اسرائیل، فلسطین تنازع گُوگل کے نقشوں میں یہ علاقہ صاف کیوں نہیں دکھائی دیتا؟
غزہ، جو کے دنیا کے گنجان ترین آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے، آخر وہ ’گُوگل میپس‘ کی ویب سائٹ پر دھندلا کیوں دکھائی دیتا ہے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی نشاندہی کئی ایسے لوگ کر رہے ہیں جو عوامی سطح پر دستیاب ذرائع اور معلومات کی روشنی میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں غزہ میں کس مقام پر کتنی تباہی ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے عوامی سطح پر دستیاب ذرائع (اوپن سورسز) پر تحقیق کرنے والے سمیر کہتے ہیں کہ ’ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی خلائی سیاروں سے لی گئی صاف (ہائی ریزولوشن) تصاویر دستیاب نہیں ہیں، جس سے ہمارا کام شدید متاثر ہوتا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ خلائی سیاروں سے تصاویر لینے والی کمپنیوں کے ہاں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی صاف شفاف (ہائی ریزولوشن) تصویریں دستیاب ہیں، لیکن ’گوگل ارتھ‘ پر ان علاقوں کی جو تصاویر لگائی جاتی ہیں وہ کمتر درجے کی (لو ریزولوشن) ہوتی ہیں۔
گوگل ارتھ پر نظر آنے والی غزہ کی تصویروں میں آپ کو سڑک پر چلتی کاریں بھی مسشکل سے ہی دکھائی دیتی ہیں۔
اگر آپ اس کا مقابلہ شمالی کوریا کے دارالحکومت پیونگ یانگ سے کریں جسے دنیا کی نظروں سے دور رکھا جاتا ہے، تو گوگل ارتھ پر وہاں ہمیں نہ صرف کاریں بالکل صاف دکھائی دیتی ہیں بلکہ غور کرنے پر آپ سڑک پر موجود مختلف افراد کو الگ الگ دیکھ سکتے ہیں۔
خلائی تصاویر اتنی اہم کیوں ہیں؟
آج کل کسی بھی مسلح تصادم یا لڑائی کی خبروں میں خلائی سیاروں سے لی جانے والی تصاویر کا کردار بہت اہم ہو چکا ہے۔
لیکن ایسی خلائی تصاویر جن میں آپ متعلقہ علاقے کی تمام تفیصل دیکھ سکتے ہیں، ان سے آپ کی فوجی حکمت عملی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں اس وقت جاری لڑائی کی تفصیل بتانے والے کوشش کر رہے ہیں کہ وہ خلائی سیاروں سے ملنے والی تصویروں کی مدد سے یہ جان سکیں کہ اسرائیل اور غزہ سے میزائل کس مقام سے داغے جارے ہیں اور کن عمارتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گوگل ارتھ پر دستیاب غزہ کی تازہ ترین خلائی تصویروں کی ریزولوشن کم ہے اور سب کچھ دھندلایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
’بیلنگ کیٹ‘ (بلی کے گلے میں گھنٹی باندھانا) نامی ویب سائٹ سے منسلک صحافی ایرک ٹولر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’گوگل ارتھ پر موجود اس علاقے کی آخری تصویر 2016 میں لی گئی تھی، جو اِس وقت بالکل ردّی دکھائی دیتی ہے۔ اسی دوران میں نے شام کے کچھ دیہی علاقوں کو زُوم کر کے بھی دیکھا ہے، شام کی 20 سے زیادہ تصویریں یہاں موجود ہیں جو کہ ساری ہائی ریزولوشن میں ہیں۔‘
گُوگل کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے ’گنجان آباد مقامات کی تصویروں کو مسلسل اپ ڈیٹ کرتے ہیں‘ لیکن ہماری معلومات کے مطابق غزہ کے معاملے میں ایسا نہیں کیا جا رہا۔
کیا ہائی ریزولوشن تصویریں دستیاب ہیں بھی یا نہیں؟
گزشتہ برس تک امریکی حکومت نے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی تصویروں کے معیار پر پابندی لگا رکھی تھی اور امریکی کمپنیوں کو ایسی تصویری صرف پیسے دیکر خریدنے کی اجازت دی گئی تھی۔
امریکی قوانین میں اس پابندی کو سنہ 1997 میں اس وقت شامل کیا گیا تھا جب اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے ’کائل بنگامین امینڈمنٹ‘ کے نام سے ایک ترمیم کی گئی تھی۔
روئٹرز کے بقول گزشتہ برس اسرائیلی وزارت دفاع کے خلائی پروگرام کے سربراہ ایمنون ہراری نے کہا تھا کہ ’ہماری ترجیح ہمیشہ یہی ہو گی کہ (ہماری تصویریں) دھندلی ترین (لوئسٹ ریزولوشن ) میں بنائی جائیں۔ ہماری تصویریں ہمیشہ دھندلی ہونی چاہئیں نہ کہ صاف شفاف۔‘
کے بی اے نامی ترمیم کے تحت، خلائی تصویریں فراہم کرنے والی امریکی کمپنیوں کو، صرف کم ریزولوشن والی تصویریں جاری کرنے کی اجازت تھی، یعنی ایسی تصویریں جن کا پِکسل سائز 2 میٹر سے زیادہ نہ ہو، دوسرے الفاظ میں ایسی تصویریں جن میں کار کے حجم کی چیز بھی بمشکل ہی دکھائی دیتی ہے اور اس سے چھوٹی چیز نظر نہیں آ سکتی۔
اس قسم کی تصویروں میں فوجی اڈوں جیسی تنصیبات ہمیشہ دھنلائی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، لیکن کسی ملک کے قوانین میں یہ واحد ایسی ترمیم ہے جس کا اطلاق ایک پورے ملک پر کیا گیا تھا۔
اس امریکی قانون میں اگرچہ ذکر صرف اسرائیل کا کیا گیا، لیکن اس کا اطلاق فلسطینی علاقوں پر بھی کیا گیا۔
تاہم، بعد میں جب ایک مرتبہ فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی ایئربس نے اس خطے کی صاف شفاف ہائی ریزولوشن تصویریں جاری کر دیں تو امریکہ پر بھی دباؤ میں اضاہ ہو گیا کہ وہ بھی اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کی تصویروں پر لگائی جانے والی پابندی ختم کرے۔
اس کے نتیجے میں، آخر 2020 میں امریکہ نے کے بی اے نامی ترمیم ختم کر دی اور اب امریکی حکومت نے اپنی نجی کمپنیوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اس خطے کی ہائی ریزولوشن تصویریں جاری کر سکتی ہیں (ایسی تصویروں میں اب کسی اکیلے شخص کے حجم کے برابر کی شے کو بھی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔)
اس ترمیم کے خلاف ایک کامیاب مہم چلانے والے اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے منسلک ماہرِ آثارِ قدیمہ، مائیکل فریڈی کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ یہ ترمیم لانے کی وجہ سائنسی تھی۔
’ہم چاہتے تھے کہ ہم جن منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، ان کے لیے ہمیں ہر مقام کی یکساں معیار کی تصاویر حاصل ہوں، اس کے لیے ہمیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی بھی ہائی ریزولوشن تصویریں درکار تھیں۔‘
تو پھر غزہ ابھی تک دھندلا کیوں ہے؟
اس حوالے سے بی بی سی نے گوگل کے علاوہ ایپل سے بھی بات کی، کیونکہ اب ایپل کی ایک ایپلیکیشن پر بھی آپ خلاء سے لی گئی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔
ایپل کا کہنا تھا کہ اب کمپنی اپنی تصویروں کو اپ ڈیٹ کر رہی ہے اور جلد ہی ان کی ویب سائٹ پر 40 سینٹی میٹر کی ہائی ریزولوشن والی تصاویر دستیاب ہو جائیں گی۔
دوسری جانب گوگل کا کہنا تھا کہ ان کی ویب سائٹ پر دکھائی جانے والی تصاویر مختلف ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں اور ادارے کی کوشش ہوتی ہے کہ ’جوں ہی کسی جگہ کی ہائی ریزبولوشن خلائی تصویر مل جائے، تو وہ اپنی سائٹ کو ریفریش کر دیں۔‘ تاہم ادارے کا مزید کہنا تھا کہ اس کا نئی تصویروں کو عام لوگوں سے شیئر کرنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔
بیلنگ کیٹ سے ہی منسلک ایک اور صحافی، نِک واٹرز کہتے ہیں کہ خطے میں ہونے والے ’حالیہ واقعات کو مد نظر رکھیں تو مجھے کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ اس علاقے کی خلائی تصویروں کو جان بوجھ کر دھندلا پیش کیا جائے۔‘
یہ تصاویر اصل میں اتارتا کون ہے؟
جہاں تک گوگل ارتھ اور ایپل میپس جیسی عوامی ویٹ سائٹس کا تعلق ہے تو تصویروں کے لیے یہ دونوں ان کمپنیوں پر انحصار کرتی ہیں جنہوں نے اپنے سیارے خلاء میں چھوڑ رکھے ہیں۔
ان میں سے دو، میکسر اور پلانیٹ لیب، دو ایسی کمپنیاں ہیں جنہوں نے اب اسرائیل اور غزہ کی ہائی ریزولوشن والی تصویریں مہیا کرنا شروع کر دیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں میکسر کا کہنا تھا کہ امریکی قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں اب اسرائیل اور غزہ کی 40 سینٹی میٹر والی ہائی ریزولوشن تصویریں فراہم کی جا رہی ہیں۔
پلانیٹ لیب نے بھی بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اب 50 سینٹی میٹر کی ہائی ریزولوشن تصاویر جاری کر رہے ہیں۔
تاہم عوامی سطح پر دستیاب ذرائع پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ زیادہ تر مفت میں دستیاب ذرائع پر انحصار کرتے ہیں اور انہیں ہائی ریزولشن والی تصویروں تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
ہائی ریزولوشن تصویروں میں مزید کیا سامنے سکتا ہے؟
خلاء سے لی جانے والی تصویروں کو کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جیسے جنگلات کی کٹائی پر نظر رکھنے کے لیے، یہ دیکھنے کے لیے کسی جنگل میں کہاں کہاں آگ پھیل رہی ہے، اور اس کے علاوہ ان خلائی تصویروں کی مدد سے دنیا کے مختلف مقامات پر انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
مثلاً ہیومن رائٹس واچ نے سنہ 2017 میں پلانیٹ لیب کے تعاون سے دنیا کو دکھایا تھا کہ میانمار میں فوج کہاں کہاں روہنگیا برادری کے دیہاتوں کو تباہ کر رہی ہے۔
ان تصویروں کی مدد سے تنظیم کو معلوم ہوا کہ میانمار کی فوج نے 200 سے زیادہ دیہاتوں کو کیسے تباہ کیا کیونکہ تنظیم کو اس علاقے میں فوجی کارروائیوں سے پہلے اور بعد کی تصویروں حاصل تھیں جن کی مدد سے وہ پہلے اور بعد کے زمینی حقائق کا تقابلہ کر سکتی تھی۔
ان تصویروں سے روہنگیا برادری کے اس دعوے کو تقویت ملتی تھی کہ ان کے دیہاتوں کو فوج نے نشانہ بنایا تھا جس کے بعد یہ لوگ سرحد پار بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہو گئے تھے۔۔
.اس کے علاوہ اس قسم کی خلائی تصویروں کی مدد سے چین کے سنکیانگ کے علاقے میں ویغروں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور ان تربیتی مراکز کی تفصیل بھی معلوم ہوئی تھیں جہاں ویغروں کو رکھا جا رہا ہے۔