انڈیا میں احمدی برادری کو غیر مسلم قرار دینے کے معاملے پر کیا تنازع چل رہا ہے؟
انڈیا میں بسنے والی اقلیتوں کے امور سے متعلقہ وزارت نے آندھرا پردیش وقف بورڈ کی جانب سے ملک کی احمدیہ برادری کو ’کافر‘ اور غیر مسلم قرار دیے جانے کی قرارداد کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس برادری کے خلاف نفرت کی مہم چلانے کے مترادف ہے، جس کے اثرات پورے ملک پر پڑ سکتے ہیں۔
مرکزی وزارت کا مزید کہنا ہے کہ وقف بورڈ کو کسی کی مذہبی شناخت کے تعین کا کوئی اختیار نہیں، اِس کا کام صرف اوقاف کی ملکیت کا انتظام اور تحفظ ہے۔
اس ضمن میں انڈیا میں بسنے والی احمدیہ برادری نے گذشتہ ہفتے مرکزی حکومت کو ایک خط لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ آندھرا پردیش سمیت ملک کی بعض ریاستوں کے وقف بورڈ احمدیہ برادری کی مخالفت کر رہے ہیں اور انھیں اسلام سے خارج کرنے کی غیر قانونی قراردادیں منظور کر رہے ہیں۔
مرکزی حکومت نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے آندھرا پردیش کی حکومت کو ہدایت کی ہے وہ ریاستی وقف بورڈ کی غیر آئینی اور غیر قانونی قراردادوں کا جائزہ لے جو بقول اس کے احمدیہ برادری کے خلاف نفرت کی مہم کے مترادف ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’وقف بورڈ کو احمدیہ برادری سمیت کسی کی بھی مذہبی شناخت طے کرنے کی نہ تو ذمے داری دی گئی اور نہ ہی یہ اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔‘
آندھرا پردیش کے وقف بورڈ نے فروری 2012 کے ایک پرانے فتوے کی بنیاد پر ایک قرار داد منظور کی، جس میں ریاست کے قاضیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ احمدیہ برادری کے لوگوں کا نکاح نہ پڑھائیں کیونکہ وہ مسلمان نہیں۔
اس فتوے کو احمدیہ برادری نے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت نے اس قرارداد کو معطل کر دیا تھا۔
مرکزی حکومت کے خط میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں کے احکامات کے باوجود آندھرا وقف بورڈ نے رواں برس فروری میں دوبارہ اسی نوعیت کی قرارداد منظور کی جس میں احمدیہ برادری کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
اسی قرارداد کی بنیاد پر وقف بورڈ نے حال میں احمدیہ برادری کو غیر مسلم اور کافر قرار دیتے ہوئے وقف کی املاک سے احمدیہ برادری کی املاک کو معطل کر دیا اور ریاستی حکوت سے کہا کہ وہ احمدیہ برادری کی املاک کو براہ راست اپنے زیر انتظام لیں۔
بی بی سی کو بھیجے گئے ایک خط میں احمدیہ مسلم جماعت نے کہا ہے کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں محتلف عقائد اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ باہمی احترام اور بھائی چارہ کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں۔
’آئین ہند کے مطابق ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے اپنے آپ کو منسوب کرے۔ باوجود اس کے بعض مسلم تنظیموں اور وقف بورڈ کی طرف سے جماعت احمدیہ مسلمہ کے مذہبی حقوق کو سلب کیے جانے کی کارروائی کی جاتی ہے۔ یہ محض ملک کی پر امن فضا میں فتنہ پیدا کرنے اور احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف لوگوں کومتنفر کرانے اور ورغلانے کی کوشش ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس مذہب کی طرف چاہے منسوب ہو اور کوئی تنظیم اور ادارہ اسے اس بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتا ۔‘
اس دوران ملک کے سنی مسلمانوں کی ایک بڑی مذہبی تنظیم جمعیت العلمائے ہند نے احمدیہ برادری کو غیر مسلم قرار دینے کی آندھرا پردیش وقف بورڈ کی قرارداد کی حمایت کی ہے۔
ایک بیان میں تنظیم نے کہا ہے کہ ’قادیانی (احمدیہ) اسلام کے اس بنیادی عقیدے میں یقین نہیں رکھتے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد آخری نبی تھے۔‘
اس بیان میں اسلامی تنظیم ’عالمی مسلم لیگ‘ کی 1974 کی ایک میٹنگ کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں بقول اس کے 110 ملکوں کے مسلم نمائندوں نے شرکت کی تھی اور جس میں احمدیہ برادری کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا گیا تھا۔
احمدیہ برادری اس الزام کو مسترد کرتی رہی ہے۔ احمدیہ برادری نے اپنے بیان میں اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ احمدی، پیغمبر اسلام کو نہیں مانتے اور یہ کہ ان کا کلمہ مختلف ہے۔‘
’یہ من گھڑت اور چھوٹی باتیں ہیں۔ احمدیہ مسلم برادری دل و جان سے پیغمبر اسلام کو خاتم النبییّن مانتی ہے اور ان کی ناموس کے لیے کوئی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ ہر احمدی دل وجان سے ارکان ارکان اسلام کی پابندی کرتا اور ارکان ایمان پر سچے دل سے یقین رکھتا ہے۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احمدی مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دینے کا کسی کو بھی حق حاصل نہیں۔ ’یہ ایک غیر قانونی اور غیر مذہبی فعل ہے اور احمدیہ برادری کے لوگوں کو معاشرتی طور پر بائیکاٹ کرنے کی تحریک ملک کے لوگوں کے اتحاد کو توڑنے اور پر امن ماحول کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔‘
انڈیا میں احمدیہ کمیونٹی
انڈیا میں احمدیہ برادری کو 2011 کی مردم شماری میں مسلمانوں کے ایک فرقے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ مردم شماری کے مطابق اس وقت احمدی مسلمانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تھی۔
انڈیا میں بیشتر احمدی ریاست پنجاب کے قصبے قادیان میں رہتے ہیں۔ اسی قصبے میں احمدی فرقے کے بانی مرزا غلام احمد کی پیدائش ہوئی تھی۔
احمدیہ کمیونٹی کے مطابق مرزا غلام احمد نے 20ویں صدی کے اوائل میں اسلام کے احیا کی ایک تحریک چلائی تھی اور اُن کے پیروکار خود کو ’احمدیہ مسلم‘ کہتے ہیں۔
قادیان میں اس جماعت کا ایک بہت بڑا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ احمدیہ دلی، مہاراشٹر، اڑیسہ، بنگال اور بہار کی ریاستوں میں بھی آباد ہیں۔ دلی میں بھی ان کی کئی مساجد اور مرکز ہیں۔
ماضی میں بھی انڈیا کی سنی مذہبی تنظیمیں احمدیہ برادری کے مذہبی عقائد اور تصورات کی مخالفت کرتی رہی ہیں اور اُن کے خلاف منظم پراپیگنڈہ بھی کیا جا تا رہا ہے تاہم انھیں اس طرح کے مصائب، مذہبی تفریق اور جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس طرح کے حالات انھیں پاکستان میں درپیش ہیں۔
پاکستان میں احمدی برادری کے لوگ عموماً اپنی شناخت مخفی رکھتے ہیں اور کسی مذہبی تنازعے میں پڑنے سے گریز کرتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں ریاستی سطح پر قانون سازی کے تحت احمدیہ جماعت کو غیرمسلم قرار دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ دیگر ممالک میں ریاستی سطح پر ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا البتہ بعض ممالک میں سماجی سطح پر کئی اسلامی کونسلوں اور پلیٹ فارمز پر فتوی جاری کیے جاتے ہیں اور احمدیوں کو وہاں مخالفانہ فضا کا سامنا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حالیہ چند ماہ میں احمدی برادری کی عبادت گاہوں سے مینار ہٹانے کی مہم جاری ہے۔
ترجمان احمدیہ کمیونٹی کے مطابق اس سلسلے کی تازہ کڑی میں ایک مذہبی جماعت نے ضلع جہلم میں انتظامیہ کو احمدی عبادت گاہوں سے مینار گرانے کے لیے 10 محرم کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے اگر ایسا نہ ہوا تو احمدی عبادت گاہوں کی طرف مارچ کیا جائے گا۔
جہلم ہی میں رواں ماہ کے دوران احمدی افراد کی قبروں کے کتبوں پر سیاہی پھینکنے اور انھیں توڑنے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔
اس سے قبل عید قربان کے موقع پر مختلف شہروں میں پولیس نے بہت سے احمدی شہریوں کے گھروں سے قربانی کے جانور ضبط کیے تھے جبکہ ’قربانی کا اسلامی شعائر‘ اپنانے پر مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔
اسی طرح 4 مئی 2023 کو سندھ کے علاقے میرپور خاص میں ایک مشتعل گروہ نے احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ کے مینار توڑنے کے بعد عبادت گاہ کو نذر آتش کر دیا تھا۔
مئی ہی کے مہینے میں قرآن کی تعلیم دینے کے الزامات کے تحت مشتعل افراد نے ایک احمدی عبادت گاہ پر حملہ کر دیا تھا۔
گذشتہ ایک سال کے دوران اسی نوعیت کے متعدد واقعات سرگودھا، گجرات، گجرانوالہ، میرپور خاص، عمر کوٹ، کراچی، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور دیگر شہروں میں پیش آ چکے ہیں۔