کورونا وائرس انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کووڈ

کورونا وائرس انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کووڈ

کورونا وائرس انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کووڈ 19 کی دوسری لہر میں کس طرح بے بس ہوئی

ان دنوں انڈیا میں کووڈ 19 کی دوسری خطرناک لہر اپنے عروج پر ہے۔ انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں کورونا وائرس کے متاثرین میں مسلسل اضافے کی خبریں آ رہی ہیں۔ انتظامیہ کی صورتحال کو قابو کرنے کے دعوؤں کے باوجود لوگوں نے بی بی سی کے ساتھ اپنی مشکلات کا ذکر کیا ہے۔

کنول جیت سنگھ کے 58 برس کے والد نرنجن پال سنگھ کی ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال جاتے ہوئے ایمبولینس میں ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ بستروں کی کمی کی وجہ سے انھیں چار ہسپتالوں نے داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

کانپور میں اپنے گھر سے انھوں نے فون پر بتایا ’یہ میرے لیے بہت ہی افسوسناک دن تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انھیں بروقت علاج مل جاتا تو وہ بچ جاتے لیکن پولیس، صحت کی انتظامیہ یا حکومت نے ہماری مدد نہیں کی۔‘

گذشتہ سال اس وبا کے پھیلنے کے بعد سے کل آٹھ لاکھ 51 ہزار 620 افراد کے اس وائرس سے متاثر ہونے اور نو ہزار 830 اموات کے ساتھ اترپردیش کی حالت پہلی لہر میں زیادہ خراب نہیں تھی لیکن دوسری لہر نے اس ریاست کو بے بسی کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

حکام کا اب بھی کہنا ہے کہ صورتحال قابو میں ہے لیکن ریاستی دارالحکومت لکھنؤ، وارانسی، کانپور اور الٰہ آباد جیسے بڑے شہروں میں کورونا تشخیص کے مراکز پر ہجوم، ہسپتالوں سے واپس کیے جانے والے مریضوں میں اضافے اور مرگھٹ پر 24 گھنٹے جلتی لاشوں نے قومی سطح پر شہ سرخیاں بنائی ہیں۔

فائل فوٹو
صحت کے مراکز پر بنیادی سہولیات کی کمی دیکھی جا رہی ہے (فائل فوٹو)

ملک کی سب سے بڑی ریاست

24 کروڑ کی آبادی والی ریاست اترپردیش انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔ ہر چھٹا انڈین اس ریاست کا شہری ہے۔ اگر یہ الگ ملک ہوتا تو یہ چین، انڈیا، امریکہ اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں بڑا اور پاکستان اور برازیل سے بھی بڑا ملک ہوتا۔

اترپردیش سیاسی لحاظ سے بھی ملک کی سب سے اہم ریاست ہے، جو ریاستی پارلیمان میں سب سے زیادہ یعنی 80 ارکان کو پارلیمنٹ کو بھیجتی ہے۔ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہیں اگرچہ وہ کسی اور ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہرحال اس سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود ریاست کو زیادہ ترقی حاصل نہیں ہوئی۔

اس ریاست میں فی الحال کورونا کے ایک لاکھ 91 ہزار سے زیادہ فعال کیسز ہیں۔ ہر روز ہزاروں کی تعداد میں انفیکشن کی اطلاع مل رہی ہے۔ اس کے باوجود یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ متاثرہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور ان وجوہات کے سبب ریاست کے صحت کے ناقص انفراسٹرکچر کو سرخیوں میں جگہ مل رہی ہے۔

کورونا کے مریضوں میں ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سمیت ان کی کابینہ کے کئی ارکان، درجنوں سرکاری عہدیدار اور سینکڑوں ڈاکٹرز، نرسیں اور شعبۂ صحت کے دیگر کارکن شامل ہیں۔

گذشتہ کچھ دنوں کے دوران میں نے ریاست کے درجنوں لوگوں سے بات کی اور انھوں نے چونکا دینے والی کہانیاں سنائی ہیں۔

انڈیا

کانپور کے ایک صحافی کے ذریعے شیئر کردہ ایک ویڈیو میں لالہ لاجپت رائے سرکاری ہسپتال کی پارکنگ میں ایک مریض کو زمین پر پڑا ہوا دیکھا گیا اور تھوڑی ہی دور ایک بینچ پر ایک مریض کو بیٹھا دیکھا۔ یہ دونوں کووڈ 19 کے انفیکشن سے دوچار ہیں لیکن انھیں ہسپتال میں داخل کرنے کے لیے کوئی بستر نہیں۔

حکومت کے ہی کانشی رام ہسپتال کے باہر ایک نوجوان خاتون نے روتے ہوئے کہا کہ دو ہسپتالوں نے ان کی بیمار ماں کو داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اس نوجوان عورت نے مسلسل روتے ہوئے کہا ’وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس بیڈ نہیں۔ اگر ہسپتال میں بستر نہیں تو مریض کو فرش پر رکھیں لیکن کم سے کم ان کا علاج تو کریں۔ مجھ جیسے بہت سے لوگ ہیں۔ میں نے بہت سے مریضوں کو لوٹائے جاتے دیکھا۔ وزیر اعلی کہتے ہیں کہ کافی بستر ہیں۔ براہ کرم مجھے دکھائیں کہ بستر کہاں ہیں؟ براہ کرم میری ماں کا علاج کیجیے۔‘

مرگھٹ
شمشان گھاٹ پر جلتی لاشوں نے قومی سطح پر شہ سرخیاں بنائی ہیں

کوئی بھی مدد کرنے نہیں آیا

دارالحکومت لکھنؤ کی حالت بھی اتنی ہی خراب ہے۔ کار میں بیٹھے اور چہرے پر آکسیجن ماسک پہنے سشیل کمار سریواستو کی تصویر منظر عام پر آئی ہے۔ انھیں ہسپتال میں داخل کروانے کے لیے ان کا کنبہ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کے چکر لگاتا رہا۔ جب تک انھیں بیڈ ملتا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

جب میں نے ان کے بیٹے آشیش کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ ٹوٹ چکے ہیں اور بات کرنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا ’آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔ ویسے، میں بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔‘

ریٹائرڈ جج رمیش چندر کے ہندی میں تحریر کردہ نوٹ کو سینکڑوں افراد نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔ اس میں وہ حکام سے التجا کر رہے ہیں کہ ان کی بیوی کی کورونا سے متاثرہ لاش گھر سے لے جانے میں ان کی مدد کریں لیکن کوئی ان کی بات نہیں سُن رہا۔

انھوں نے خط میں لکھا تھا ’میں اور میری اہلیہ دونوں کورونا کی زد میں ہیں۔ کل صبح سے ہی میں نے سرکاری ہیلپ لائن نمبر پر کم سے کم 50 بار فون کیا لیکن کوئی بھی دوائیں دینے یا ہسپتال لے جانے نہیں آیا۔ انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے میری اہلیہ کی آج صبح موت ہو گئی۔‘

وزیراعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقہ وارانسی میں ایک زمانے سے مقیم 70 برس کی نرملا کپور جمعرات کے روز ہسپتال میں کورونا سے دم توڑ گئیں۔ ان کے بیٹے ومل کپور نے موجودہ صورتحال کو ’خوفناک‘ قرار دیا ہے۔

ومل کپور نے کہا ’میں نے بہت سارے لوگوں کو ایمبولینسز میں مرتے ہوئے دیکھا۔ ہسپتال مریضوں کو وہاں سے بھگا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس بستر نہیں، دوا کی دکان پر کورونا کی ادویات نہیں اور آکسیجن بھی ناکافی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب وہ اپنی والدہ کی لاش کو شمشان گھاٹ لے گئے تو گھاٹ پر ’لاشوں کا ڈھیر‘ تھا۔ جلانے کے لیے لکڑی کی قیمت تین گنا بڑھ گئی ہے۔ آخری رسومات کے انتظار کی مدت 20-15 منٹ سے بڑھ کر پانچ چھ گھنٹے ہو گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ ’جہاں کہیں بھی دیکھو، آپ کو صرف ایمبولینسیں اور لاشیں ہی نظر آتی ہیں۔‘

ایمبولینسز

حقیقی تصویر سامنے نہیں آرہی

کووڈ 19 سے ہونے والی اموات اور اس سے تباہ حال گھرانوں کی کہانیوں کے درمیان اس بیماری کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اتوار کے روز ریاست میں 30 ہزار 596 نئے کیسز درج کیے گئے، جو ریاست میں ایک دن میں متاثرہ افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

حتیٰ کہ حزب اختلاف کے رہنما اور کارکن بھی کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ کی اصل تصویر نہیں بتا رہے۔ انھوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ ریاست میں کافی جانچ نہ کر کے اور نجی لیبز کے ڈیٹا کو شامل نہ کر کے کورونا کے متاثرہ افراد کی تعداد اور اس سے ہونے والی اموات کی تعداد کو کم کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

اور ان لوگوں کے دعوؤں میں سچائی نظر آتی ہے۔ جن لوگوں سے میں نے بات کی ان میں سے بہت سے لوگوں کی جانچ نہیں کی گئی تھی جبکہ جن کی جانچ ہوئی تھی ان میں سے بہت سے لوگ جو پازیٹو پائے گئے، ان کا ڈیٹا ریاستی حکومت کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا۔

لکھنؤ کے 62 برس کے اجے سنگھ نے مجھے اپنی اہلیہ کے کووڈ 19 مثبت ہونے کے بارے میں ایک رپورٹ بھیجی لیکن ریاستی حکومت کے ریکارڈ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملا۔

کانپور کے نرنجن پال سنگھ اور وارانسی کی نرملا کپور دونوں کے نام ریاست میں کورونا کی وبا میں ہلاک افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ اس کے بعد بھی ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں کورونا وائرس کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔

میڈیا نے بھی حکومت کے اعداد و شمار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لکھنؤ اور وارانسی کے شمشان گھاٹوں پر جلنے والی لاشوں اور کورونا سے مرنے والوں کے متعلق سرکاری اعداد و شمار میں کوئی مفاہمت نہیں۔

کورونا، شمشان گھاٹ

حکومت موقع گنوا بیٹھی

وارانسی کے نجی ہسپتال ہیریٹیج ہاسپیٹلز کے ڈائریکٹر انشومن رائے موجودہ صورتحال کو ’غیر معمولی‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’صحت کی خدمات کے بیٹھ جانے کی وجہ ڈاکٹرز، نرسوں، وارڈ بوائز اور لیب ٹیکنیشن کا بڑی تعداد میں کورونا سے متاثر ہونا ہے۔‘

انھوں نے بتایا ’ایسے وقت میں جب ہمیں 200 فیصد کام کرنا چاہیے، ہم سو فیصد بھی کام کرنے کے اہل نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحت کا شعبہ پوری طرح سے افرادی قوت پر منحصر ہے۔‘

تاہم ناقدین نے دوسری لہر کے بارے میں اندازاہ لگانے میں ناکامی کا الزام ریاستی اور مرکزی حکومت پر عائد کیا ہے۔

انڈیا

ناقدین کا کہنا ہے کہ ستمبر اور فروری کے درمیان کچھ نہیں کیا گیا جبکہ اس دوران صحت کی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنایا جا سکتا تھا۔ آکسیجن بینک کے قیام کے ساتھ ریاستیں دوائیں جمع کرسکتی تھیں لیکن انھوں نے اس موقعے کو گنوا دیا۔

اور اب جب کہ یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے ایسے میں سب کچھ ٹھیک ہونے کی صورت نظر نہیں آتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *