اومیکرون کورونا وائرس کی نئی قسم کو پاکستان میں داخل

اومیکرون کورونا وائرس کی نئی قسم کو پاکستان میں داخل

اومیکرون کورونا وائرس کی نئی قسم کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنا ’مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے’، کئی ممالک کی تازہ سفری پابندیاں

حکومت پاکستان نے کورونا کی نئی قسم کے خطرے کے پیش نظر حفاطتی اقدامات اٹھانے کے اعلان کے ساتھ ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اومیکرون نامی ویرینٹ کا باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی پھیلنا ناگزیر ہے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ حکومت نے اومیکرون کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ان اقدامات سے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ’مشکل نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔’

ادھر امریکہ، جاپان، انڈونیشیا، سعودی عرب سمیت دنیا کے متعدد ممالک نے کووڈ 19 کی نئی قسم اومیکرون کے باعث سفری پابندیوں میں سختیوں کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری جانب برطانیہ کی درخواست پر جی سیون ممالک پیر کے روز اسی حوالے سے ہنگامی ملاقات کریں گے۔

جنوبی افریقی سائنسدانوں کی جانب سے چند روز قبل دریافت کیے جانے والی اس نئی قسم کے متاثرین کی اب تک کم از کم 13 ممالک میں تشخیص ہو چکی ہے جن میں آسٹریلیا، بیلجئیم، بوٹسوانا، برطانیہ، ڈنمارک، جرمنی، ہانگ کانگ، اسرائیل، اٹلی، نیدرلینڈز، فرانس، جنوبی افریقہ اور کینیڈا شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی تنبیہ

پیر کو عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ اومیکرون کے پھیلاؤ کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ ایک بیان میں ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب تک نئی قسم سے اموات کی خبر نہیں لیکن اگر اس نئی قسم نے کورونا کی ایک نئی لہر کو جنم دیا تو اس کے نتائج شدید ہوں گے خصوصا دنیا کے چند علاقوں میں۔

عالمی ادارے کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ وائرس کی نئی قسم میں غیر معمولی حد تک جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کہا گیا ہے کہ ابھی تک اس کے اثرات غیر واضح ہیں اور آنے والے ہفتوں میں مزید ڈیٹا کی مدد لی جائے گی۔

ادارے کے سربراہ ٹیڈروس ایدھینوم نے ٹوئٹر پر کہا کہ دنیا بھر میں سائنسدان اس وائرس کی نئی قسم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فیصل سلطان: اومیکرون پرانے ویرینٹ سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے

پاکستان کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ اب تک اس نئے ویرینٹ کی یہ خصوصیت سامنے آئی ہے کہ یہ نہایت تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے یوں دی کہ ‘بارہ دن پہلے جنوبی افریقہ میں مثبت کیسز کی شرح صفر عشاریہ نو فیصد تھی۔ صرف بارہ دنوں میں یہ شرح بڑھ کر نو عشاریہ سات فیصد ہو چکی ہے یعنی دس گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔’

اسد عمر نے بتایا کہ اس خطرے کے پیش نظر پاکستان نے پہلے ہی ان ممالک پر پابندی لگا دی ہے جہاں کورونا کی نئی قسم کے مثبت کیسز سامنے آئے ہیں جب کہ ایسے نئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن سے بیرون ملک سے آنے والوں کے ذریعے اومیکرون پاکستان میں نہ آئے۔

لیکن انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ‘ان تمام اقدامات سے ہم تاخیر کر سکتے ہیں لیکن اس نئے ویریئنٹ نے پوری دنیا میں پھیلنا ہے کیونکہ پوری دنیا ملی ہوئی ہے اور سفر ہو رہا ہے۔’

معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ اس بیماری کا پھیلاؤ پرانے ویرینٹ سے زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے جس کی ایک وجہ اس کی جینیاتی ساخت میں تبدیلی ہے جو اس کو زیادہ مہلک بنا سکتی ہے۔

ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ اس وقت بہترین حل یہی ہے کہ ویکسین لگوانے میں دیر نہیں کی جائے۔ اسد عمر نے کہا کہ حکومت ہائی رسک علاقوں میں ٹیسٹنگ اور ویکیسنیشین کے عمل کو تیز کرنے جا رہی ہے جب کہ اس پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ آیا جن افراد کو پہلے ہی ویکیسن لگ چکی ہے کیا ان کو بوسٹر ڈوز دی جائے۔

اسد عمر نے تنبیہ کی کہ ‘ایک بار یہ وائرس پاکستان آگیا تو پھر زیادہ وقت نہیں ملے گا اس لیے جن افراد نے اب تک ویکیسن نہیں لگوائی وہ فورا ویکیسن لگوائیں کیونکہ تحقیق کے مطابق اس وائرس کے خلاف بھی ویکیسن موثر ہو گی۔’

’ہماری سب سے یہی اپیل ہے خصوصا جو تین کروڑ لوگ ایک ڈوز لگوا چکے ہیں فورا اگلی ڈوز لگوائیں۔ اگلے دو سے تین دن میں تمام صوبوں میں ویکسین کی بڑی کیمپین شروع ہونے جا رہی ہے۔’

اومیکرون

‘موجودہ ویکسین کووڈ کے شدید کیسز کے خلاف محدود تحفظ فراہم کرتی ہیں’

دوسری جانب امریکہ میں متعددی امراض کے ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے امریکی صدر جو بائیڈن کو مطلع کیا ہے کہ اومیکرون کی نئی قسم کے بارے میں مزید معلومات جیسے اس کے مرض کی شدت، منتقلی کی رفتار اور ویکسین کے خلاف دفاع کے بارے میں تفصیلات کا اندازہ اگلے دو ہفتوں میں ممکن ہوگا۔

ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا انھیں توقع ہے کہ موجودہ ویکسین کووڈ کے شدید نوعیت کے کیسز کے خلاف محدود حد تک تو تحفظ دے سکتی ہیں تاہم انھوں نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ ویکسین لگوائیں اور جنھیں لگی ہوئی ہے وہ بوسٹر شاٹ ضرور لگوائیں۔

اس سے قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وائرس کی یہ نئی قسم امریکہ پہنچے گی اور یہ واضح ہے کہ اس میں تیزی سے منتقلی کی صلاحیت ہے اور ‘یہی ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔’

‘ہمیں اس وائرس کے بارے میں مزید معلومات کی ضرورت ہے تاکہ یہ متعین کیا جا سکے کہ یہ شدید نوعیت کا وائرس ہے یا نہیں لیکن ہمیں امید ہے کہ دو ہفتوں میں پتا چل جائے گا۔’

واضح رہے کہ امریکہ کی 30 فیصد آبادی کو اب تک ویکسین کی ایک بھی خوراک نہیں ملی ہے۔

ادھر جنوبی افریقہ کے صدر نے اومیکرون کے پھیلاؤ کے سبب اپنے اور ہمسایہ ممالک پر سفری پابندیوں کی مذمت کی ہے۔ صدر سیرل راماپوسا نے کہا ہے کہ انھیں عالمی ردعمل پر ‘شدید افسوس ہے’ جو نااصافی پر مبنی ہے۔ انھوں نے سفری پابندیاں فوراً ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ایئر پورٹ

جنوبی افریقہ نے 24 نومبر کو عالمی ادارہ صحت کو بتایا تھا کہ ان کے ملک میں کورونا کی ایک نئی قسم کی تشخیص کی گئی ہے۔

گذشتہ دو ہفتوں کے دوران جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے گوٹنگ میں اومیکرون کے متعدد متاثرین سامنے آئے ہیں۔ اب یہ قسم دیگر صوبوں میں بھی پھیل چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ صرف سفری پابندی عائد کرنے کی بجائے حکومتوں کو سائنسی بنیادوں پر فیصلہ لینا چاہیے۔

مگر اتوار کو اپنے خطاب میں جنوبی افریقہ کے صدر نے کہا ہے کہ سفری پابندیوں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں۔ ‘جنوبی افریقی ممالک غیر منصفانہ امتیازی سلوک کا شکار بنے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ان پابندیوں سے اومیکرون کی روک تھام موثر ثابت نہیں ہوگی۔ ‘سفری پابندیوں سے متاثرہ ممالک کی معیشت کو مزید نقصان ہوگا اور اس سے عالمی وبا سے نمٹنے اور ردعمل کی صلاحیت کم ہوجائے گی۔’

راماپوسا کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی نئی قسم دنیا کے لیے ویکسین کی عدم مساوات کے حوالے سے ایک ‘ویک اپ کال’ یعنی لمحہ فکریہ ہے۔

انگلینڈ میں تین، سکاٹ لینڈ میں چھ نئے کیسز

برطانیہ میں ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے تین مصدقہ متاثرین سامنے آچکے ہیں جبکہ سکاٹ لینڈ میں بھی چھ کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے، جن میں سے کئی نے بینالاقوامی سفر نہیں کیا تھا۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب انگلینڈ کی حکومت نے بازاروں، پبلک ٹرانسپورٹ اور تعلیمی اداروں میں ماسک پہننا لازم بنا دیا ہے۔

انگلینڈ نے اعلان کیا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والوں اور دکانوں میں ماسک پہننا لازمی ہو گا جبکہ منگل کے روز سے برطانیہ آنے والوں کو پی سی آر ٹیسٹ کرانا ہو گا۔

وزیر صحت ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس لیے کیے جار ہے ہیں تاکہ ‘لوگ اپنی خاندانوں کے ساتھ کرسمس منا سکیں۔’

کووڈ

اسرائیل اور نیدرلینڈز میں پابندیاں

اس کے علاوہ اسرائیل نے ملک میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے متاثرہ ہونے والے پہلے مریض کی تشخیص کے بعد اگلے 14 دن کے لیے ملک میں غیر ملکیوں کی آمد پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔

مقامی میڈیا میں خبروں کے مطابق اس پابندی کا اطلاق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب سے ہوا ہے اور وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔

کابینہ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی ایجنسی شن بیت کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی نگرانی کرے گی جس کے بارے میں وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا کہ اس عمل کے لیے فون ٹریکنگ کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔

مزید برآں یہ کہ اسرائیل نے 50 افریقی ممالک کو ‘ریڈ لسٹ’ پر شامل کر دیا ہے۔

ان ممالک سے سفر کر کے اسرائیل آنے والے اسرائیلی شہریوں کو حکومت کی طرف سے متعین کردہ ہوٹلوں میں لازمی قرنطینہ کرنا ہوگا اور ٹیسٹس کروانے ہوں گے۔

اس کے علاوہ نیدرلینڈز میں بھی کووڈ کے متاثرین میں اضافے اور اومیکرون کے باعث ملک میں پابندیوں میں اضافے کے اعلان کیے گئے ہیں۔

نئے اقدامات کے مطابق اگلے تین ہفتے تک ملک بھر میں ریستوران، کیفے، میوزیم، سنیما گھر وغیرہ مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے بند ہو جائیں گے۔

اس کے علاوہ 61 افراد جو حال ہی میں جنوبی افریقہ سے سفر کر کے نیدرلینڈز پہنچے تھے ان کے بھی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں تاکہ جانچا جا سکے کہ کہیں وہ اومیکرون سے متاثر تو نہیں ہوئے۔

کووڈ

جاپان، امریکہ اور سنگاپور

جاپان کے وزیر اعظم فمیوں کیشیدا نے اومیکرون قسم کے ابھرنے کے بعد ملک کی سرحدوں پر سخت اقدامات دوبارہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے تحت غیر ملکی مسافروں کی ملک میں آمد پر پابندی نافذ ہو گئی ہے۔

یاد رہے کہ صرف نومبر کے اوائل ہی میں جاپان نے ان پابندیوں میں نرمی لائی تھی۔ جاپان نے پہلے اعلان کیا تھا کہ افریقہ کے جنوبی میں واقع نو ممالک کے سے آنے والے مسافروں کو حکومت کی جانب سے متعین کردہ مقامات پر دس دن قرنطینہ کرنا ہوگا۔

لیکن وزیر اعظم فمیو کیشیدا نے کہا کہ اس فہرست میں 14 مزید ممالک کا اضافہ کیا گیا ہے تاہم انھوں نے تفصیلات نہیں دیں۔

امریکہ نے پیر 29 نومبر سے افریقہ کے جنوبی میں واقع آٹھ ممالک کے تقریباً تمام شہریوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے جو گذشتہ 14 دنوں میں اُن ممالک میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ امریکی شہریوں کو بھی ان ممالک میں سفر کرنے کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔

جبکہ سنگاپور کے وزیر اعظم لی سیئن لُنگ نے اتوار کو کہا کہ ان کا ملک اومیکرون کا ‘بغور’ جائزہ لے رہا ہے اور ممکن ہے کہ انھیں کچھ سخت اقدامات لینے پڑیں۔

سنگاپور نے پہلے ہی مشرق وسطی کے چند ممالک سے ویکسین لگے مسافروں کو سفر کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے کو ملتوی کردیا ہے اور وجہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ‘متاثرہ ممالک کے قریب ہیں۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *