افغانستان میں امریکی ڈرون حملے اطلاعات ہیں

افغانستان میں امریکی ڈرون حملے اطلاعات ہیں

افغانستان میں امریکی ڈرون حملے اطلاعات ہیں کہ امریکہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے‘، افغان وزیرِ دفاع کا الزام

اتوار کو افغانستان کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق امریکی ڈرونز پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں اور اس طرح حملوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہو رہی ہے۔

گذشتہ برس افغانستان سے امریکی و غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اس کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا جس میں مولوی یعقوب کو، جو افغان طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں، وزارت دفاع کا قلمدان سونپا گیا۔

اتور کو اپنے چیف آف آرمی سٹاف قاری فصیح الدین فطرت اور وزارت دفاع کے ترجمان مولوی عنایت اللہ خوارزمی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان حکومت کے وزیر دفاع نے کہا کہ ’ہم پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی فضا ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔‘

اگرچہ مولوی محمد یعقوب نے اپنے الزام کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے انخلا کے وقت ہمارے ریڈار سسٹم کو بھی تباہ کر دیا مگر اس کے باوجود ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے۔‘

خیال رہے کہ اس سے قبل افغانستان میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے خود اس ہلاکت کی تصدیق کی۔ ان کے مطابق اُنھیں سی آئی اے نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک ڈرون حملے میں نشانہ بنایا۔

صدر جو بائیڈن نے ایک مختصر خطاب میں بتایا کہ ایمن الظواہری نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شامل تھے اور وہ اسامہ بن لادن کے جانشین تھے۔

اس حملے کے بعد یہ الزامات سامنے آئے کہ اس مقصد کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کی گئی۔

تاہم پاکستان کی حکومت اور فوج نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی تھی اور یہ مؤقف دیا تھا کہ پاکستان نے کسی ملک کو بھی اس مقصد کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

ڈرون

پاکستان کے اندر بھی پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان سمیت اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں نے حکومت اور فوج پر اس حوالے سے تنقید کی ہے اور یہ وضاحت بھی مانگی ہے کہ امریکہ سے کوئی خفیہ معاہدہ ہے تو اس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

پاکستان نے ابھی تک افغانستان کی طرف سے عائد کیے جانے والے تازہ الزامات پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ تاہم ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد جب پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ سے ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈرون حملے کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال نہیں ہوئی ہیں۔

اسی طرح دفتر خارجہ اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے بھی اسی مؤقف کی تائید کی تھی۔

دوسری طرف اتوار کو پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’یہ ایک سنگین الزام ہے۔ ہمارے اپنے شہری ہلاک ہوتے رہے ہیں اور اس سے پہلے (ہم نے) امریکی جنگیں لڑنے کی بھاری معاشی قیمت ادا کی۔

’ہمیں ایسی دوسری جنگ میں نہیں گھسیٹا جا سکتا۔ قوم کو موفا (دفتر خارجہ) اور @OfficialDGISPR (آئی ایس پی آر) سے وضاحت کی ضرورت ہے کہ آیا ہم نے ڈرون اوور فلائٹس کی اجازت دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کیا ہے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ سال افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران صدر جو بائیڈن نے عہد کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ طالبان کی قیادت والی نئی حکومت کو افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔

بائیڈن کے ایک مشیر نے کہا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد سے ہی امریکی جاسوس افغانستان پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے کہ القاعدہ کے رہنما آہستہ آہستہ ملک میں واپس آ رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *