کیا جواہر لعل نہرو نے انڈیا کو سلامتی کونسل

کیا جواہر لعل نہرو نے انڈیا کو سلامتی کونسل

کیا جواہر لعل نہرو نے انڈیا کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا؟

انڈین ریاست اروناچل پردیش میں توانگ سیکٹر کے یانگتسے علاقے میں 9 دسمبر کو چینی اور انڈین فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے بعد دو دن تک حکومت کی خاموشی پر ملک میں حزبِ اختلاف نے سوال پوچھنے شروع کر دیے ہیں۔

اپوزیشن جماعت کانگریس سمیت دیگر پارٹیاں سوال پوچھ رہی ہیں کہ حکومت اس جھڑپ کے بارے میں دو دن تک خاموش کیوں رہی۔

تاہم، منگل کو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں حکومت کا موقف پیش کیا، جب کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے پورے معاملے میں کانگریس کے موقف پر سوال اٹھائے۔

امیت شاہ نے چین کے حوالے سے کانگریس کی پالیسی پر سوالات اٹھاتے ہوئے ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو بھی نشانے پر رکھ لیا۔ امیت شاہ نے یہاں تک کہا کہ سلامتی کونسل میں انڈیا کی مستقل رکنیت نہرو کی محبت کی وجہ سے قربان ہوئی۔

تو کیا واقعی نہرو کی وجہ سے انڈیا کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت نہیں ملی تھی؟

گزشتہ برسوں میں چین کئی بار سلامتی کونسل میں انڈیا کی قرارداد کو ویٹو کر چکا ہے۔ چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔

چین کے اس رویے پر انڈیا مایوسی کا اظہار کرتا رہا ہے جب کہ حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس اس کے لیے مودی حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے۔

فائل فوٹو نہرو
نہرو انڈیا کے پہلے وزیر اعظم تھے

بی جے پی ماضی میں بھی کانگریس کے موقف پر اعتراض کرتی رہی ہے

سابق وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ایک بار اپنی پریس کانفرنس میں ‘دی ہندو’ کی 9 جنوری 2004 کی رپورٹ کی کاپی دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی نشست لینے سے انکار کر دیا تھا اور یہ چین کو دیدی گئی تھی۔

دی ہندو کی رپورٹ میں کانگریس کے رہنما ششی تھرور کی کتاب ’نہرو – دی انونشن آف انڈیا‘ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ اس کتاب میں ششی تھرور نے لکھا ہے کہ 1953 کے آس پاس انڈیا کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی تجویز موصول ہوئی تھی لیکن یہ چین کو دے دی گئی۔

تھرور نے لکھا ہے کہ انڈین سفارت کاروں نے وہ فائل دیکھی تھی جس پر نہرو کے انکار کا ذکر تھا۔ تھرور کے مطابق نہرو نے تائیوان کے بعد اقوام متحدہ کی نشست چین کو دینے کی وکالت کی تھی۔

دراصل روی شنکر پرساد یہ کہنا چاہتے تھے کہ آج اگر چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے تو وہ نہرو کی وجہ سے ہے اور اس کا خمیازہ انڈیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اب یہی الزام مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دہرایا ہے۔

تاہم، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جو لوگ اس نکتے پر نہرو پر تنقید کرتے ہیں وہ بہت سے حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا قیام 1945 میں ہوا تھا اور اس سے وابستہ تنظیمیں جب ایک شکل اختیار کر ہی رہی تھیں۔ تب انڈیا ابھی آزاد بھی نہیں ہوا تھا۔

فائل فوٹونہرو
اس وقت کی سیاست سے نہرو کا خیال تھا کہ بڑی طاقتوں کو اپنے دوستوں سے دور نہیں رہنا چاہیے

ستمبر 1955 کو نہرو نے پارلیمنٹ میں واضح طور پر اس بات کو مسترد کیا تھا کہ انڈیا کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی کوئی غیر رسمی پیشکش موصول ہوئی تھی۔

27 ستمبر 1955 کو، ڈاکٹر جے این پاریکھ کے سوالات کے جواب میں ، نہرو نے پارلیمنٹ میں کہا تھا ’اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے رسمی یا غیر رسمی طور پر کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی۔’کچھ مشکوک حوالے دیےجا رہے ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔ ‘

اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی تشکیل اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کی گئی تھی اور بعض ممالک کو اس میں مستقل رکنیت ملی۔ چارٹر میں ترمیم کے بغیر کوئی تبدیلی یا نیا ممبر نہیں بنایا جا سکتا۔ ایسے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انڈیا کو مستقل رکنیت کی پیش کش کی گئی اور انڈیا نے لینے سے انکار کر دیا‘۔

سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بھی ایک بار جواہر لال نہرو پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لیے چین کی حمایت کا الزام عائد کیا تھا۔

ارون جیٹلی کا کہنا تھا کہ نہرو نے انڈیا کے بجائے چین کا ساتھ دیا تھا۔ جیٹلی نے کہا تھا کہ ایک ہی شخص نے چین اور کشمیر کے حوالے سے بڑی غلطیاں کیں۔ ایک ٹوئٹ میں ارون جیٹلی نے 2 اگست 1955 کو وزرائے اعلیٰ کو نہرو کی جانب سے لکھے گئے خط کا حوالہ دیا تھا۔

جیٹلی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا، ’2 اگست 1955 کو نہرو نے وزرائے اعلیٰ کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں نہرو نے کہا تھا ’امریکہ نے غیر رسمی طور پر کہا ہے کہ چین کو سلامتی کونسل میں نہیں اقوام متحدہ میں لیا جانا چاہیے او انڈیا کو سلامتی کونسل میں جگہ ملنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ہم اسے قبول نہیں کر سکتے۔ سلامتی کونسل میں چین کا شامل نہ ہونا چین کے ساتھ ناانصافی ہوگی‘۔

ویڈیو کیپشن,تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

تاریخ کیا کہتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ 1950 کی دہائی میں انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کی شمولیت کا بڑا حامی تھا۔ تب یہ نشست تائیوان کے پاس تھی۔

1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے ظہور کے بعد سے، چین کی نمائندگی چیانگ کائی شیک کی رپبلِک آف چائنا نے کی تھی نہ کہ ماؤ کی عوامی جمہوریہ چین نے۔ اقوام متحدہ نے یہ نشست پیپلز ریپبلِک آف چائنا کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ششی تھرور نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تھے جنہوں نے پیپلز ریپبلِک آف چائنا کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن بننے کی وکالت کی تھی۔ نہرو نے پیپلز ریپبلِک آف چائنا کی حمایت کی؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نہرو نے 1950 کی دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے پیش نظر ماؤ کو خوش کرنے کے لیے ایسا کیا۔

دوسروں کا کہنا ہے کہ ایشیائی اقوام کے درمیان اتحاد کے لیے نہرو نےحد سے زیادہ جوش میں ایک غلط داؤ کھیلا تھا کیونکہ دونوں ممالک کی تاریخ بتاتی ہے کہ چین اور انڈیا اس تاریخی سفر میں ساتھی رہے ہیں۔

بہت سے لوگ اسے بین الاقوامی تعلقات میں مثال قائم کرنے کی کوشش اور حقیقت کے بارے میں نہرو کے جائزے کو نا تجربے کاری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ طاقت اہمیت رکھتی ہے اور اس کے لیے سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

’دی ڈپلومیٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا، ’حالانکہ جن لوگوں نے یہ دلیل پیش کی، وہ اقوام متحدہ میں پیپلز ریپبلِک آف چائنا کی حمایت کرنے کی نہرو کی وجوہات کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ وہ نہیں جانتے کہ نہرو نے تاریخ کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے اور قوموں کے درمیان طاقت کا توازن ان کے لیے بہت اہم تھا۔

’دی ڈپلومیٹ ‘نے لکھا ہے، ’نہرو کے موقف کو سمجھنے کے لیے 20ویں صدی میں واپس جانا ہوگا۔ اس وقت کی سیاست سے نہرو کا خیال تھا کہ بڑی طاقتوں کو اپنے دوستوں سے دور نہیں رہنا چاہیے بلکہ بین الاقوامی اداروں میں شامل ہونا چاہیے۔

فائل فوٹو جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی

نہرو کا خیال تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا تھا، اور یہ کہ ذلت کے احساس اور اس کے بائیکاٹ نے اسے ایک اور ناراض ملک، یو ایس ایس آر کے قریب کر دیا تھا۔

نہرو کا خیال اس حقیقت کے بارے میں واضح تھا کہ چین کوئی عام طاقت نہیں ہے۔ دی ڈپلومیٹ میں، ساؤتھ ایشین یونیورسٹی میں عالمی امور کے شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر نابارون رائے نے لکھا، ’اپریل 1922 میں، جرمنی نے روس کے ساتھ ریپالو معاہدے پر دستخط کیے، جس سے یورپ میں کشیدگی بڑھ گئی۔ لیکن برطانیہ نے وقت کے ساتھ 1926 میں لیگ آف نیشنز کا رکن بننے میں اس کی مدد کی۔ اس کے باوجود گریٹ ڈپریشن نے اسے دوبارہ عالمی استحکام کے لیے خطرہ بنا دی۔

نہرو پر واضح تھا کہ عوامی جمہوریہ چین کوئی عام طاقت نہیں ہے۔ اس لیے اسے عالمی سیاست میں ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ بعد میں غیر متوقع طور پر خطرناک ہو سکتا ہے۔ سلامتی کونسل میں چین کی مستقل رکنیت پر نہرو کے موقف کی وجہ یہ سب سے بڑی دلیل تھی۔ رائے نے لکھا، ’نہرو کا خیال تھا کہ نئے چین کی وجہ سے نہ صرف مشرق میں بلکہ پوری دنیا میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے۔ اس لیے چین کو عالمی سیاست میں جگہ نہ دینا نہ صرف احمقانہ بلکہ خطرناک تھا۔ نہرو کا خیال تھا کہ اگر چین کو اقوام متحدہ میں نہ رکھا گیا تو اقوام متحدہ کے فیصلوں کا چین پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘۔

فائل فوٹو نہرو
’نہرو کا خیال تھا کہ نئے چین کی وجہ سے نہ صرف مشرق میں بلکہ پوری دنیا میں طاقت کا توازن بدل گیا ہے

انڈیا کی خواہش

عالمی سیاست میں کہا جاتا ہے کہ جیسے جیسے کوئی ملک طاقتور ہوتا ہے، اس کے عزائم بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ انڈیا بھی اس معاملے میں کچھ مختلف نہیں رہا۔ حالیہ دنوں میں اس کی عسکری اور معاشی طاقت میں اضافہ ہوا ہے، ایسے میں اس کی عالمی سیاست میں بڑا کردار ادا کرنے کی خواہش بھی بڑھ گئی ہے۔

ان میں سے ایک یہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے انڈیا مسلسل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا مطالبہ کر رہا ہے۔

انڈیا کے رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت دنیا بھر کے مختلف فورمز پر اس کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں تاکہ مستقل رکن کے طور پر انڈیا کی اہلیت کا اظہار بین الاقوامی برادریوں کے سامنے ہو۔

ان کوششوں کے نتائج بھی مکمل طور پر مایوس کن نہیں رہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس جیسے بڑے طاقتور ممالک نے کئی مواقع پر انڈیا کی رکنیت کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے۔

حالانکہ چین اس کی سخت مخالفت کرتا رہا ہے۔ حالیہ پیش رفت پر نظر ڈالی جائے تو حیرت کی بات بھی نہیں کیونکہ بعض مواقع پر دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آئی ہے۔

دونوں کی ایک طویل متنازع سرحد ہے اور 2017 میں ہی دونوں ممالک کے درمیان ڈوکلام میں جھڑپیں اور پھر جنگ بندی جیسے حالات پیدا ہوئے تھے۔ انڈیا اور چین جنوبی ایشیائی اور بحر ہند کے خطوں میں قدم جمانے کے لیے اسٹریٹجک اڈوں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *