ہنزہ شیشپر گلیشیئر جھیل سے پانی کے توقع سے زیادہ اخراج

ہنزہ شیشپر گلیشیئر جھیل سے پانی کے توقع سے زیادہ اخراج

ہنزہ شیشپر گلیشیئر جھیل سے پانی کے توقع سے زیادہ اخراج پر شاہراہ قراقرم بند

گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ میں شیشپر گلیشیئر پر بننے والی گلیشیئر جھیل سے توقع سے بڑھ کر پانی کے اخراج پر شاہراہ قراقرم کو حسن آباد کے مقام سے بند کردیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر فیاض احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ شاہراہ قراقرم کو بند کرنے کا فیصلہ حفاظتی قدم کے طور پر اٹھایا ہے۔ شاہراہ قراقرم سمیت اس کے اردگرد موجود مقامات کو بظاہر ابھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔

مقامی آبادی کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ ٹریفک کے لیے اب متبادل راستہ مرتضی آباد سے ہنزہ جائے گا۔

فیاض احمد کے مطابق پانی کے زیادہ اخراج کی وجہ گذشتہ چھ ماہ سے گلیشیئر جھیل سے پانی کا اخراج نہ ہونا ہے۔  یہ اخراج  چھ ماہ بعد 15 مئی کو شروع ہوا جب اس کو  گلیشیئر کے نیچے سے راستہ ملا ہے۔

گلیشیئر

دریائے ہنزہ جھیل: تین دیہات ڈوب گئےگذشتہ رات گلیشیئر جھیل سے تقریباً  آٹھ ہزار کیوسک پانی کا اخراج ہوا تھا۔ صبح کے وقت یہ سات  ہزار، دوپہر کے وقت پانچ ہزار اور شام کو  تقریباً چار ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ اس وقت جھیل میں سے 70 فیصد پانی نکل چکا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ہنزہ کے مطابق ’اس بناء پر ہم توقع کر رہے ہیں کہ چھ ماہ کے دوران اکھٹا ہونے والے پانی کے مکمل اخراج کے بعد ہم نارمل صورتحال کی جانب لوٹ جائیں گے۔ چند گھنٹوں میں یہ اخراج مکمل ہوسکتا ہے۔  جس کے بعد شاہراہ قراقرم کو  دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شیشپر گلیشیئر مجموعی طور پر اب تک اڑھائی کلو میٹر سرکنے کے بعد دوسرے  گلیشیئر کے ساتھ ٹکرا کر بلاک ہوچکا ہے۔ اس وقت تک یہ گلیشیئر تقریباً پندرہ میٹر کم بھی ہوا ہے۔ جس کی ایک وجہ برف کا پگھلنا بھی ہے۔‘

فیاض احمد کے مطابق گلیشیئر جھیل کے حوالے سے ماہرین تمام تحقیقات کر رہے ہیں۔ ’اس بارے میں ہمارے پاس تمام معلومات دستیاب ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے پہلے ہی سے حفاظتی اقدامات بند وغیرہ تعمیر کررکھے تھے جس سے  شاہراہ قراقرم اور دیگر مقامات محفوظ رہے ہیں۔ ‘

گلیشیئر جھیل کے حوالے سے اس وقت مزید تحقیق  بھی ہورہی ہے اور ہم ایک منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ جس میں جھیل کے پانی کو اخراج کا نہ صرف راستہ دیا جائے بلکہ اس کے پانی کو استعمال میں بھی لایا جاسکے۔ جس پر جلد کام شروع ہونے کی امید ہے۔

گلیشیئر

شاہراہ قراقرم کی قریبی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا حکم

گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں ایک گلیشئیر کے سرکنے سے لاحق خطرے کے باعث حکام نے شاہراہ قراقرم کے قریب واقع آبادی کے رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔

شیشپر نامی یہ گلیشیئر گلگت بلتستان کے ان 36 گلیشیئر میں سے ایک ہے جو کہ مختلف وجوہات کی بنا پر خطرے کا شکار ہیں۔

گلگت بلتستان کی حکومت کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے الرٹ کے بعد احسن آباد کے رہائشیوں نے انخلا کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شیشپر گلیشیئر 10 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 1800 میٹر تک سرک چکا ہے اور مقامی حکام کے مطابق آنے والے دنوں میں انسانی جان و مال کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے احسن آباد کے رہائشی مسکین گل نے بتایا کہ ’شیشپر کے سرکنے کی وجہ سے پوری آبادی میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ہمیں یہاں سے جلد منتقل کر دیا جائے گا، مگر ابھی تک ایسے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے۔‘

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض احمد فراق نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حکومت نے مقامی آبادی کو کسی بھی خطرے سے بچانے کے لیے محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا فیصلہ احتیاطی طور پر کیا ہے۔

’امدادی ٹیمز اور متعلقہ اداروں کو فوری طورپر علاقے میں پہنچنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں اور منتقلی کا کام آئندہ دونوں میں شروع ہو جائے گا۔‘

گلگت بلتستان کے محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر زبیر احمد صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ گلوبل وارمنگ اور موحولیاتی تبدیلیوں کے سبب علاقے میں کئی سو گلیشیئرز متاثر ہیں، جن کو خطرے اور انتہائی خطرے کا شکار درجات میں تقسیم کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گلگت بلتستان میں خطرے کا شکار گلیشیئرز کی تعداد سینکڑوں میں ہے جبکہ انتہائی خطرے کا شکار ایسے 36 گلیشیئرز کی نشاندہی کی جا چکی ہے جو کہ مختلف آبادیوں کے قریب واقع ہیں۔‘

گلیشیئر

ان کے مطابق ’گلیشیئرز کے متاثر ہونے کی وجوہات میں سرِفہرست تو گلوبل وارمنگ ہے۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلیاں جیسے گذشتہ برسوں میں برف اور بارشوں کا معمول سے کم یا زیادہ ہونا بھی ان وجوہات میں شامل ہیں جن کے براہ راست اثرات گلیشیئرز پر پڑتے ہیں۔‘

’دوسری بڑی وجہ انسانی طرز زندگی ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں ایندھن کے لیے لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں لکڑی ایندھن کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کا دھواں کافی آلودگی پھیلاتا ہے جو ہمارے گلیشیئرز کو بہت متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح آبادی کا بڑھنے اور گلیشیئرز پر انسانی عمل دخل زیادہ ہونے سے بھی گلیشیئرز متاثر ہو رہے ہیں۔‘

زبیر احمد صدیقی کے مطابق شیشپر گلیشیئر سے لاحق خطرے کی بھی یہی وجوہات ہیں۔ ان کے مطابق یہ بتانا اس وقت ممکن نہیں کہ انتہائی خطرے کا شکار دیگر گلیشیئرز کب کسی آفت کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن ان سب کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

گلیشئر
گلگت بلتستان میں ایندھن کے لیے لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا دھواں بہت زیادہ آلودگی پھیلاتا ہے جو ہمارے گلیشئرز کو متاثر کرتا ہے۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی گلگت بلتستان کے ڈائریکٹر جنرل فرید احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شیشپر گلیشئیر کے سرکنے کا عمل مئی 2018 میں شروع ہوا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شیشپر کے ساتھ ہی ایک اور گلیشئیر بھی ہے اور ان دونوں کا پانی ایک ہی نالے میں گرتا تھا۔ شیشپر بڑھتا ہوا اس نالے کے قریب آ کر ستمبر میں ایک پہاڑ سے ٹکرا کر رک گیا تھا، جس کی وجہ سے اکتوبر اور نومبر میں اس کا رخ وادی میں آبادی والے علاقوں کی جانب مڑ گیا۔‘

یہی نہیں بلکہ شیشپر نے اس نالے کا راستہ بھی بند کر دیا ہے جس میں دونوں گلیشئیرز کا پانی گرتا تھا اور اس وجہ سے وہاں پر اب ایک ’گلیشئیر جھیل‘ بن چکی ہے۔

گلیشئیر
سرکنے کے باعث شسپر گلیشئیر آبادی کے انتہائی قریب آ گیا ہے

واضح رہے کہ اس سے پہلے سنہ 2010 میں ہنزہ تحصیل کے گاؤں عطا آباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں ‘مٹی کا تودہ’ گرنے کے باعث بیس افراد ہلاک اور دریائے ہنزہ میں پانی کا بہاؤ پانچ ماہ تک رک گیا تھا جس کے نتیجے میں ایک جھیل معرضِ وجود میں آ گئی تھی۔

فرید احمد کے مطابق ’شیشپر مجموعی طور پر 1800 میٹر تک سرک چکا ہے۔ کبھی اس کے سرکنے کی رفتار کم اور کبھی سات میٹر روزانہ کی سطح تک پہنچ جاتی ہے۔ تاہم یہ اوسطاٰ روزانہ تین میٹر تک سرک رہا ہے۔‘

فرید احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ گلیشیئر شاہراہ قراقرم اور احسن آباد (جہاں 170 کے قریب گھرانے آباد ہیں) سے پانچ کلومیٹر دور ہے اور اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

ان کے مطابق اس گلیشئیر سے ’شاید فوری خطرہ تو نہیں، لیکن خطرات ضرور موجود ہیں۔‘

گلیشئر
1981 سے لیکر سنہ 2010 تک گلگت بلتستان اور پاکستان کے ان علاقوں کا درجہ حرارت جہاں پر گلیشئرز واقع ہیں سنہ 1961 سے لیکر سنہ 1990 تک کے مقابلے میں 1.2 اوسط ڈگری تک بڑھ چکا ہے

خطرات اور احتیاطی تدابیر

حکام کا کہنا ہے کہ درمیانے درجے کے سیلاب کی صورت میں شیشپر کے قریب واقع پندرہ سے بیس گھروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جبکہ بڑے سیلاب کی صورت میں 70 سے 80 گھروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے محکمۂ ماحولیات کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گلیشئیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ‘ یا گلیشیئر جھیل پھٹنے سے آنے والا سیلاب اچانک ہی آتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب گلیشئیر کے اندر کسی بھی وجہ سے جھیل بن جائے۔

’جب یہ جھیل پھٹتی ہے تو اس سے کئی ملین کیوبک فٹ پانی اور ملبہ انتہائی تیزی سے نکلتا ہے اور سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔‘

ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی گلگت بلتستان کے مطابق گلیشیئر کی حرکت کی وجہ سے ہنزہ میں زیر تعمیر ایک بجلی گھر پر جاری کام بند کروا دیا گیا ہے۔ دو چھوٹے بجلی گھروں جن سے مجموعی طور پر اعشاریہ سات میگا واٹ بجلی حاصل ہوتی ہے، انھیں بھی بند کر دیا گیا ہے۔

سیلاب کے خدشے کے پیش نظر احسن آباد کے لوگوں کی حفاظت کے لیے بجلی گھر کے بعد دریا کے بہاؤ کے ساتھ بند کی تعمیر کا کام بھی فوری طور پر شروع کر دیا گیا ہے۔

ان کے مطابق چند سال قبل اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے تحت کیے گئے ایک سروے سے ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں میں تین ہزار سے زائد ’گلیشئیل جھیلوں‘ کی نشاندہی ہوئی، جن میں سے 33 کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا تھا۔

سروے کے مطابق اس صورتحال سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں بسنے والے 70 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ نعمان رشید کا کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار چند سال پرانے ہیں اور ان میں اضافہ بھی ممکن ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’سنہ 1981 سے لے کر سنہ 2010 تک گلگت بلتستان اور پاکستان کے ان علاقوں میں جہاں پر گلیشئیرز واقع ہیں، درجۂ حرارت سنہ 1961 سے لے کر سنہ 1990 تک کے مقابلے میں 1.2 اوسط ڈگری تک بڑھ چکا ہے۔ یہ اعداد و شمار ثابت کر رہے ہیں کہ ہمارے گلیشئیرز موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہوچکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *