انڈیا چین کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے

انڈیا چین کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے

انڈیا چین کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے سے کیوں ہچکچاتا ہے؟

انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اکثر اپنے تیکھے بیانات کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ جے شنکر کے اس رویے پر تنقید کرتے ہوئے کانگریس کے سینیئر رہنما ششی تھرور نے سوموار کو کہا تھا کہ اتنی جلدی بھڑکنا نہیں چاہیے اور انھیں خود کو ’ٹھنڈا‘ رکھنے کی ضرورت ہے۔

جے شنکر عموماً مغربی ممالک اور پاکستان کے خلاف ردِ عمل دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن چین کے معاملے میں ان کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔

چین نے پچھلے چھ سالوں میں انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش کے کئی مقامات کے نام بدل کر چینی زبان میں تبدیل کیے ہیں۔ اس ہفتے تیسری بار چین نے اروناچل پردیش میں مزید 11 مقامات کے نام تبدیل کیے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے چین کے اس فیصلے پر انتہائی سخت لیکن محتاط زبان میں جواب دیا۔

modi and xi

کیا انڈیا کو تبت پر اپنا موقف بدلنا چاہیے؟

انڈیا نے اپنے جواب میں کہا کہ ’ہمیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور یہ پہلی بار نہیں ہے کہ چین نے ایسی کوشش کی ہے۔‘

’ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ اروناچل انڈیا کا حصہ ہے، تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ اس قسم کی کوشش سے حقیقت نہیں بدلے گی۔‘

اکثر ماہرین انڈیا کے اس جواب کو بہت ’کمزور اور لبرل‘ قرار دے رہے ہیں۔

ٹوئٹر پر انڈیا کے معروف سٹریٹجک ماہر برہما چیلانی نے لکھا کہ ’چین نے ایک بار پھر انڈیا کو اکسایا ہے۔ ایک بار پھر اروناچل پردیش میں کئی جگہوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔‘

سوشل میڈیا کے دور میں عموماً بروقت جواب ضروری تصور کیا جاتا ہے کیونکہ بیانیہ ترتیب دینے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ چین کی انفارمیشن وار فیئر کے مقابلے میں انڈین حکومت اب بھی سست ہے۔

ایک اور ٹویٹ میں برہما چیلانی نے لکھا کہ ’اس کے باوجود چین تبت کو اپنا اٹوٹ انگ مانتا ہے۔ چیلانی نے لکھا کہ اس سے زیادہ خود کشی اور کیا ہو سکتی ہے؟‘

برہما چیلانی کے الفاظ کی تائید کرتے ہوئے انڈیا کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل نے لکھا کہ ’میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ انڈیا کا جواب بہت نرم ہے۔‘

’انڈیا کو مزید سخت زبان میں جواب دینا چاہیے تھا۔ چین تبت کے الحاق کی بنیاد پر اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے اور ایسی صورتحال میں ہم اپنا موقف بھی بدل سکتے ہیں۔‘

China and India

انڈیا کا متزلزل رویہ؟

کیا واقعی چین کی جارحیت کے خلاف انڈیا کا رویہ متزلزل ہے؟ ایک ریسرچ فاؤنڈیشن میں سٹڈیز اینڈ فارن پالیسی کے نائب صدر پروفیسر ہرش وی پنت اس پر یقین نہیں رکھتے۔

پروفیسر پنت کہتے ہیں کہ ’چین اروناچل کے سلسلے میں جو کچھ کر رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نام کی تبدیلی کے حوالے سے انڈیا نے جو جواب دیا ہے وہ کافی ہے۔ اروناچل میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مسئلہ لداخ میں ہے کیونکہ چین وہاں زمین پر بہت کچھ کر رہا ہے۔ انڈیا کو وہاں جواب دینا ہوگا۔ انڈیا وہاں بات سے جواب نہیں دے سکتا۔ انڈیا سرحد پر انفراسٹرکچر بھی بڑھا رہا ہے۔ چین بھی بات کم اور کام زیادہ کر رہا ہے۔ چین کا مقابلہ بولنے سے نہیں تیاری سے ہو گا۔‘

پروفیسر پنت کہتے ہیں کہ ’اگر چین کے لیے چار دہائیاں پہلے تیاری کی گئی ہوتی تو انڈیا اس کا مناسب جواب دیتا۔ آپ کا جواب آپ کی قابلیت پر منحصر ہوتا ہے۔ چین 30 سال پہلے جو جواب دیتا تھا آج ویسا نہیں ہے۔ اس کی قابلیت بڑھی تو اس کا جواب بھی جارحانہ ہو گیا۔‘

’انڈیا اپنی صلاحیت بڑھانے پر بھی توجہ دے رہا ہے۔ آنے والے وقت میں انڈیا کا جواب بھی بدل سکتا ہے۔ چیزوں کو پیچیدہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا کو تبت کو چین کا حصہ سمجھنا بند کر دینا چاہیے۔ ون چائنا پالیسی کو قبول کرنے سے انکار، امریکہ بھی یہ نہیں کر سکتا تو ہم یہ سب کر کے کیا حاصل کریں گے؟‘

پروفیسر پنت کہتے ہیں کہ ’اب دلائی لامہ بھی آزاد تبت کے بجائے خود مختار تبت کی بات کرتے ہیں۔ تائیوان میں بھی لوگ چین کے حوالے سے منقسم ہیں۔ ایسے میں ہم ون چائنہ پالیسی کو قبول نہ کر کے کیا حاصل کریں گے؟‘

’ہم نے ماضی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ چین کی جارحیت کے ثبوت مسلسل مل رہے تھے لیکن ہم نے اپنی پالیسی نہیں بدلی۔ اگر پہلے توجہ دی جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔‘

china

مودی سرکار کی نرمی کا مطلب؟

پچھلی دہائی میں چین انڈیا کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔

تین سال قبل مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ ہوئی تھی۔

اس میں دونوں ممالک کے کل 24 فوجی مارے گئے۔ کشیدگی بدستور برقرار ہے اور کوئی حل نکلتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے چین کا سامنا کرنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی سرحد پر تعینات کیے ہیں اور دفاعی تعمیراتی کام بھی جاری ہے۔

اس طرح کی کئی رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ 2020 میں سرحد پر جھڑپ کے بعد انڈیا نے اپنی زمین کھو دی ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم چین کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ مودی حکومت کی خاموشی چین کے خلاف حکمت عملی کا حصہ ہے یا مجبوری؟

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کے سینٹر فار انٹرنیشنل پولیٹکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیپی مون جیکب نے 2 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی میں ایک مضمون لکھا ہے۔

جیکب اس مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’انڈیا کی طرف سے چینی جارحیت کا جواب صرف فوجی سوال نہیں ہے۔ سیاسی اور کاروباری مفادات کی وجہ سے یہ بہت پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انڈیا کے لیے یہ سوچنا بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ اگر انڈیا چین کو جواب دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ کب اور کیسے جواب دے گا۔‘

سنہ 2022 میں چین کی جی ڈی پی 18 ٹریلین ڈالر کے قریب تھی اور انڈیا کی 3.5 ٹریلین ڈالر سے کم۔

گذشتہ سال چین کا دفاعی بجٹ 230 بلین ڈالر تھا جو انڈیا کے دفاعی بجٹ سے تین گنا زیادہ تھا۔ چین اور انڈیا کے درمیان یہ فرق چین کو انڈیا پر برتری دیتا ہے۔

China

ہیپی مون جیکب نے فارن پالیسی میں لکھا کہ ’یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ امریکہ یا دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ انڈیا کی سٹریٹجک شراکت داری اس حد تک ہے کہ چین کے ساتھ تصادم کی صورت میں وہ کھل کر انڈیا کے حق میں آئیں گے یا نہیں۔‘

انڈیا کو کوئی یقین دہانی نہیں ملی ہے کہ چین کی طرف سے کشیدگی کی صورت میں اس کے شراکت دار کھل کر سامنے آئیں گے۔

’انڈیا کا چین پر تجارتی انحصار ہے اور انڈیا کا دنیا کے کسی ملک کے ساتھ کوئی باہمی دفاعی معاہدہ نہیں ہے۔ فوجی بحران کے دوران انڈیا، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ پر مشتمل گروپ کواڈ کی فوجی مدد کا تصور کرنا قبل از وقت ہے۔ چین کے ساتھ محاذ آرائی کی صورت میں کسی بیرونی ملک سے فوجی مدد کی توقع کرنا اب بھی مشکل ہے۔‘

ہیپی مون جیکب نے لکھا کہ ’انڈیا کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے کہ اگر وہ چین کے ساتھ تنازع کی صورت میں پیچھے ہو جاتا ہے تو وہ کیا کرے گا۔ چین میں انڈیا سے زیادہ طاقت ہے اور وہ انڈیا کے لیے تنازعہ کھڑا کر رہا ہے۔‘

’انڈیا فتح کی یقین دہانی کے ساتھ جنگ میں نہیں جا سکتا اور شکست کے بغیر جنگ کا خوف کم نہیں ہو سکتا۔ انڈیا چھ دہائیاں پہلے چین کے ساتھ بڑی شکست دیکھ چکا ہے۔‘

جیکب کا کہنا ہے کہ چین اقتصادی طور پر بھی انڈیا کو بہت سی سنگین چوٹیں پہنچا سکتا ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے، تو چین کی سستی مصنوعات بھی اس میں حصہ ڈالتی ہیں۔ یہ مصنوعات کھاد سے لے کر ڈیٹا پروسیسنگ یونٹس تک ہیں۔‘

’سرحد پر اس کی جارحیت کے خلاف چین پر تجارتی پابندیاں عائد کرنا خود انڈیا پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ حال ہی میں اروند پنگڑیا نے بھی اس پر روشنی ڈالی تھی۔‘

wajpayee and china

تبت پر قصوروار کون، نہرو یا واجپائی؟

سنہ 2017 میں انڈیا کے سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ نے کہا تھا کہ انڈیا نے تبت کو چین کا حصہ مان کر بڑی غلطی کی تھی۔

ناراض بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی بھی تبت پر نہرو اور اٹل بہاری واجپائی کو گھیرے ہوئے ہیں۔

کیا انڈیا کا تبت کو چین کا حصہ ماننا واقعی غلط تھا؟

پروفیسر ہرش پنت کہتے ہیں کہ ’ہم نے ماضی میں چین کو سمجھنے میں غلطیاں کی ہیں۔ ان غلطیوں کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ہم نے چین کو سمجھنے میں تاخیر کی۔‘

سنہ 2003 میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے تبت کو چین کا حصہ تسلیم کیا اور چین نے سکم کو انڈیا کا حصہ تسلیم کیا۔

آر ایس ایس میگزین آرگنائزر کے سابق ایڈیٹر شیشادری چاری نے سنہ 2017 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ ہماری ایک سٹریٹجک غلطی تھی اور ہم نے اسے جلد بازی میں کیا۔ ہمیں تبت کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے تھا۔ ہمیں شروع سے ہی موقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں واضح طور پر کہنا چاہیے تھا کہ چین نے تبت پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اور یہ قابل قبول نہیں ہے۔‘

اس بارے میں چاری کا کہنا تھا کہ ’واجپائی حکومت کو اس سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت ہم نے تبت کے بجائے سکم کا تعین کیا تھا۔ چین نے سکم کو تسلیم نہیں کیا تھا، لیکن جب ہم نے تبت کو اپنا حصہ سمجھا تو اس نے سکم کو بھی قبول کیا۔‘

india and china

پروفیسر بی آر دیپک کہتے ہیں کہ ’واجپائی اور نہرو میں فرق تھا۔ نہرو نے آٹھ سال تک تبت کو چین کا حصہ سمجھا، لیکن واجپئی نے کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تبت پر نہرو کا چین کے ساتھ معاہدہ مارچ 1962 میں ختم ہوا اور یہ 2003 تک جمود کا شکار رہا۔ جب واجپائی نے 2003 میں چین کا دورہ کیا تو انھوں نے تبت پر ایک معاہدہ کیا۔ انڈیا کی چین پالیسی اور تبت تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔‘

’ایک طرف انڈیا میک موہن لائن کو بین الاقوامی سرحد اور تبت کو چین کا حصہ سمجھتا ہے، دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے ہو سکتی ہیں، اگر تبت پر انڈیا کا موقف یکساں ہوتا تو بہتر ہوتا۔‘

بی آر دیپک کا خیال ہے کہ تبت کے معاملے میں انڈیا بھی اپنا موقف بدل سکتا ہے۔ پی ایم مودی کی طرح اب وہ دلائی لامہ کو ان کی سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہیں اور انھیں اروناچل پردیش جانے کی بھی اجازت ہے۔

انڈیا کے علاقوں میں چینی تجاوزات کا آغاز چین نے 1950 کی دہائی کے وسط میں شروع کیا تھا۔

سنہ 1957 میں چین نے اکسائی چن کے راستے مغرب میں 179 کلومیٹر لمبی سڑک بنائی۔ اس میں 17 انڈین فوجی مارے گئے اور چین نے اسے دفاع میں کی گئی کارروائی قرار دیا۔

کہا جاتا ہے کہ چین نے 1962 میں انڈیا پر حملہ کیا تھا، اس لیے یہ نہ صرف ہمالیہ کے کسی علاقے کو کنٹرول کرنا تھا یا سرحد تبدیل کرنا تھا، بلکہ یہ تہذیب کی جنگ تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *