اگر آئین کے مطابق جایا جائے تو اسحاق ڈار کے نگراں وزیر اعظم بننے کے امکانات صفر ہیں
گذشتہ دن پاکستان کے مختلف ذرائع ابلاغ میں یہ بات سامنے آ رہی تھی کہ حکمراں اتحاد کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام بطور نگراں وزیر اعظم تجویز کر دیا ہے۔
اس کے بعد خود اسحاق ڈار کی طرف سے ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں اس کی تصدیق یا تردید نہ کرنے کی بنا پر اسلام آباد میں ان افواہوں میں شدت آگئی ہے کہ شاید پی ڈی ایم اور حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں اسحاق ڈار کو بطور نگراں وزیر اعظم تسلیم کرنے کو تیار ہوگئی ہیں۔
جب پاکستان مسلم لیگ نواز کے اہم رہنما، جن میں پرویز رشید اور محسن شاہنواز رانجھا شامل ہیں، سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ابھی تک جماعت میں نگراں وزیر اعظم یا نگراں سیٹ اپ کے بارے میں بات نہیں ہوئی اور اگر کہیں ہوئی بھی ہے تو وہ اس مشاورتی عمل کا حصہ نہیں تھے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسحاق ڈار نگراں وزیر اعظم ہوسکتے ہیں۔
احسن اقبال اور خود اسحاق ڈار سے اس ضمن میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
اسحاق ڈار کے متعلق خبر ’فیک نیوز‘ ہے
اسحاق ڈار کو بطور نگراں وزیر اعظم مقرر کرنے سے متعلق پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمداللہ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کو ’فیک نیوز‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے اسحاق ڈار کا نام بطور نگراں وزیر اعظم پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کی جماعت میں اس نام پر کوئی مشاورت ہوئی ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد بارہ جماعتوں پر مشتمل ہے اور پاکستان مسلم لیگ نواز بھی اسی اتحاد کا حصہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ بطور سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کو نگراں وزیر اعظم کا نام تجویز کرنے کا حق ہے لیکن ابھی تک پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جمعت علمائے اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے چند روز قبل پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ان ملاقاتوں پر انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ تنہائی میں یا دیگر جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر اگر کوئی فیصلے ہوئے یا یکطرفہ فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک اور جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہوگا۔
حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ ملک کے موجودہ سیاسی اور اقتصادی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فیصلے باہمی مشاورت کے ساتھ کیے جائیں۔
واضح رہے کہ اسحاق ڈار اس پانچ رکنی کمیٹی کا بھی حصہ ہیں جو کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے عبوری سیٹ اپ کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے کرنے کے لیے قائم کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ترجمان فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی طرف سے بھی تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو کہ نگراں سیٹ اپ کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کی طرف سے تو ابھی تک ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی طرف سے اسحاق ڈار کا نام بطور نگراں وزیر اعظم تجویز کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اس ضمن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض سے بھی رابطہ کیا ہے۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت وقت پر انتخابات چاہتی ہے اور انتخابات کے لیے لیول پلئنگ فیلڈ بہت ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ نام پر اتفاق ضرور ہوگا لیکن ابھی تو نگراں سیٹ اپ سے متعلق باتیں صرف میڈیا پر ہی دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر تبصرے
جیسے ہی اسحاق ڈار کی بطور نگراں وزیر اعظم کی تجویز کے بارے میں خبروں نے گردش شروع کی، پاکستانیوں نے سوشل میڈیا کا رخ کر کے اس ممکنہ پیش رفت پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔
صحافی علینا شگری نے ٹوئٹ کیا کہ میثاق جمہوریت کے تاریخی معاہدے میں یہ کہا گیا تھا کہ نگراں حکومت غیر جانبدار ہو گی، اس حکومت میں شامل افراد خود اور ان کے قریبی رشتہ دار انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہوں گے۔ لہذا اسحاق ڈار نگراں وزیر اعظم بنے تو ان کے اہل خانہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
صحافی خاور گھمن نے اپنی ٹویٹ میں تبصرہ کیا کہ اگر قومی آئین کے مطابق جایا جائے تو اسحاق ڈار کے نگراں وزیر اعظم بننے کے امکانات صفر ہیں۔ لیکن ان کا نام چلا کر ایک دلچسپ بحث کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم پلڈیٹ کے صدر اور آئین کے ماہر احمد بلال محبوب نے ٹویٹ کیا کہ موجودہ وزیر خزانہ اور مسلم لیگ نواز کے اہم راہنما کو بطور نگراں وزیر اعظم تعینات کرنا نگراں نظام کی روح کے متضاد ہے۔ اگر ایک نگراں اتنا متعصب ہو سکتا ہے تو پھر نگراں حکومت لانے کی ضرورت ہی کیا ہے، منتخب حکومت کو ہی رہنے کیوں نہیں دیا جاتا؟
صحافی متیٰ اللہ جان نے احمد بلال محبوب کے جواب میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ نگراں افراد آئینی اور قانونی لحاظ سے غیر اہم ہیں لیکن سیاسی طور پر اہم ہیں۔ اگر موجودہ وزیر اعظم اور قائد حزب اخلاف اسحاق ڈار کے نام پر متفق ہیں تو آئیں ان کی تعیناتی سے نہیں روکتا۔ آئینی پابندی صرف ان کے قریبی رشتہ داروں پر ہو گی جو الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔