آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد پاکستانی فلم جوائے

آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد پاکستانی فلم جوائے

آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد پاکستانی فلم جوائے لینڈ کے خلاف شکایات کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم نے کمیٹی بنا دی

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کی جانے والی فلم جوائے لینڈ کے خلاف شکایات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے جو اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا یہ فلم معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف تو نہیں۔

واضح رہے کہ جوائے لینڈ فلم، جس نے مئی میں دنیا کے سب سے بڑے فلمی میلے ‘کانز’ میں ایوارڈ اپنے نام کیا تھا اور اب سرکاری طور پر پاکستان کی جانب سے آسکر ایوارڈ میں نامزد کی گئی تھی، سنسر سرٹیفیکیٹ جاری ہونے کے باوجود اب تک پاکستان میں ریلیز نہیں ہو سکی۔

تین دن قبل وزارت اطلاعات نے اس فلم کو جاری ہونے والا سنسر سرٹیفیکیٹ یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ اس میں ’انتہائی قابل اعتراض مواد‘ ہے۔

دوسری جانب فلم کے ہدایت کار صائم صادق نے وزارت اطلاعات کے اس ’اچانک یوٹرن‘ کو ’غیر آئینی اور غیر قانونی‘ قرار دیا ہے۔

فلم

وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق فم جوائے لیڈ کے خلاف شکایات موصول ہونے کے بعد وزیر قانون کی نگرانی میں آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں وزیر اطلاعات، وزیر برائے کمیونیکیشن، وزیر سرمایہ کاری، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور گلگت بلتستان سمیت چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بھی شامل ہوں گے۔

اس کمیٹی کو 15 نومبر یعنی منگل تک اپنی سفارشات پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

جوائے لینڈ فلم جس نے پاکستان میں ریلیز سے قبل دنیا میں نام کمایا

فلم

خیال رہے کہ پاکستانی ڈائریکٹر، رائٹر و اداکار صائم صادق کی فلم جوائے لینڈ کی کہانی ایک خواجہ سرا کی زندگی پر بنائی گئی ہے جس کو سرمد کھوسٹ اور اپوروا چرن نے پروڈیوس کیا ہے۔

اس میں لاہور کے محنت کش طبقے کے ایک شادی شدہ مرد اور ایک خواجہ سرا (ٹرانس جینڈر) کے درمیان بڑھتے ہوئے رشتے کو دکھایا گیا ہے۔

فلم میں ثروت گیلانی، ثانیہ سعید، علی جونیجو، ثناء جعفری، علینہ خان سمیت دیگر اداکاروں نے کام کیا۔

اس فلم کو حال ہی میں اس وقت بین الاقوامی شہرت ملی جب کینز فلم فیسٹیول میں جوائے لینڈ نے دو کیٹیگیریز میں ایوارڈز حاصل کیے جن میں ‘جیوری پرائز ان دی ان سرٹن ریگارڈ’ اور ‘کانز قیور پالم’ پرائز شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ‘جیوری پرائز ان دی ان سرٹن ریگارڈ’ کو اس فلمی میلے کادوسرا بڑا ایوارڈ تسلیم کیا جاتا ہے۔

فلم
رستی فاروق اور علی جنیجو

’وزارت چند انتہا پسندوں کے دباؤ میں آئی جنھوں نے فلم دیکھی ہی نہیں‘

تاہم اس فلم کے موضوع کی وجہ سے پاکستان میں دو مختلف آرا پائی گئیں۔ ایک جانب اس طرز کے موضوع پر فلم سازی اور اس کی بین الاقوامی کامیابی کو سراہا گیا تو دوسری جانب ایک طبقے نے اس فلم پر اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے جن میں گذشتہ چند دنوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔

صائم صادق کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہماری فلم کو اگست میں تین سنسر بورڈ نے دیکھا اور منظور کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد پاکستان کا آئین صوبوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی دیتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’وزارت اطلاعات چند انتہا پسندوں کے دباؤ میں آ گئی جنھوں نے ابھی تک فلم دیکھی بھی نہیں۔‘ ’یہ لوگ ہمارے وفاقی سنسر بورڈ کے فیصلے کو غیر متعلقہ بنا کر اس کا مزاق اڑا رہے ہیں۔‘

فلم
صائم صادق

صائم صادق نے لکھا کہ ’وفاقی وزارت اطلاعات نے سندھ اور پنجاب کو غیر آئینی طور پر اپنا فیصلہ قبول کرنے کا حکم دیا حالانکہ قانونی طور پر سندھ اور پنجاب میں فلم کے 18 نومبر کو ریلیز میں کوئی رکاوٹ نہیں۔‘

صائم صادق نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اس فلم کے لیے کئی لوگوں کی سالہا سال کی محنت اور خطیر سرمایہ خرچ ہوا جسے بے بنیاد افواہوں اور قانون پر اچانک حاوی ہونے جانے والے چند افراد کی وجہ سے ضائع نہیں کر دینا چاہیے۔‘

’ایک فلم ہماری اقدار کو کیسے خطرے میں ڈال سکتی ہے؟‘

اداکار ہمایوں سعید نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’جوائے لینڈ پہلی جنوبی ایشیا کی فلم ہے جس نے کانز فلم فیسٹیول میں ایوارڈ جیت کر ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔ یہ ہمارے ہی لوگوں کی کہانی ہے جسے ہمارے اپنوں نے یہاں کے لوگوں کے لیے لکھا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ فلم دیکھنے کے لیے دستیاب ہو گی۔‘

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

اس فلم پر جاری سوشل میڈیا بحث میں جہاں فنکاروں اور فلم ٹی وی کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں نے صائم صادق کا ساتھ دیا، وہیں سیاسی شخصیات کی جانب سے بھی ان کے حق میں بات کی گئی۔

حال ہی میں سینیٹ سے مستعفی ہونے والے مصطفی نواز کھوکھر نے لکھا کہ ’آخر نوے فیصد سے زائد مسلمانوں کے ملک میں اسلام کیوں خطرے میں رہتا ہے؟ ایک فلم ہماری اقدار کو کیسے خطرے میں ڈال سکتی ہے؟‘

ان کی ٹویٹ پر سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے جواب دیا کہ ’اس طرح کی زیادہ تر کمپین آپس کی بزنس مخاصمت ہوتی ہیں، ایک پارٹی پیسہ لگاتی ہے کہ دوسرے کی ریلیز میں دیر ہو جائے کیونکہ سینما سکرین محدود ہیں اور زیادہ تر لوگ وہ شامل ہوتے ہیں جنہیں پتہ ہی نہیں ہو گا کہ فلم ہے کیا۔ کمزور وزیر ہو تو دباؤ میں آ جاتا ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *