طبی معائنے اور رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ بچے کو ریپ نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود اس پورے عمل کی نگرانی کی تا کہ رپورٹ میں کوئی گڑبڑ نہ کی جا سکے۔
حسین جان بلوچ کا کہنا ہے کہ جس اہلکار پر الزام لگایا گیا تھا وہ تاحال زیر حراست ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس واقعے کے بارے میں مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور وہ سب کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر کوئی مجرم پایا گیا تو اس کو سزا ملے گی