بلال کاکا قوم پرست جماعت کے کارکن کی ہلاکت پر کراچی میں کشیدگی برقرار: ’لسانی رنگ دینے والوں کے لیے مکمل عدم برداشت ہے‘ شرجیل میمن
صوبۂ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ایک ہوٹل میں جھگڑے کے دوران قوم پرست جماعت کے کارکن بلال کاکا کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کا اثر جمعے کو بھی کراچی میں محسوس کیا جا رہا ہے اور سہراب گوٹھ کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق جمعرات کے روز سہراب گوٹھ میں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں مشتعل افراد کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہوئے جبکہ اب تک 90 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے سہراب گوٹھ میں بلال کاکا کی ہلاکت کے بات بڑھنے والی کشیدگی کے بارے میں کہا ہے کہ دو افراد کے جھگڑے کو لسانی کشیدگی کا نام نہ دیا جائے۔
پختون اور سندھی رہنماؤں کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں اور لسانی گروہوں میں کوئی جھگڑا نہیں اور انھوں نے لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔
تمام رہنماؤں نے کراچی اور حیدر آباد میں ہونے والی پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس موقعے پر سعید غنی کا کہنا تھا کہ ایک قتل جس پر ایف آئی آر اور گرفتاریاں بھی ہو چکیں ہیں اسے لسانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ انھوں نے کہا صوبہ اس بات کا متحمل نہیں کہ اس معاملے کو لسانی فسادات کا رنگ دیا جائے۔
شرجیل میمن نے بتایا کہ ’وزرات داخلہ سے کہا ہے کہ وہ ایف آئی اے کو ہدایت دیں جو بھی سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک پر نفرت انگیز ویڈیوز یا پیغام بھیج رہے ہیں انھیں فوری گرفتار کریں اور وزرات داخلہ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی حصے سے ایسے افراد کو گرفتار کیا جائے گا۔ اس معاملے میں وفاقی اور سندھ حکومت دونوں متحرک ہیں۔ ان کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
کراچی پولیس کی جانب سے دائر کی گئی ایف آئی آر کے مطابق مشتعل افراد کے ہاتھوں میں سلاخیں اور اسلحہ تھا اور انھوں نے کراچی بس ٹرمینل میں توڑ پھوڑ کے ساتھ لوٹ مار شروع کر دی۔
ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین کی تعداد 1500 سے 2000 کے درمیان تھی جو سپر ہائی وے پر پھیل گئے اور راہگیروں اور گاڑیوں میں سوار مسافروں سے چھینا جھپٹی کرتے ہوئے فائرنگ کرتے رہے، جس سے چار افراد زخمی ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان زخمیوں میں سے دو افراد 27 سالہ نجم الحسن اور 45 برس کے نظیر احمد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
جمعے کو صورتحال کیا ہے؟
سہراب گوٹھ کے علاقے میں جمعے کو دوسرے روز بھی صورتحال کشیدہ ہے اور مزید ایک گاڑی کو نذر آتش کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی عبدالرحیم شیرازی کا کہنا ہے کہ یہ آلٹو گاڑی کا ڈھانچہ تھا جسے آگ لگائی گئی اور جائے وقوع سے 30 کے قریب مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
جمعرات کو کراچی پولیس نے 50 کے قریب مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں سے 40 پر باقاعدہ مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ان میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں، یہ مقدمات سہراب گوٹھ اور مبینہ ٹاؤن پولیس تھانوں میں درج ہیں۔
جمعے کوسہراب گوٹھ اور موٹر وے پر ٹریفک کی روانی بحال رکھنے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موجود ہے جبکہ حیدرآباد میں بھی رینجرز کا گشت جاری ہے۔ قاسم آباد کا علاقہ جہاں بلال کاکا کا قتل ہوا تھا رینجرز کے جوان مسلسل گشت کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ہوٹل ایسوسی ایشن نے اعلان کیا تھا کہ اگر سندھ میں پشتونوں کے ہوٹل اور کاروبار جمعہ کو نہیں کھلنے دیے گئے تو وہ دوپہر کو احتجاج کریں گے۔
اس سے قبل کشیدگی کو کم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے علاوہ سندھی اور پشتون جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کیے تھے اور اسے سازش قرار دیا ہے۔
کراچی میں ہنگامہ آرائی
کراچی میں جمعرات کی شام پشتون آبادی کے اکثریتی علاقے سہراب گوٹھ میں موٹر وے جانے والی سڑک اور بس اڈے پر مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس دوران ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔
صحافی فیض اللہ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے بلدیاتی انتخابات کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ حیدرآباد کی طرف سے آنے والی گاڑیوں پر پتھراؤ ہوا اور ایک گاڑی کو آگ بھی لگا دی گئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ موٹر وے کے ساتھ ساتھ لیاری ایکسپریس وے اور صفورا گوٹھ کی طرف جانے والی سڑک پر بھی آمد و رفت بند ہے۔
حکومت اور جماعتوں کے رابطے
صوبائی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شاہی سید اور قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو سے رابطہ کر کے انہیں امن اور بھائی چارے کے قیام میں مثبت کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ شرجیل میمن کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اپنے بھرپور تعاون اور کوششوں کی یقین دہانی کرائی۔
شرجیل انعام میمن نے کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والے نوجوان کے مقدمے میں ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ واقعے کے بعد کاروباری املاک کو نقصان پہنچانے والے بعض نوجوانوں کو پولیس نے حراست میں لیا ہے۔
دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید نے قومی عوامی تحریک کے رہنما ایاز لطیف پلیجو سے رابطہ کیا ہے۔ جس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ دونوں نے اتفاق کیا کہ سندھی اور پشتونوں میں غلط فہمی پیدا کرنے والے اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
جی ایم سید، رسول بخش پلیجو اور باچا خان کا بھائی چارہ سندھی اور پختونوں کے لیے مشعل راہ ہے اور دونوں میں قومیت کے نام پر کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
دونوں رہنماں نے مطالبہ کیا کہ بلال کے قتل میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔ سندھ دھرتی سندھی بھائیوں کی ملکیت ہے اور پختون یہاں محنت مزدوری کر کے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
دریں اثنا جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین صنعان قریشی نے کہا کہ سندھ میں لسانیت کی ہوا چل رہی ہے لہذا سندھی پرامن رہیں اور انتشار کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے جی ایم سید اور باچا خان کی دوستی کا حوالہ دیا اور کہا کہ سندھ نے باہر سے آنے والوں کو پناہ دی ہے لیکن سندھ کے اصل وارث یہاں کے اصل مقامی باشندے ہیں، لوگوں کو ٹارگٹ بنا کر قتل کرنا قابل مذمت ہے۔
کھانے کے دوران جھگڑا
حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں 12 جولائی کی شب یہ واقعہ پیش آیا جب ہوٹل پر کھانا کھانے کے دوران نوجوانوں اور ہوٹل انتظامیہ میں تصادم ہو گیا۔
بلال کاکا کے بھائی سلام کاکا نے بھٹائی نگر تھانے میں دائر مقدمے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ رات کو سوا تین بجے ان کے دوست عامر خان نے فون پر اطلاع دی کہ آپ کے بھائی بلال کاکا کو سلاطین ہوٹل والوں نے جھگڑا کر کے ہلاک اور دوستوں کو زخمی کر دیا ہے اور وہ لاش اور زخمیوں کو رکشہ میں لے کر سول ہسپتال جا رہے ہیں۔
سلام کاکا کے مطابق وہ فوری سول ہسپتال پہنچے جہاں دیکھا کہ ’بلال کی لاش سٹریچر پر موجود ہے۔ دائیں جانب کان سے اوپر چوٹ لگی ہوئی تھی جس سے خون نکل رہا تھا اس کے علاوہ پیٹھ اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی چوٹوں کے نشانات واضح تھے۔‘
پوسٹمارٹم رپورٹ
بلال کاکا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق 35 سالہ بلال کی موت اندرونی اعضا کو نقصان پہنچے کی وجہ سے ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کے جسم کے اہم اعضا کو کسی تیز دار چیز سے نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔
وہاں موجود بلال کے دوست سرفراز عرف جانی سنجرانی، عمران خان، ذیشان جمالی، وقار پاٹولی کا دعویٰ ہے کہ وہ رات کو سلاطین ہوٹل پر کھانا کھانے گئے تھے جہاں وہ کھانا کھا رہے تھے کہ ’ایک ویٹر نجیار نے بدتمیزی کی۔‘
ان کا الزام ہے کہ وہ شکایت کرنے مالک شہسوار خان کے پاس گئے ’جس نے کہا کہ آپ کو کھانا کھانا ہے تو کھاؤ ورنہ چلے جاؤ، ہوٹل خالی کرو۔ اس نے ساتھ میں گالیاں بھی دیں اور اسی دوران اپنے بیٹوں اور ساتھیوں کو بلا لیا جو نوکدار سلاخوں سے حملہ آور ہوئے جس میں بلال کو چوٹیں لگیں اور وہ نیچے گر گیا۔ جب آس پاس لوگ جمع ہونے لگے تو انھوں نے فائرنگ کر کے لوگوں کو دور کیا۔‘
بلال کاکا کون تھے؟
بلال کاکا کا تعلق حیدرآباد کے قریب نیشنل ہائی وے پر واقع نیو سعید آباد سے تھا۔ انھوں نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور حیدرآباد میں ایک نجی تعلیمی ادارے میں سکیورٹی سپروائیزر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ تین سال قبل ان کی شادی ہوئی تھی اور ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔
بلال قوم پرست سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ ان کا تعلق سندھی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ سے تھا۔
دوسری جانب قاسم آباد کی بھٹائی نگر پولیس کا کہنا ہے کہ بلال کاکا مختلف مقدمات میں مطلوب تھا اور اس پر 12 مقدمات درج ہیں جن میں انسداد دہشت گردی کا الزام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور ارادہ قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔ یہ مقدمات حیدرآباد اور اس کے مضافاتی علاقوں ٹنڈو جام اور مٹیاری میں دائر ہیں۔
مقتول بلال کے بھائی سلام کاکا پولیس کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا بھائی محبت کرنے والا اور ہنس مکھ انسان تھا۔ ’یہ مقدمات تو پہلے کے ہیں اب کے مقدمات بتائے جائیں۔‘
پولیس کی عدم دلچسپی
قاسم آباد میں ہونے والے اس جھگڑے کی سوشل میڈیا میں ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک زخمی شخص چلا رہا ہے کہ ’ہمیں مارا جا رہا ہے، پولیس خاموش کھڑی ہے۔‘ ساتھ میں پولیس موبائل بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
ایس ایس پی حیدرآباد امجد شیخ کا کہنا ہے کہ پولیس موبائل موجود تھی اور کوئی کارروائی نہیں کی جس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
پولیس نے ہوٹل مالک شہسوار خان کو گرفتار کر لیا تھا، جس کا سول جج اینڈ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے دو روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔
احتجاج اور پشتونوں کے کاروبار بند
جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما نیاز کالانی کی قیادت میں بلال کاکا کی لاش سمیت قاسم آباد میں دھرنا دیا گیا، ان کا مطالبہ تھا تمام مقدے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی جائیں اور تمام ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔
ایس ایس پی حیدرآباد امجد شیخ نے مظاہرین کی قیادت سے مذاکرات کیے اور انھیں یقین دہانی کرائی کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔
قوم پرست جماعتوں نے ہوٹل مالکان کو افغانی قرار دیا جس کے بعد سندھ کے کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا۔ حیدرآباد، شکارپور، سکھر، نوابشاہ، سہون، ٹنڈو محمد خان، میھڑ سمیت ایک درجن کے قریب شہروں اور قصبوں میں قوم پرست جماعتوں جئے سندھ قومی محاذ، جئے سندھ محاذ، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکالیں گئیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ افغان باشندوں کو سندھ سے بے دخل کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر بعض ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سہون، نوابشاہ، قاسم آباد، حیدرآباد اور ٹنڈو محمد خان میں نوجوان پشتون دکانداروں کی دکانیں بند کرا رہے ہیں۔ جام شورو اور کوٹڑی میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب ہوٹلوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور فائرنگ میں قوم پرست جماعتوں کے پانچ کارکن زخمی ہوئے۔
سوشل میڈیا پر رد عمل
سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر بھی بلال کاکا کے قتل اور افغان تارکین وطن کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ تاہم صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے دوستی اور بھائی چارے کے پیغام شیئر کیے جبکہ کچھ لوگوں نے جی ایم سید اور باچا خان کی مشترکہ تصاویر شیئر کیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک اور قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو کے خاندان سے تعلق لکھنے والے سرمد پلیجو نے لکھا کہ ہم سندھ کے ہر پشتون کا دفاع کریں گے اور ہر قیمت پر ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ہم مجرموں کے ہاتھوں بلال کاکا کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہیں اور فوری انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن مجرم خوبصورت لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتے اور نہ ہی وہ تاریخ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پشتون ہمیشہ سندھیوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
حیدرآباد کی ایکٹوسٹ ماروی اعوان نے لکھا کہ معاملہ سندھی پٹھان تنازعے میں بدل رہا ہے جو سندھ کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ ہمیں حالات کو قانونی طریقے سے ہینڈل کرنا چاہیے، سندھ امن کی دھرتی ہے نسل پرستی نہ کریں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی نے لکھا کہ حیدرآباد میں ایک جوان کو قتل کیا گیا ہے اور اس کی آڑ میں ایک طبقہ پوری پشتون قوم کو مورد الزام ٹہرا رہا ہے ہم امن پسند قوم ہیں، مرنے والے نے اگر زبردستی بھی کسی سے کچھ لینے کی کوشش کی ہے تب بھی قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ قانون کا احترام نہیں ہو گا تو معاشرے میں بگاڑ ہی ہو گا۔
صحافی نعمت خان نے انہیں جواب دیا کہ ایمل، آپ کی ٹوئیٹ قتل کی مذمت سے شروع ہونی چاہیے تھی، بغیر کسی اگر مگر کے۔ آپ پشتونوں کی ایک جماعت کے رہنما ہیں۔ قتل کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ ایک واقعہ کے لیے پوری پشتون قوم کو نشانہ بنانا غلط ہے اس کی مذمت سندھی قیادت کو بھی کرنی چاہیے۔
صحافی سمیر مندہرو نے لکھا کہ اس لسانی نفرت و جھگڑے سے پہلے کسی کو فائدہ ہوا نہ اب ہو گا۔ جو سندھ میں پٹھان بھائی روزگار کر رہے ہیں ان کے بچے اپنے گاؤں میں ان کے لیے اتنے ہی فکرمند ہیں جتنے کسی سندھی مزدور کے پشاور میں۔ یہ آگ لگوائی جا رہی ہے اس کو سمجھیں اور اپنے اپنے علاقوں میں پٹھان بھائیوں کو تحفظ دیں۔
خالد کوری نے پولیس کی جانب سے بلال کاکا پر لگائے گئے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر جرم، گرفتاری اور رہائی کے برسوں کو مائنس پلس اور ضرب کی جائے تو پتہ چلے گا کہ بلال کی عمر کتنی تھی، جرم کب اور کہاں کیے، وہ مزید لکھتے ہیں یہ افسوسناک واقعہ تھا سوگ میں کاروبار بند کرایا گیا تھا۔
نصرہ نظامانی لکھتی ہیں کہ قابل شرم بات ہے کہ قاتلوں کو بچانے کے لیے مقتول کی کردار کشی کی جا رہی ہے، اس ملک میں ہر چیز پر ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔ سزا و جزا کے لیے عدالتیں و قانون موجود ہے۔