کوہستان میں سیلاب خاندان کے پانچ

کوہستان میں سیلاب خاندان کے پانچ

کوہستان میں سیلاب خاندان کے پانچ افراد کھونے کے بعد اب گھر بار چھوڑ کر جا رہے ہیں

’بہت دُکھی دل کے ساتھ اپنے گھر بار اور علاقے کو چھوڑ کر بٹگرام منتقل ہو رہے ہیں۔ اب اپنے علاقے میں بچوں کے لیے بھی خوراک دستیاب نہیں ہے۔ گھر بار تباہ ہو چکے ہیں، بہت بُری حالت میں ہیں۔‘

اکبر شاہ کوہستان کے علاقے وادی دوبیر کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ گذشتہ دنوں سیلابی ریلے میں اکبر شاہ کے خاندان کے پانچ افراد لاپتہ ہو گئے تھے، جس میں ان کے دادا جعفر شاہ سمیت ایک بہنوئی اور تین بھتیجے شامل ہیں۔

جعفر شاہ کے چھ بیٹے اپنے والد کے ملنے کی ایک امید لیے بٹگرام منتقل ہو رہے ہیں۔

بہنوئی عمر خان کے تین بچے اور بیوی ہیں۔

لاپتہ بچوں میں اسماعیل 12 برس کے، رشید آٹھ اور گل رحمان سات برس کے ہیں۔

جعفر شاہ

واقعہ کیا پیش آیا؟

اکبر شاہ کا کہنا تھا کہ خوفناک سیلابی ریلہ تھا، جس میں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اتنا پانی اور اتنی تیزی سے کہاں سے آ گئی تھی۔ پانی اپنے ساتھ لکڑ اور پتھر بھی لارہا تھا۔

اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہمیں لگا کہ ہماری پوری کی پوری بستی ہی اس میں بہہ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ بھاگ دوڑ کرسکتے تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر اونچائی پر چلے گئے۔ کون اونچائی پر گیا اور کون نہیں اس موقع پر کچھ پتا نہیں چل رہا تھا، جب پانی کا ریلا گزرا نیچے آئے تو گھروں کی جگہ پر ملبے کے ڈھیر تھے اور ہمارے خاندان کے ان پانچ لوگوں کا کوئی پتا نہیں تھا۔

اکبر شاہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں پتا کہ پانی ان کو کہاں لے کر گیا ہوگا۔ ’اتنے تیز پانی میں بہنے والوں کا بچنا بہت مشکل ہے۔ جہاں جہاں تلاش کرسکتے تھے کیا ہے مگر کچھ پتا نہیں چلا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ پانی دریائے سندھ میں گرتا ہے جو اس وقت بپھرا ہوا ہے۔ ’اس میں بھی بہت اُونچے درجے کا سیلاب ہے۔ پتا نہیں دریائے سندھ نے ان کی لاشیں کہاں پہنچا دی ہوں گی۔‘

کوہستان میں سیلاب

’کھانے پینے کو کچھ نہیں ہے‘

اکبر شاہ کہتے ہیں کہ گھر کا سامان محفوظ نہیں رہا تو کھانے پینے کی اشیا کہاں سے محفوظ رہتیں۔ ’ہم لوگ کھانے پینے کی اشیا دور دراز کے علاقوں سے لا کر کچھ عرصہ کے لیے محفوظ کرتے ہیں۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ نہ تو ہماری چھت محفوظ رہی اور نہ ہی کھانے پینے کو کچھ محفوظ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم اپنے علاقے میں نہیں رہ سکتے۔

’اب ہم لوگ یہاں سے بٹگرام جا رہے ہیں، جہاں پر کرائے کے مکانات تلاش کریں گے۔ وہاں پر کچھ عرصہ کے لیے رہائش اختیار کرکے اپنے علاقے میں گھروں کی دوبارہ تعمیر کر کے واپس منتقل ہونے کی کوشش کریں گے۔‘

سوات کے کالام کے علاقے کے ایوب کلامی کا کہنا تھا کہ راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ مقامی طور پر اشیا خوردونوش کی قلت پیدا ہو چکی ہے، یہاں تک کے ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں۔

ایوب کلامی کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں مقامی لوگوں کے علاوہ مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے سیاح بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ان سیاحوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ادویات کی قلت بھی پیدا ہو چکی ہے۔ اگر بند راستے چند دنوں میں نہ کھولے گئے تو کوئی بھی بڑا سانحہ ہو سکتا ہے۔

ان کے مطابق پورا علاقہ مہمانوں (سیاحوں) کو محفوظ کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔ کئی علاقوں سے مہمانوں کو منتقل بھی کر دیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *