اسسٹنٹ کمشنر کی حادثے میں ہلاکت ’فخر

اسسٹنٹ کمشنر کی حادثے میں ہلاکت ’فخر

اسسٹنٹ کمشنر کی حادثے میں ہلاکت ’فخر سے کہتا ہوں کہ میرا باپ اخبار بیچتا تھا

’میں بطور اسسٹنٹ کمشنر اپنا تعارف کرتے ہوئے فخر محسوس نہیں کرتا بلکہ زیادہ فخر اس بات پر ہے کہ میں ادارہ چلاتا ہوں، ایک ٹیچر ہوں۔‘

اسسٹنٹ کمشنر خضدار جمیل بلوچ نے گذشتہ سال ٹیچرز ڈے پر خضدار کے ایک مقامی سکول سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کی تھی۔ ٹریفک حادثے میں ان کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو زیرِ گردش ہے۔

اس میں وہ کہتے ہیں کہ ’کوئٹہ سریاب میں جو ہماری بلوچوں کی بڑی آبادی ہے، وہاں پر میں انسٹیٹیوٹ چلاتا ہوں۔ وہاں کمیشن (مقابلے کے امتحانات) کی کلاسز چل رہی ہوتی ہیں، لینگویج سینٹر ہے، ٹیوشن ہے، ہائی سکول ہے۔‘

جمیل بلوچ کو اسسٹنٹ کمشنر ہونے سے زیادہ اس بات پر فخر تھا کہ ’میرے بہت سے طلبہ، جن کی تعداد سو سے زیادہ ہوسکتی ہے، اچھی ملازمتوں پر فائز ہوئے، افسر بنے اور کئی نے سکالرشپس لیے۔‘

بلوچستان کے شورش زدہ علاقے خاران سے تعلق رکھنے والے جمیل بلوچ 12 نومبر کی صبح کوئٹہ میں کسی دوست کے گھر سے اپنے گھر جا رہے تھے کہ ان کی تیز رفتار گاڑی بے قابو ہو کر سپنی روڈ پر بے نظیر پل سے ٹکراگئی۔

اس حادثے میں جمیل بلوچ کی موت ہوئی جبکہ ان کے ساتھ گاڑی میں موجود کزن اشفاق احمد معمولی زخمی ہوئے۔

اپنے چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے 30 سالہ جمیل بلوچ بلوچستان کے علاقے لورالائی میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے جن کے پاس ڈپٹی کمشنر لورالائی کا اضافی چارج بھی تھا۔

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

’میرا باپ جہاں اخبار بیچتا تھا، وہاں کے افسران میرے دفتر میں پیشی دینے آتے ہیں‘

جمیل بلوچ نے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کلی شیخان کوئٹہ سے میٹرک کیا جبکہ انگلش لٹریچر میں بیچلر آف آرٹس بلوچستان یونیورسٹی سے کیا۔ اسی طرح انھوں نے انگلش لٹریچر میں نہ صرف ماسٹرز کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی بلکہ انگلش لٹریچر میں ایم فل بھی کر رہے تھے جس کا تھیسز انھوں نے ایک ہفتے قبل جمع کروایا۔

اپنی موت سے قبل جمیل بلوچ نے اگلے گریڈ میں ترقی پانے کے لیے محکمہ جاتی امتحان بھی دے رکھا تھا جس کا نتیجہ تاحال نہیں آیا۔

جمیل بلوچ کے بھائی سلیم جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک ماہ کے عرصے میں جمیل بلوچ کی شادی طے ہونا تھی تاہم قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔

ان کے مطابق ’ہمارے والد امیر حمزہ ایک اخبار فروش تھے، جنھوں نے چالیس سال قبل خاران سے ہجرت کرکے کوئٹہ میں یہ پیشہ اختیار کیا اور کچھ عرصے تک اخبار فروش یونین بلوچستان کے نائب صدر بھی رہے۔‘

جمیل بلوچ کی موت کے بعد خضدار کے مقامی سکول میں ٹیچرز ڈے پر گذشتہ سال کی بطور مہمان تقریر کی ویڈیو ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔

جمیل بلوچ

اس تقریب سے خطاب میں جمیل بلوچ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’میں فخریہ طور پر کہتا ہوں کہ میرا باپ اخبار بیچتا تھا اور میں ہر فورم پر یہ کہتا ہوں کہ میں ایک اخبار بیچنے والے کا بیٹا ہوں جس نے مجھے اتنا قابل بنایا کہ جس آفس میں وہ اخبار بیچتے تھے اس آفس کے افسر میرے آفس میں پیشی دینے آتے ہیں۔‘

انھوں نے 2014 میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سب سے زیادہ شورش زدہ علاقے سریاب میں سریاب ملز کے قریب انگریزی زبان کی تعلیم کی اکیڈمی کھولی تھی۔

بعد ازاں وہاں ہائی سکول شروع کر کے انھوں نے سنہ 2016 میں سریاب کے علاقے برما ہوٹل میں جامعہ بلوچستان سے چند فرلانگ کے فاصلے پر اسی ادارے کی دوسری برانچ کھولی جس میں صبح سے دوپہر تک ہائی سکول اور سہہ پہر سے رات تک انگلش لینگویج اکیڈمی سمیت مقابلے کے امتحانات کی کلاسز ہوتی ہیں۔

جمیل بلوچ کی موت کے بعد ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے میں سوگ کا سماں تھا جہاں کلاسز عارضی طور پر معطل تھیں لیکن اکیڈمی کی چھت کے اس مقام پر ادارے کے انتظامی سربراہ عامر بلوچ کچھ دیگر اساتذہ کے ہمراہ بیٹھے تھے جہاں کلاس دہم کی جماعت کے لیے ہفتہ 12 نومبر کو ہی ایک الوداعی تقریب رکھی گئی تھی جس میں جمیل بلوچ نے بھی شرکت کرنا تھا۔

عامر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں علی الصبح یہ اطلاع ملی کہ ’جمیل بلوچ ایک حادثے میں شہید ہو گئے ہیں جسے سن کر یقین ہی نہیں آیا‘ لیکن جب وہ ان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ان کی میت رکھی ہے۔

جمیل بلوچ کے بھائی سلیم جاوید بھی اسی تعلیمی ادارے میں پڑھاتے ہیں اور اب متوقع طور پر وہی اس ادارے کے سربراہ ہوں گے۔

سلیم جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ جمیل بلوچ کی قیادت میں انھوں نے اس وقت کچھ دیگر دوستوں کے ہمراہ مل کر سریاب میں پہلی اکیڈمی قائم کی جب وہ دونوں بھائی بلوچستان یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہے تھے۔

ان کے بقول انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بعد جمیل بلوچ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کئی سرکاری اداروں میں بطور افسر بھرتی ہوئے اور کچھ آسامیوں پر انھوں نے ٹیسٹ بھی پاس کیا لیکن اپنے تعلیمی ادارے سے لگاؤ کے باعث انھوں نے نوکری چھوڑی دی ’اور جب وہ 2019 میں اسسٹنٹ کمشنر بھرتی ہوئے تب بھی ان کا دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ اپنا تعلیمی ادارہ چھوڑ کر چلے جائیں۔‘

اکیڈمی

جمیل بلوچ نہ ہوتے ’تو میں آج اس مقام پر نہ ہوتا‘

سلیم جاوید کے مطابق یہی رغبت انھیں یہاں کھینچ کر لاتی تھی اور ان کی پوسٹنگ جہاں بھی ہوتی، وہ ہفتہ وار چھٹیوں پر کوئٹہ پہنچ کر اپنے ادارے کا دورہ کر کے اساتذہ اور طلبہ سے مل کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے ادارے میں قریبی رشتہ داروں سمیت خاران اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں طلبہ مفت یا آدھی فیس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

سریاب کی گلیوں میں پاپڑ بیچنے والے احسان اللہ نے بھی جمیل بلوچ کے ادارے ٹائمز سکولنگ سسٹم اینڈ اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی اور اب وہ اس ادارے میں پڑھاتے بھی ہیں۔

احسان اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے حال ہی میں بلوچستان پوسٹ گریجویٹ کالج سے بی ایس فزکس کے امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔

انھوں نے اپنا ماضی یاد کرتے ہوئے افسردہ لہجے میں بتایا کہ جمیل بلوچ نے انھیں اس قابل بنایا کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک قابل طالب علم اور استاد بنیں۔ ’وہ نہ ہوتے تو میں آج اس مقام پر نہ ہوتا۔‘

خضدار میں گذشتہ سال کی ٹیچرز ڈے تقریب میں جمیل بلوچ نے احسان اللہ کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ وہ بڑی پیاری آواز میں پاپڑ بیچ رہا تھا۔ انھوں نے بلوا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ غربت کی وجہ سے کام کرتے ہیں تبھی انھوں نے نہ صرف احسان اللہ کو پڑھایا بلکہ اکیڈمی میں ایک ٹاسک کے بدلے انھیں کچھ تنخواہ بھی دی۔

جمیل بلوچ

ادارے کی چھت پر بیٹھک کے دوران وہاں کلاس نہم میں زیر تعلیم شہریار، جو جمیل بلوچ کے بھانجے ہیں، روتے ہوئے داخل ہوئے اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے آنسو پونچھتے رہے۔

سلیم جاوید نے بتایا کہ شہریار اس سکول کا سب سے ہونہار طالب علم ہے جو ہمیشہ اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن لے کر پاس ہوتا آیا ہے۔

ان کے بقول جب سے جمیل بلوچ کار حادثے میں فوت ہوئے، تب سے شہریار کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے کیونکہ انھی کی وجہ سے وہ تعلیم کی جانب راغب ہوئے اور وہی شہریار کو سب سے زیادہ پیار دیتے تھے۔

سلیم جاوید کے مطابق سریاب کوئٹہ میں سب سے زیادہ حساس علاقہ ہے جہاں تعلیمی ادارہ کھولنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا ’کیونکہ جس علاقے میں ہم نے سب سے پہلے اکیڈمی کھولی وہاں ایک تعلیمی ادارہ ہینڈ گرنیڈ حملے کے بعد بند ہوچکا تھا جبکہ علاقے میں ہمہ وقت خوف کا سماں ہوتا تھا۔ منشیات فروشی کے اڈے چل رہے ہوتے تھے۔‘

’ان سب حالات کے باوجود جمیل بلوچ نے تعلیمی ادارہ کھول کر علم کا شمع روشن کیا اور آج علاقے کا ہر مکین ان کی موت پر سوگوار ہے۔ لیکن ہم نے ان کے مشن کو آگے بڑھانا ہے تاکہ جہالت کے خلاف جہاد جاری رہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *