باجوڑ دھماکے میں 44 افراد کی ہلاکت میرے سامنے میرے شاگرد کی لاش پڑی تھی
انتباہ: اس مضمون میں ایسی تفصیلات شامل ہیں جو چند قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
’باجوڑ میں آج قیامت صغری ہے۔ ہر گاؤں، قوم، قبیلے کا کوئی نہ رشتہ دار اس واقعہ میں ہلاک ہوا ہے، ہر کوئی ماتم کر رہا ہے۔‘
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں باجوڑ کے ریسکیو 1122 کے شفٹ انچارج حبیب الرحمن اتوار کے دن جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے دھماکے کے دو منٹ بعد ہی اس مقام پر پہنچ چکے تھے۔
یہ اتوار کا دن تھا جب خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کے کنونشن میں کارکنان بڑی تعداد میں موجود تھے جب ایک دھماکہ ہوا جس میں اب تک 44 افراد ہلاک اور 100 زخمی ہو چکے ہیں۔
حبیب الرحمن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کئی زخمی شور مچا رہے تھے کہ ہمیں بچاؤ، ہمیں بچاؤ۔ کچھ بالکل ساکت تھے۔ وہ صدمے اور خوف کی کیفیت میں تھے۔‘
’ایک زخمی کافی بری حالت میں تھا۔ اس نے بے چینی سے مجھے کہا کہ ہسپتال پہنچاؤ، مجھے بچاؤ۔ میں نے اس کا سانس بحال کرنے کے لیے سی پی آر کیا لیکن اس کی سانسیں ختم ہو گئیں۔‘
حبیب الرحمن کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو ایمبولینس میں منتقل کرنے کے بعد ’ہم نے بکھری ہوئی لاشیں اور ان کے اعضاء کو اکھٹا کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ 15 لاشوں کو مردہ خانے میں منتقل کیا تھا۔ یہ سب مقامی لوگ تھے۔‘
’سات لاشیں ایسی تھیں جو ناقابل شناخت تھیں۔ کسی کا سر نہیں تھا تو کسی کا چہرہ اڑ گیا تھا۔‘
خیبر پختونخوا کی پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ بظاہر ایک خودکش حملہ تھا۔
صوبے کے پولیس چیف اختر حیات خان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ دھماکے میں 10 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا ہے جبکہ جائے وقوعہ سے بال بیئرنگ بھی بر آمد ہوئے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس دھماکے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس واقعے پر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، قائدین اور کارکنوں اور متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور خیبرپختونخوا کی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
عینی شاہدین اور ریسکیو حکام نے کیا دیکھا؟
یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب تحصیل خار میں جے یو آئی ایف کا ورکرز کنونشن جاری تھا۔
عینی شاہد مسرور خان، جو کہ پنڈال کے باہر روڈ پر موجود تھے، کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب ایک مقامی رہنما مولوی عبدالشکور جماعت کے ایک دوسرے رہنما مولانا ضیا اللہ جان کو تقریر کے لیے سٹیج پر بلا رہے تھے۔ اسی دوران ’یک دم خوفناک دھماکہ ہوا۔‘
مسرور خان کے مطابق ’مجھے تو ایسے محسوس ہوا کہ دھماکہ بالکل سٹیج کے قریب ہوا ہے جس کے بعد دھوئیں کے بادل چھا گئے۔ پورے پنڈال میں چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔‘
ایک اور عینی شاید کے مطابق دھماکے کی آوازیں دور دور تک سنی گئی جس سے قریب موجود عمارتیں تک لرز اٹھیں۔
شاہد عبدالحنان بھی اس دھماکے میں زخمی ہوئے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم جب پہنچے تو کنونشن جاری تھا اور سٹیج کے پاس بہت رش تھا اسی لیے ہم آگے نہیں جا سکے۔‘
’اسی وقت دھماکہ ہو گیا۔ میں بھی زخمی ہو گیا تھا۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن پھر لوگ وہاں پہنچے اور زخمیوں کو اور لاشوں کو ہسپتال پہنچانے کا کام شروع کر دیا گیا۔‘
’مولانا ضیاء اللہ جان حقانی روکنے کے باوجود نہیں رکے‘
جمعیت علمائے اسلام کے اس ورکر کنونشن کے مہمان خصوصی رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو نماز کی وجہ سے کنونشن میں پہچنے میں تاخیر ہوئی۔
مولانا جمال الدین بتاتے ہیں کہ تحصیل خار میں جے یو آئی ایف کے نوجوان امیر مولانا ضیاء اللہ جان حقانی کافی عرصے سے اس ورکر کنونشن کے لیے کام کر رہے تھے۔
’دھماکے سے 15 منٹ پہلے وہ میرے ساتھ تھے۔ میں لمبے سفر کے بعد پہنچا تھا تو سوچا کھانا کھا کر اور نماز پڑھ کر جلسہ گاہ میں جاتا ہوں۔ میں نے مولانا ضیاء اللہ جان حقانی سے کہا کہ ساتھ کھانا کھا کر چلتے ہیں مگر وہ نہیں مانے اور کہا کہ میں جا کر انتظامات دیکھتا ہوں، جلسہ گاہ میں آپ کا استقبال کروں گا۔‘
’ابھی میں کھانا کھا کر اور نماز پڑھ کر لوگوں سے بات چیت کر ہی رہا تھا کہ اطلاع ملی دھماکا ہو گیا ہے۔‘
’میرے سامنے میرے شاگرد کی لاش پڑی تھی۔۔۔‘
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن کے دوران دھماکے کے بعد الخدمت فاونڈیشن کے رضا کار سمیع اللہ امدادی سرگرمیوں کے سلسلے میں قریبی ہسپتال پہنچے تھے۔
انھوں نے نصر اللہ کی لاش دیکھ کر انھیں پہچان لیا کہ یہ تو ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ سمیع اللہ باجوڑ میں ہی ایڈن ماڈل پبلک سکول میں بطور ایک استاد بھی کام کرتے ہیں۔
سمیع اللہ کا کہنا تھا کہ دھماکے کے 10 منٹ بعد وہ ہسپتال پہنچے تھے جہاں پر دو شدید زخمیوں نے ان کے ہاتھوں میں ہی دم توڑ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دونوں ہمارے علاقے کے رہنے والے تھے اور دونوں کو میں جانتا تھا۔ ایک جمشید تھا۔ یہ شدید زخمی تھا۔ میں دوڑا کہ اس کو ابتدائی طبی امداد فراہم کروں مگر افسوس کہ وہ دم توڑ چکا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نصر اللہ بھی شدید زخمی حالت میں تھے۔
’اس کی حالت بہت غیر تھی۔۔۔ مگر جمشید کی طرح نصراللہ بھی زخموں کی تاب نہ لا سکے۔ ان کی لاش کو دیکھنا ایک بہت مشکل مرحلہ تھا۔ مگر مجھے دونوں کے لواحقین کا انتظار کرنا تھا۔‘
سمیع اللہ بتاتے ہیں کہ نصر اللہ کے لواحقین کو لگا تھا کہ وہ محض زخمی ہیں۔
’وہ ابھی تک سمجھ رہے تھے کہ نصراللہ زخمی ہوگا مگر نصراللہ ہلاک ہو چکا تھا۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ نصراللہ تو آپ کا شاگرد ہے۔ میں نے کہا کہ جی ہاں میرا شاگرد تھا، اب آپ اس کو گھر لے جائیں۔‘
’یہ کہہ کر میں ان کی نظروں کے سامنے سے ہٹ گیا کہ مجھ میں مزید نصراللہ کی لاش کے پاس کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں تھا۔ نہ ہی میں اس کے لواحقین کی نظروں کا سامنا کر سکتا تھا کہ ایک استاد اپنے شاگرد کو نہ بچا سکا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نصراللہ نے نویں کلاس کے بورڈ کا امتحان دیا ہوا تھا اور اب دسویں کلاس میں پڑھ رہا تھا۔
دھماکے کی شدت
امجد نیاز باجوڑ ریسیکو میں آپریشنل ایمرجنسی افسر ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ جائے وقوعہ کے قریب واقع ریسیکو 1122 کے دفتر سے اہلکار دو منٹ کے اندر دھماکے کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔
’جب میں موقع پر پہنچا تو ہمارے اہلکار ریسکیو میں مصروف تھے۔ سارے پنڈال میں زخمی بکھرے پڑے تھے۔ جگہ جگہ لاشیں تھیں۔ کئی لاشوں کے جسم کے حصے الگ ہو چکے تھے۔‘
’اس صورتحال میں ریسیکو اہلکاروں کا پہلا فرض زخمیوں کی جان بچانا ہوتا ہے اور ہمارے اہلکار زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ایمبولینسوں میں منتقل کر رہے تھے۔ ہم نے سارا آپریشن چار گھنٹے میں مکمل کیا تھا۔‘
ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’دھماکے کے بعد رش بڑھ گیا تھا۔ زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والے گاڑیوں کے لیے راستہ کھلا رکھنا ضروری تھا۔ ایمیبولینسز کے علاوہ بڑی اور چھوٹی گاڑیاں موقع پر پہنچ گئیں تھیں تاکہ زحمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال پہنچایا جا سکے۔‘
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر لیاقت علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ہسپتال میں جتنی گنجائش تھی اس کے مطابق کام کیا گیا اور 17 زخمی افراد کو ہیلی کاپٹر پر پشاور روانہ کیا گیا جبکہ کچھ زخمیوں کو ضلع تمرگرہ کے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
باجوڑ میں شدت پسندی میں اضافہ
باجوڑ میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور خصوصا جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دو سال میں ٹارگٹ کلگ کے کئی میں مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا جن میں زیادہ تعداد جمعیت کے رہنماؤں کی تھی۔
رواں سال اپریل کی 10 تاریخ کو باجوڑ کی تحصیل ماموند میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مولانا گل نصیب ہلاک اور ان کے ساتھی مفتی شفیع اللہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔
اس سے پہلے نومبر 2022 میں ڈمہ ڈولہ کے مقام پر نامعلوم افراد نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما قاری الیاس کو قتل کر دیا تھا۔
اسی طرح اپریل 2022 میں بھی دو واقعات ہوئے جن میں سے ایک واقعے میں مفتی بشیر کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ دوسرے واقعے میں مفتی شفیع اللہ کو نشانہ بنایا گیا تھا جو جمعیت کے اہم رکن تھے اور مقامی سکول میں عربی زبان کے استاد تھے۔
انھیں سڑک کنارے ایک دیسی ساختہ بم دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔