اسرائیل میں مذہبی اجتماع کے دوران بھگدڑ مچنے سے کم از کم 44 افراد ہلاک، اسرائیلی وزیر اعظم نے واقعے کو ’بڑی تباہی‘ قرار دے دیا
اسرائیل کے شمال مشرقی حصے میں ایک مذہبی تہوار کے دوران بھگدڑ مچنے سے کم از کم درجنوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
ملک میں ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے ایم ڈی اے نے درجنوں اموات کی تصدیق کی ہے تاہم اس حوالے سے اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔ ایم ڈی اے کا کہنا ہے کہ درجنوں افراد اس واقعے میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اسرائیلی اخبار ’ہاریٹز‘ کے مطابق اس بھگدڈ کے نتیجے میں 44 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ریسکیو اہلکار جائے وقوعہ سے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے واقعے کو ’بڑی تباہی‘ قرار دیا ہے اور لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے آغاز کے بعد جبل الجرمق (ماؤنٹ میرن) پر ’لاگ با اومر‘ نامی تہوار میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔ وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ہونے کے باوجود لاکھوں اسرائیلیوں نے اس مذہبی تہوار میں شرکت کی۔
تاہم اب اس واقعے کے بعد یہاں درجنوں ایمبولینس گاڑیاں موجود ہیں اور ریسکیو اہلکاروں نے زمین پر لاشیں رکھی ہوئی ہیں۔ پولیس نے تمام لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرہ علاقے سے نکل جائیں۔
واضح رہے کہ ہر برس لاکھوں کی تعداد میں قدامت پرست یہودی لا با اومر کا تہوار مناتے ہیں۔ اس سلسلے میں رات بھر عبادات اور مذہبی رقص کے ذریعے جشن منایا جاتا ہے۔
ایمرجنسی حکام کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ پر 38 زخمی افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ چھ مزید تشویشناک حالت کے مریضوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر افراد کو معمولی چوٹیں آئی ہیں۔
ایک ٹویٹ کے مطابق ’ایم ڈی اے درجنوں افراد کی جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آخری متاثرہ فرد کی (ہسپتال) منتقلی تک ہار نہیں مانیں گے۔‘
واقعہ کیسے پیش آیا؟
ابتدائی معلومات کے مطابق جائے وقوعہ پر ایک عمارت گِر گئی تھی تاہم بعد میں ایم ڈی اے نے بتایا کہ درحقیقت یہاں ایک بھگدڑ مچ گئی تھی۔ پولیس ذرائع نے ہاریٹز اخبار کو بتایا کہ کچھ شرکا سیڑھیوں سے پھسلے جس کے بعد بھگدرز اس سے درجنوں افراد گِر پڑے۔
ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ ’یہ سب کچھ ہی سیکنڈز میں ہوا۔ لوگ گرتے گئے اور ایک دوسرے کو روند کر آگے بڑھتے گئے۔ یہ تباہ کن تھا۔‘
انٹرنیٹ پر تقریب کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہزاروں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ واقعہ پیش آنے کے بعد ان لوگوں کو تقریب سے نکلنے میں کافی مشکل پیش آئی۔
شرکا میں سے ایک فرد نے بتایا کہ لاؤڈ سپیکر پر بم کی اطلاع دی گئی تھی اور شرکا کو منتشر ہونے کا کہا گیا تھا۔
چینل 12 ٹی وی پر ایک شخص نے بتایا کہ ’کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہاں یہ ہو گا۔‘
’خوشی کا تہوار غم میں تبدیل ہو گیا۔ روشنی تاریکی میں بدل گئی۔‘
قدامت پرست مذہبی ویب سائٹ بیہادری ہاریدم کے رپورٹر یانکی فاربر نے واقعے کو ’بڑی تباہی‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک ہزار سے زیادہ لوگوں نے چھوٹی سی جگہ پر جانے کی کوشش کی اور ایک دوسرے پر گِرنے لگے۔
حکام نے بڑے ہجوم کی وجہ سے ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے تھے۔
پولیس نے دو ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جنھوں نے مبینہ طور پر بھگدڑ سے قبل حکام کی جانب سے حالات کو قابو میں رکھنے کی کوششوں میں خلل ڈالا۔