ایمازون پر کامیاب پاکستانی سیلر دو پاکستانی بھائیوں

ایمازون پر کامیاب پاکستانی سیلر دو پاکستانی بھائیوں

ایمازون پر کامیاب پاکستانی سیلر دو پاکستانی بھائیوں کی کمپنی یوٹوپیا ڈیلز کی کہانی جو ایمازون کی ٹاپ سیلرز لسٹ میں شامل ہوئی

جب میں پاکستان سے امریکہ آیا تو سافٹ ویئر انجینیئر ہونے کے باوجود مجھے ایئرپورٹ پر سکیورٹی گارڈ کی ملازمت کرنا پڑی تھی۔ میرا بھائی ڈنمارک میں تعلیم کے دوران گھروں اور دفاتر میں اخبارات فراہم کرتا تھا اور وہ وہاں کی سخت ترین سردی میں بیمار ہو کر کئی دنوں تک ہسپتال داخل رہا۔‘

یہ الفاظ تھے جبران نیاز کے جن کی کمپنی یوٹوپیا ڈیلز کو ایمازون کے پلیٹ فارم پر سامان فروخت کرنے والی کمپنیوں کی ریٹنگ میں دس بہترین کمپنیوں میں شمار کیا گیا ہے۔

یوٹوپیا ڈیلز کو مختلف اداروں کے علاوہ ‘سیلر ریٹنگز ڈاٹ کام‘ میں ساتواں رینک دیا گیا ہے جبکہ پچھلے مہینے ان کی رینکنگ پانچویں تھی۔

اس کے علاوہ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے ٹوئٹر پر جبران نیاز کی کمپنی کو سراہتے ہوئے بتایا تھا کہ انھوں نے 60 لاکھ سے زیادہ صارفین کو خدمات پیش کی ہیں۔

یوٹوپیا ڈیلز کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جبران نیاز کے مطابق ایسا نہیں تھا کہ شروعات کے فوراً بعد ہی یوٹوپیا ڈیلز نے مختصر عرصے میں یہ مقام حاصل کیا ہو بلکہ ان کی کمپنی نے اس درجے تک پہنچنے میں پہلے بہت چھوٹے پیمانے سے کام شروع کیا اور انتھک محنت سے یہ مقام حاصل کیا ہے۔

پوری دنیا میں جہاں جہاں ایمازون اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے وہاں پر یوٹوپیا ڈیلز گھریلو استعمال کی مختلف اشیا فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں۔

جبران نیاز کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران ان کی فروخت 36 کروڑ ڈالر رہی تھی جو کہ گھریلو استعمال کی اشیا کی فروخت کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔

یوٹوپیا ڈیلز ہے کیا؟

یوٹوپیا ڈیلز امریکہ میں قائم کمپنی ہے جو ایمازون کا پلیٹ فارم استعمال کر کے امریکہ اور دنیا بھر میں گھریلو استعمال کی اشیا آن لائن فروخت کرتے ہیں۔

یہ اشیا زیادہ تر گارمنٹس اور کچن میں استعمال ہونے والے سازو سامان کے دائرہ کار میں آتی ہیں، جیسے تولیے، بستروں کی چادریں، تکیے، تکیوں کے غلاف، ہینگرز، اور کچن کا دیگر سامان۔

جبران نیاز کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستان سے اپنی پیداوار حاصل کرنے کے لیے جدید خطوط پر کام کیا ہے اور جدید ڈیزائن متعارف کروائے ہیں۔

جبران نیاز کے مطابق ان کی کمپنی نے کاروبار کا آغاز پاکستان سے تولیے منگوا کر کیا تھا اور بعد میں چین کی فیکٹریوں سے اپنی اشیا بنوانا شروع کر دی تھیں۔

‘یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا مگر گذشتہ دو، تین سالوں سے ہم نے کراچی میں اپنی فیکٹریاں قائم کر دی ہیں۔ اب تک ہم مختلف مصنوعات کے لیے کراچی میں سات فیکٹریاں لگا چکے ہیں اور اب ہمارا 80 فیصد سامان پاکستان سے آ رہا ہے۔’

کئی سو انٹرویو کے بعد پہلی ملازمت

ایمازون

جبران نیاز نے اپنی ڈگری پاکستان کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی تھی البتہ ان کے بھائی عدنان نیاز نے ڈنمارک سے تعلیم حاصل کی تھی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ان دونوں بھائیوں کے والد کی تولیے تیار کرنے کی فیکڑی تھی۔

جبران اپنے گھر کے معاشی حالات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘ہمارے حالات ٹھیک تھے اور کوئی ایسے معاشی مسائل نہیں تھے۔ مگر اس صدی کے آغاز میں کچھ ایسا ہونا شروع ہوا کہ والد صاحب کو کاروبار میں نقصان ہوا اور قرضہ چڑھ گیا۔

’اس دوران میں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی تھی جس کے بعد میں اچھے مستقبل کی تلاش میں امریکہ چلا آیا۔ یہاں پر ہمیں محنت کا پھل تو ملا مگر کچھ بھی پلیٹ پر رکھا ہوا نہیں تھا۔’

جبران نیاز کا کہنا تھا کہ جب وہ امریکہ پہنچے تو نوکری کی اجازت ملنے کے بعد انھوں نے بحیثیت سافٹ ویئر انجینیئر کام کی تلاش شروع کی۔ مگر کامیاب نہ ہوئے۔

‘میرا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس لیے کوئی بھی ہمیں کام نہیں دے رہا تھا۔ جن کے پاس بھی جاتے وہ تجربے کا پوچھتے۔ بے روزگاری میں نظام زندگی تو چل نہیں سکتا تھا اس لیے ایک ایئرپورٹ پر سکیورٹی گارڈ کی بھی ملازمت کی۔ کنسٹلنسی کی ملازمت بھی مل گئی تھی۔’

جبران کو کئی سو انٹرویو دینے کے بعد پہلی ملازمت ملی۔

‘شاید میں انٹرویو دے دے کر مہارت حاصل کر چکا تھا۔ اور پھر پہلی ملازمت ملتے ہی ہمارے اچھے دن شروع ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کئی بڑی کمپنیوں میں ملازمت کی جس میں بینک آف امریکہ بھی شامل ہے۔’

انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی عدنان کو بھی اسی طرح دشواریاں پیش آئیں جب وہ ڈنمارک میں زیر تعلیم تھے۔

‘ڈنمارک کی سخت سردی میں وہ صبح سویرے اٹھ کر گھروں اور دفاتر میں اخباریں پہنچایا کرتے تھے۔ ایک بار ایسے کرتے کرتے وہ شدید بیمار ہو کر کئی دونوں تک ہپستال بھی داخل رہے تھے۔’

جبران نیاز نے بتایا کہ ان کے بھائی جب امریکہ منتقل ہو گئے اور دونوں بھائیوں کو نوکری مل گئی تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ امریکہ میں سافٹ وئیر انجینیئرز کی مانگ بہت تھی اور کام کا اچھا معاوضہ ملتا تھا۔

کاروبار شروع کرتے ہی فراڈ کا شکار

عدنان نیاز

جبران نیاز نے بتایا کے نوکری شروع کرنے کے بعد پیسوں کی ریل پیل میں اضافہ ہوتا گیا تو ان کی مدد سے انھوں نے خاندانی کاروبار کے تمام قرضے بھی اتار دیے۔

‘اسی دوران والدہ نے ہم سے کہا کہ والد صاحب فارغ ہوتے ہیں اس لیے ان کی مصروفیت کے لیے کوئی کام ہونا چاہیے۔’

جبران نیاز بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد کے ماضی کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے پانچ ہزار ڈالر کے تولیے خریدے اور ان کو فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن مارکیٹنگ میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے تو بالآخر ایک ہول سیل ڈیلر سے رابطہ کیا۔

‘اس ڈیلر نے ہمیں کہا کہ مال چھوڑ جائیں اور کچھ عرصے بعد پیسے لے لیں۔ بڑا اعتماد بھی دلایا۔ مرتے کیا نہ کرتے، ہم نے مال ان کے پاس چھوڑ دیا۔ انھوں نے پیسے دینے کی کئی تاریخیں دیں اور پھر آخر کار غائب ہو گئے۔’

دونوں بھائیوں کے لیے آغاز ہی میں دھچکہ بہت مایوس کن تھا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔

‘اس دفعہ ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی پر اعتماد نہیں کرنا۔ پہلے آرڈر بک کروانا ہے اورادھار کسی بھی صورت میں نہیں دینا۔’

وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سے ایک گاہک نے ان کو 25 ہزار ڈالر کا آرڈر دیا جس پر وہ خوش تو بہت ہوئے لیکن ساتھ میں احتیاط کا دامن بھی نہیں چھوڑا۔

‘ہم نے صاف صاف کہہ دیا کہ ادھار نہیں دیں گے۔ اس کے بعد ہم نے کارگو بکنگ کروائی کہ وہ ہمارے پیسے ادا کر کے مال براہ راست کارگو سے وصول کر لیں۔’

لیکن شومئی قسمت کے دوسری بار بھی ان بھائیوں کے ساتھ دھوکہ ہوا جب سامان امریکی بندرگاہ پر پہنچا تو گاہک نے سامان وصول ہی نہیں کیا۔

‘ہمیں بتایا گیا کہ اگر مال بندرگاہ سے کلیئر نہیں کروایا گیا تو اس پر اضافی کرایہ لگنا شروع ہو جائے گا اور حالات ایسے لگ رہے تھے کہ اگر چند دن میں ایسا نہ کیا گیا تو قیمت سے زیادہ کرایہ بن جائے گا۔ ہم نے دوبارہ گزارش کی کہ مال بغیر ادائیگی کے دے دیں، ادائیگی بعد میں کر دی جائے گی۔’

جبران نیاز بتاتے ہیں کہ دوسری بار بھی ان کے ساتھ دھوکہ ہوا اور گاہک نے مال وصول کیا اور غائب ہو گئے۔

دوسری بار فراڈ ہونے کے بعد ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی مہارت کو استعمال کیا جائے اور انٹرنیٹ کی مدد سے کاروبار شروع کیا جائے۔

‘دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں ہمارا سامان مہینے بھر میں بک جاتا ہے’

اپنی کمپنی کی کامیابی کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے جبران بتاتے ہیں کہ ای کامرس کی وجہ سے ان کو پیسے وصول کرنے میں کوئی دشواری نہیں تھی اور جو آرڈر ملتے وہ ان کے والد پیک کر کے کوریئر سروس کو دیتے تھے۔

کاروبارے میں وسعت آنے کے بعد ان دونوں بھائیوں نے 2011 میں ایمازون پر منتقل ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔

تولیہ

‘ایمازون پر سخت مقابلہ ہے۔ یہاں پر پوری دنیا کی بہترین کمپنیاں موجود ہیں۔ ایسے میں عدنان کی مہارت کام آئی جنھوں نے ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جو ہمیں مارکیٹ میں رجحانات کا بتاتا ہے۔ مثلاً کون سے آئٹم میں کس رنگ، سائز اور ڈیزائن کا رجحان اور قیمت کیا چل رہی ہے۔

’یہی وجہ ہے کہ ہمارے مد مقابل کمپنیوں کا ایمازون پر کوئی بھی آئٹم سو سے زائد دونوں میں فروخت ہو رہا ہے جبکہ ہمارے آئٹم زیادہ سے زیادہ تیس سے چالیس دن میں فروخت ہو جاتے ہیں۔’

جبران نیاز بتاتے ہیں کہ ترقی کا سلسلہ جب شروع ہوا تو دونوں بھائیوں نے 2014 میں اپنی اپنی ملازمت چھوڑ دی اور کل وقتی طور پر یوٹوپیا ڈیلز پر توجہ مرکوز کر لی۔

وہ بتاتے ہیں کہ دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں اپنا کام بہتر رکھنے کے لیے انھوں نے پاکستان میں اپنی فیکڑیاں قائم کرنے کا سوچا اور آج کراچی میں ان فیکڑیوں کا کام اسی فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ ان کی فیکٹری کی مدد سے پاکستان میں پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملے گا اور مستقبل میں یہ تعداد دگنی ہو جائے گی۔

ایمازون پر کاروبار کیسے کیا جا سکتا ہے؟

منسٹری آف کامرس کے تحت قائم نیشنل ای کامرس کونسل کے ممبر بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ایمازون نے پاکستان میں اپنی سروس کا آغاز کر دیا ہے جس میں سامان فروخت کرنے والوں کے لیے مواقع کھل گئے ہیں۔

بدر خوشنود کے مطابق ایمازون کسی بھی خطے اور ملک میں کاروبار کے لیے اپنے ویئر ہاوس یا گودام قائم کرتا ہے۔ مگر ابھی اس کا ایسا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا کہ وہ پاکستان میں بھی ایسا کرنے جا رہا ہے۔

بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ایمازون سے اس وقت ان پاکستانیوں کو بے انتہا فائدہ پہنچا ہے جو ایمازون کی خدمات پاکستان میں پہنچنے سے پہلے کسی نہ کسی طرح دوسرے ممالک سے اکاوئنٹ بنا کر کاروبار کررہے تھے جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی ایمازون کی خدمات سے مستفید ہونا شروع گئی ہے۔

جبران نثار کے مطابق ایمازون کی پاکستان میں خدمات سے لوگوں کے سامنے ایک بڑی مارکیٹ آ گئی ہے جس کا پاکستان سے کاروباری لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے مگر یہ اتنا آسان اور سادہ نہیں ہے۔

‘پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ گارمنٹس وغیرہ کی تیاری میں ابھی تک صرف پرانے رجحانات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ کی کل ضرورت کا صرف دو سے تین فیصد حصہ ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اور اس دو سے تین فیصد برآمدات میں بھی پاکستانی کمپنیاں ہی ایک دوسرے سے مقابلہ کررہی ہوتی ہیں۔ کچھ نیا اورجدید متعارف کروانے کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔’

تولیہ

اس حوالے سے بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ایمازون پر کاروبار کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ ایمازون کس طرح اور کیسے چلتا ہے۔

جبران نثار کا کہنا تھا کہ وہ نئے لوگوں کو مشورہ دیں گے کہ پہلے اپنی تیاری کریں اور اس کے بعد اس جانب آئیں۔

‘پاکستان میں تاثر قائم ہو چکا ہے کہ انٹرنیٹ پر سامان ڈال دیں گے اور وہ فوراً فروخت ہو جائے گا اور مہینوں میں دولت آ جائے گئی، مگر ایسا نہیں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایمازون پر بھی کاروبار میں نقصان ہو سکتا ہے اس لیے کاروبار کرنے سے پہلے کسی نہ کسی طریقے سے تجربہ حاصل کرنا ضروری ہے۔

بدر خوشنود کے مطابق ایمازون خود بھی اپنے پلیٹ فارم پر کاروبار کرنے کے طریقہ کار کو سکھاتا ہے اور اس کے لیے کورسز فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے نہ صرف ایمازون پر کاروبار کرنے کے گُر سیکھے جا سکتے ہیں بلکہ پڑھے لکھے نوجوان ایمازون پر کاروبار کرنے والوں کو مختلف سروسز فراہم کرنے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔‘

پاکستان میں اس وقت ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (ٹی ڈی اے پی) اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایس ایم ای ڈی اے) اس حوالے سے ایمازون پر کاروبار کرنے کے کورسز کروا رہے ہیں۔

بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ایمازون کے لیے فروخت کرنے والوں کے بجائے گاہکوں کو ہر لحاظ سے فوقیت دیتا ہے۔

’مثال کے طور پر ایک فروخت ہونے والے آئٹم پر خریدنے والے کاہگ نے اپنے ریویو میں غلط یا کم معیار کا آئیٹم فروخت کرنے کا کہہ دیا تو ایمازون فروخت کرنے والے کو بلاک کردے گا۔ اس کی ریٹنگ کم کر دے گا۔ یعنی کاروبار ہی ختم۔‘

چین

جبران نیاز کا کہنا تھا اوسط کاروباری صلاحیت اور بیٹھ کر کاہگ کا انتظار کرنے والوں کے لیے ایمازون پر کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایمازون یا ای کامرس کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کے لیے سمجھ دار اور بہترین کاروباری سوجھ بوجھ والے لوگوں کی ضرورت ہے اور یہ ان کے لیے شاندار پلیٹ فارم ہے۔

’یوٹوپیا ڈیلز اور باقی کمپنیوں میں فرق جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، محنت، ایمانداری اور مستقل مزاجی ہے۔ ہمارے سافٹ ویئر کا مقابلہ کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔ اگر دو دفعہ فراڈ کا نشانہ بننے کے بعد ہمت ہار دیتے تو ہم کبھی بھی اس مقام پر نہ پہنچ سکتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *