آسام میں مسلمان شہری کی لاش پر کودنے کی ویڈیو وائرل

آسام میں مسلمان شہری کی لاش پر کودنے کی ویڈیو وائرل: ’ہمارا معاشرہ خون کا پیاسا ہو گیا ہے

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں ‘غیر قانونی تجاوزات’ کے خلاف حکومتی کارروائی کے دوران تصادم میں ہلاک ہونے والے شخص کی لاش کی بےحرمتی کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہِے۔

آسام کے ضلع درانگ کے علاقے سیپا جھار میں جمعرات کو سینکڑوں مسلح پولیس اہلکار ایک بستی خالی کرانے کے لیے مامور کیے گئے تھے۔ جھونپڑیوں پر مشتمل اس بستی کے ہزاروں لوگوں نے زمین خالی کرانے کی اس مہم کے خلاف مزاحمت کی تھی اور اس موقع پر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔

ہلاک ہونے والوں کی شناخت صدام حسین اور شیخ فرید کے نام سے ہوئی ہے۔

اس تصادم سے متعلق ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہاتھ میں کیمرا لیے ایک شخص ہلاک ہونے والے شخص کی لاش پر کود رہا ہے۔ بعد میں سامنے آنے والی اطلاعات کے بعد معلوم ہوا کہ کودنے والا شخص ایک مقامی فوٹوگرافر ہے جس کی خدمات ضلعی انتظامیہ نے صورتحال کو ریکارڈ کرنے کے لیے حاصل کی تھیں۔

بی بی سی ہندی کے لیے کام کرنے والے صحافی دلیپ شرما کا کہنا ہے کہ پولیس حکام کے مطابق مذکورہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ آسام کے محکمۂ داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات گوہاٹی ہائیکورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قائم کمیٹی کرے گی۔

تاہم وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما نے گوہاٹی میں کہا ہے کہ تجاوزات ہٹانے کی مہم کو نہیں روکا جائے گا۔

کارروائی کے بارے میں تفصیلات دیتے ہوئے ضلع درنگ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سوشانت بسوا شرما نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے ضلعی انتظامیہ کے افسران کے ساتھ جمعرات کو اس سرکاری اراضی سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔

ان کے مطابق اس مہم کے دوران تجاوزات بنانے والوں نے احتجاج کرتے ہوئے پتھراؤ شروع کر دیا جس سے نو پولیس اہلکار اور دو عام شہری زخمی ہوئے۔ سوشانت شرما کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک پولیس اہلکار اسسٹنٹ سب انسپکٹر منیر الدین کو گوہاٹی میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے اور ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

ادھر ضلع درنگ میں موجود ‘کل آسام اقلیتی طلبہ یونین’ کے مشیر عین الدین احمد نے بی بی سی کو بتایا: ‘پانچ ہزار سے زائد لوگ حکومت کی جانب سے نکالی جانے والی مہم کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے’۔

’ضلعی انتظامیہ کے اہلکار لوگوں کے گھروں کو مسمار کر رہے تھے۔ اس دوران دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی اور پولیس نے فائرنگ کر دی۔ دو افراد ہلاک اور 20 سے زائد افراد زخمی ہو گئے’۔

آسام

سینکڑوں لوگ جن کے خلاف آسام کی حکومت نے ‘غیر قانونی تجاوزات’ کے نام پر بے دخلی کی مہم شروع کی ہے ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سب مسلمان ہیں۔ ایک معلومات کے مطابق سرکاری زمین خالی کرنے کے بعد سینکڑوں لوگوں نے دریا کے کنارے پناہ لی ہے۔

کارروائی کا پس منظر

بی بی سی اردو کے شکیل اختر کے مطابق آسام کی حکومت نے گزشتہ چند مہینوں سے ایسی بہت سی کچی بستوں کو خالی کرانے کی مہم چلا رکھی ہے۔ حکومت وہاں مقیم افراد کو ‘درانداز’ کہتی ہے ۔ اس طرح کے لاکھوں بے زمین اور غریب لوگ آسام کے مختلف شہروں میں جگہ جگہ آباد ہیں۔

گزشتہ جون میں بارپیٹا کے رکن پارلیمان عبد الخالق نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے ایک خط میں ہوجئی اور سونت پور اضلاع میں زمینیں خالی کرانے کی اسی طرح مہم کا ذکر کرتے ہوئے گھر کے بنیادی حقوق کا حوالہ دیا تھا اور درخواست کی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی پناہ کے حقوق اور انڈیا کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے انسانوں کو متبادل پناہ گاہ فرام کرے ۔

آسام میں دریائے برہم پترا ملک کے بڑے دریاؤں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ ریاست سے گزر کر بنگلہ دیش میں داخل ہو تا ہے۔ جون جولائی ، اگست اور ستمبر میں مون سون کی بارشوں کے موسم میں تقریبآ ہر برس دریا کا پانی سیلابی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بالائی اور نشیبی آسام سے گزرتے ہوئے برہم پترا سیکڑوں دریائی جزیرے بنا دیتا ہے۔

دو ہزار تین کے ایک سروے کے مطابق ریاست میں اس وقت 2251 دریائی جزیرے تھے جن میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ آباد تھے ۔ یہ جزیرے موسمِ سرما کے دنوں میں پانی سے ابھر کر اوپر آ چاتے ہیں اور انتہائی زرخيز ہوتے ہیں جبکہ بارش کے دنوں میں ان میں سے بہت سے جزیرے ڈوب جاتے ہیں۔

آسام

ریاست کے ایک رکن اسمبلی عبدالباطن نے بی بی سی کو بتایا کہ انسانی آبادی کے دباؤ اور ماحولیاتی تبدیلی سے آسام کی دس قیصد زمین دریائی کٹاؤ کے سبب کم ہو گئی ہے اور اس وجہ سے ریاست کی تقریبآ 35 لاکھ آبادی اپنی زمین سے بےدخل ہو گئی ہے جن میں سے بیشتر دریائی جزیروں کے باشندے ہیں۔ یہ باشندے کٹاؤ کے بعد نزدیک کی خالی پڑی ہوئی سرکاری ملکیت کی زمینوں پر اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔

عبدالباطن کا دعویٰ ہے کہ ’ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ آبادی بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی ہے جن کی غالب اکثریت ناخواندہ ہے۔ کانگریس کے زمانے میں انھیں سرکاری زمینوں سے بے دخل نہیں کیا جاتا تھا لیکن زمین ان کے نام الاٹ بھی نہیں کی جاتی تھی۔ اب حکومت انھیں ان زمینوں سے بے دخل کر رہی ہے جبکہ یہ ریاست کے جائز بشندے ہیں اور سبھی کے پاس شہریت کے مطلوبہ دستاویزات موجود ہیں۔‘

تاہم آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بشو شرما دریائی کٹاؤ کے ان لاکھوں متاثرین کو ‘درانداز’ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ زمینیں خالی کرانے کے بعد وہ ان زمینوں کو ریاست کے ‘اصل باشندوں’ میں تقسیم کر دیں گے۔

حزب اختلاف کانگریس کے رکن اسمبلی عبدالباطن کہتے ہیں این آرسی کے بعد اب یہ ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ’آسام کو فرقہ پرست سیاست کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اتنا بےبس اور لاچار کر دیا جائے کہ یہ آواز نہ اٹھا سکیں۔‘

سوشل میڈیا پر رد عمل

اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد انڈین سوشل میڈیا پر شدید نوعیت کا رد عمل سامنے آیا ہے جس میں اکثریت لوگوں نے فوٹوگرافر کے عمل کی مذمت کی ہے۔

’تجزیہ کار انکر بھردواج تبصرہ کرتے ہیں کہ ’ایک فوٹو جرنلسٹ کا ایک مردہ شخص پر کودنا جسے ابھی سکیورٹی فورسز والوں نے قتل کیا ہو، یہ بالکل اسی بات کے برابر ہے جیسا ہم نیوز اینکرز کو گذشتہ کئی سالوں سے سٹوڈیو میں کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ایک موت کا رقص۔‘

شیو سینا سے تعلق رکھنے والی رکن راجیہ سبھا پریانکا چتورویدی نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’ابھی ابھی انتہائی ہولناک اور دردناک ویڈیو دیکھی آسام سے۔ ہم ایک خون کا پیاسا معاشرہ بن چکے ہیں۔ اس شہری کے ساتھ جو رویہ برتا ہے اس کیمرا مین نے، پولیس نے، یہ کوئی اور نہیں یہ ہم میں سے ہی ہیں۔ ہمیں بحیثیت ایک قوم وقفہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ سوچ بچار کر سکیں اور اس بات کا احساس کریں کہ ہمارا وطن سب کے ساتھ برابری کا وعدہ کرتا ہے۔‘

صحافی روہنی سنگھ نے بھی اسی طرز کا تبصرہ لکھا اور کہا کہ ’نوئڈا میں بیٹھے ہمارے خون کے پیاسے اینکرز نے اقلیتوں کے خلاف اس قدر نفرت بھر دی ہے کہ انھوں نے متاثرہ افراد کی انسانیت بھی چھین لی ہے اور ان کی جو نفرت پر مبنی جرائم کرتے ہیں۔ آج جو ہولناک مناظر ہم نے آسام میں دیکھے یہ اسی زہر کا نتیجہ ہیں۔ یہ نفرت کسی بھی نہیں بخشے گی۔

صارف جوئے داس نے بھی اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’یہ صرف آسام میں نہیں ہے۔ یہ آپ کا پڑوسی ہے جسے آپ سلام کرتے ہیں۔ یہ آپ کا ساتھی ہے۔ یہ آپ کے سکول اور کالج کے واٹس ایپ گروپ میں ہے۔ یہ ایک انفرادی شخص نہیں ہے۔ یہ ہر جگہ پر موجود ہے۔ آپ اسے روزانہ دیکھتے ہیں۔ یہ ’نئے انڈیا‘ کا پراڈکٹ ہے۔‘

کانگریس کی حکومت پر تنقید

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اس معاملے پر ٹویٹ کرکے پولیس کی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انھوں نے لکھا ‘آسام میں حکومت کی نگرانی میں آگ لگی ہے۔ میں ریاست میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انڈیا کے کسی بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘

اس کے ساتھ ہی آسام پردیش کانگریس کے صدر بھوپن بورا نے پولیس کی جانب سے تجاوزات قائم کرنے والوں پر فائرنگ کو وحشیانہ فعل قرار دیا ہے۔

کانگریس لیڈر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کووِڈ کی وبا کے اس بحران کے دوران گوہاٹی ہائی کورٹ نے بے دخلی کی مہم کو معطل کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن وزیر اعلیٰ ہمنت بسوا سرما کی من مانی کی وجہ سے دھول پور میں 1970 سے آباد لوگوں سے زمین خالی کرا دی گئی۔

انھوں نے کہا کہ لوگوں کے بے دخل کرنے سے پہلے حکومت کو ان لوگوں کو دوسری جگہ آباد کرنے کا انتظام کرنا چاہیے تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *