نیرو مودی انڈیا کو مطلوب ترین ہیروں کے ارب پتی مفرور تاجر جنھیں ایک صحافی نے ڈھونڈ نکالا
برطانیہ کی ایک عدالت نے انڈیا کو مطلوب ہیروں کے ارب پتی تاجر نیرو مودی کو انڈیا کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
جمعرات کو عدالت نے اس معاملے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نیرو مودی کے وکلا کی جانب سے انڈیا میں انصاف نہ ملنے، ان کی ذہنی صحت اور انڈین جیل کے حلات سے متعلق دلائل کو رد کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔
نیرو مودی کے خلاف انڈین بینکوں سے دھوکہ دہی اور کروڑوں ڈالر کے فراڈ کے الزمات ہیں۔
نیرو مودی کو عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے برطانیہ میں ان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کر دی ہے۔
کورونا لاک ڈاؤن کے سبب نیرو مودی ویڈیو لِنک کے ذریعے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ نیرو مودی نے کالے رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی اور ان کی داڑھی بھی بڑھی ہوئی تھی۔ وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جج کا فیصلہ سن رہے تھے۔
جسٹس سیموئیل گوزی نے کہا کہ نیرو مودی پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کا جواب انھیں انڈیا میں دینا چاہیے۔
جج نے کہا ‘اس معاملے کا تعلق پیسوں کی دھوکہ دہی سے ہے’۔
عدالت نے دلائل پر غور کیا اور کہا کہ اس معاملے میں گواہوں کو بہکایا گیا ہے اور شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔
جج نے کہا ‘ایسا نہیں لگتا کہ نیرود مودی خودکشی کریں گے۔ عدالت کو یقین ہے کہ اگر انھیں انڈیا کے حوالے کیا گیا تو بھی وہ اپنی بات سامنے رکھ سکیں گے۔ جج نے کہا کہ ایسا نہیں لگتا کہ انڈیا کے حوالے کیے جانے کے بعد انھیں انصاف نہیں ملے گا۔
جج نے کہا کہ عدالت انڈین جیل میں ان کی حفاظت کے بارے میں مطمئن ہے اور یہ کہ ممبئی کی آرتھر روڈ جیل ان کے لیے ٹھیک ہوگی۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس سماعت کے دوران عدالت کو انڈین جیل کی ویڈیو بھی دکھائی گئی تھی۔
جمعرات کو عدالت کا کہنا تھا کہ ‘ممبئی کی آرتھر روڈ جیل کا کمرہ نمبر 12 ان کے لیے موزوں ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کمرہ ہے جس میں انھیں ایک بستر، ایک باتھ روم ملے گا اور کمرہ بھی روشن ہوگا۔’
جج نے کہا کہ ‘اگست 2020 میں عدالت میں جو ویڈیو دیکھا گیا تھا اس سے لگتا ہے کہ وہاں صفائی ستھرائی کا ایک اچھا نظام موجود ہے’۔
جج نے نیرو مودی کی ذہنی صحت سے متعلق دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال میں کسی بھی شخص کی ذہنی حالت اس طرح کی ہوسکتی ہے۔
انڈیا کو مطلوب ہیروں کے ارب پتی تاجر جنھیں ایک صحافی نے ڈھونڈ نکالا
مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں بی بی سی کے دفتر میں اپنے کام کی میز پر بیٹھی تھی کہ مجھے ایک ٹوئٹر نوٹیفیکیشن موصول ہوا جو معروف برطانوی اخبار ’ٹیلیگراف‘ کی جانب سے پوسٹ کیا گیا تھا۔
اس نوٹیفیکیشن کی شہ سرخی میرے آنکھوں کے سامنے چمک رہی تھی جس میں لکھا تھا: ’ایکسکلوسیو: انڈیا کو انتہائی مطلوب (موسٹ وانٹڈ) شخص نیرو مودی، جن پر ڈیڑھ ارب پاؤنڈ کے فراڈ کا الزام ہے، لندن میں کُھلے عام زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘
یہ ہیڈ لائن پڑھ کر میرا پہلا ردِ عمل تھا: کیا! کیا یہ سچ ہے؟ میرا مطلب ہے کہ کیا انڈیا کو انتہائی مطلوب ملزم واقعتاً میرے شہر (لندن) میں رہتا ہے؟
میں نے فوری طور پر اس ٹویٹ پر کلک کیا، جس کے ساتھ ایک ویڈیو منسلک تھی۔
اس وائرل ویڈیو میں آپ نیرو مودی کا سامنا ایک بادامی رنگ کی جیکٹ پہنے صحافی کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ یہ انٹرویو ماورائے حقیقت اور مزاحیہ بھی تھا کیونکہ جب بھی ویڈیو میں نظر آنے والا صحافی نیرو سے کوئی سوال پوچھتا تو مودی اس کا ایک ہی جواب دیتے: ’نو کمنٹس۔‘
اس ویڈیو کا اختتام کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ صحافی سوال پر سوال پوچھتا رہتا ہے اور نیرو مودی بے صبری سے لندن کی مصروف ترین سڑکوں میں سے ایک آکسفورڈ سٹریٹ پر ایک ٹیکسی روک کر اس میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ منظر انتہائی مضحکہ خیز تھا۔
ٹیلیگراف کے صحافی مِک براؤن اور نیرو مودی کا یہ مختصر ’ٹاکرا‘ مارچ 2019 کے اوائل میں ہوا تھا اور یہ ایک ایسی کہانی تھی جس نے آج تک مجھے حیرت میں ڈال رکھا ہے کہ مک براؤن اور ان کی ٹیم نے انڈیا کے سب سے مطلوب شخص نیرو مودی کا کس طرح پتا لگایا؟
مک براؤن نے ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیا تھا جس میں انڈین حکومت اور انڈیا کے ادارے ناکام رہے تھے، یعنی نیرو مودی کا کھوج لگانا۔
میں نے صحافی مِک براؤن سے یہ جاننے کے لیے ملاقات کی کہ آخر انھوں نے دنیا کے مطلوب ترین ارب پتی اشتہاری کا کھوج کیسے لگایا؟ اس کی تفصیلات آگے چل کر مگر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہیروں کے یہ ارب پتی تاجر آخر ہیں کون؟
نیرو مودی: ہالی وڈ، بالی وڈ سٹارز کے پسندیدہ ارب پتی ہیرے کے سوداگر
انچاس سالہ نیرو دیپک مودی انڈیا کی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے اور بیلجیئم کے علاقے اینٹورپ میں پلے بڑھے۔ نیرو ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو گذشتہ کئی نسلوں سے ہیروں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
جب وہ 19 سال کے تھے تو اپنے والد دیپک مودی کے ساتھ ممبئی میں اپنے چچا کے کاروبار میں کام کرنے کے لیے انڈیا پہنچ گئے۔ ان کے چچا میہل چوکسی انڈیا میں جواہرات کی ریٹیل کمپنی ’گیتانجلی گروپ‘ کے سربراہ تھے۔ نیرو مودی نے اپنے چچا کے ساتھ تقریباً دس سال تک کام کیا اور اس دوران چچا نے ہیرے کے کاروبار کے تمام پہلوؤں میں نیرو کی تربیت کی۔
اس کے بعد نیرو نے انڈیا میں اپنے ہیرے تیار کرنے کا کاروبار شروع کیا جسے انھوں نے ’فائر سٹار ڈائمنڈ‘ کا نام دیا۔ سنہ 2010 میں نیرو نے ہیروں کے اپنے نامی برانڈ کے تحت تجارت شروع کی اور آہستہ آہستہ نیرو مودی کے برانڈ کو مقبولیت ملنا شروع ہو گئی اور وہ جلد ہی ہیرے اور لگژری جیولری برانڈ کے ایسے تاجر بن گئے۔
یہاں تک کہ انھوں نے نیو یارک، لندن اور ہانگ کانگ جیسی جگہوں پر عالمی سطح کے اپنے ہیروں کے سٹورز کھولے۔ سنہ 2017 میں فوربز نے انھیں انڈیا کا 84 واں امیرترین شخص قرار دیا، اس وقت ان کی ذاتی دولت کی مالیت دو ارب امریکی ڈالر تھی۔
لیکن پھر اچانک سب بدل گیا اور قسمت نے ایسا پلٹا کھایا کہ ہالی وڈ اور بالی وڈ سٹارز کے پسندیدہ ارب پتی ہیرے کے سوداگر اور جوہری انڈیا کے انتہائی مطلوب شخص بن گئے۔