کوئٹہ میں سات سال کی بچی نے اپنے بہن بھائیوں

کوئٹہ میں سات سال کی بچی نے اپنے بہن بھائیوں

کوئٹہ میں سات سال کی بچی نے اپنے بہن بھائیوں کے قتل کے ملزم کو ’تصویر سے پہچان لیا

سات سال کی بچی، گلا کٹنے سے شدید زخمی ہونے کے باعث بول تو نہیں سکتی تھی لیکن ہوش میں آنے کے بعد ان کی یادداشت بحال ہو گئی۔

جب پولیس اہلکاروں نے انھیں بعض لوگوں کی تصاویر دکھائیں تو انھوں نے اس شخص کو فوراً پہچان لیا جس نے مبینہ طور پر ان کا گلا کاٹ دیا تھا۔

ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس کوئٹہ اظہر اکرام نے بتایا کہ جب اس بچی نے ملزم کی تصویر دیکھی تو انھوں نے نہ صرف اس تصویر کی جانب ہاتھ سے اشارہ کیا بلکہ اس کے ساتھ اپنے گلے پر ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ کیسے ان کا گلا ایک چاقو سے کاٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔

بچی اس خوفناک منظر کی واحد چشم دید گواہ ہیں جب ایک شخص نے ان کے گھر میں داخل ہونے کے بعد ان سمیت چار بچوں کے گلے کاٹے تھے۔ یہ واقعہ تقریباً دو ہفتے قبل پیش آیا تھا۔

پولیس کے مطابق چاروں بچوں کے گلے کاٹنے کے بعد قاتل وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔ وہ شاید اس بات پر مطمئن ہو گا کہ بچوں میں سے کوئی زندہ نہیں ہو گا جبکہ کسی اور نے انھیں جرم کرتے دیکھا بھی نہیں تھا۔

یہ کہانی ہے ان چار بہن بھائیوں کی جنھیں کوئٹہ کے علاقے سریاب میں ان کے گھر میں گلے کاٹ کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ان میں سے تین ہلاک ہو گئے جبکہ چوتھی بچی کو تشویشناک حالت میں سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا تھا۔

بچوں کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کے تین پھول اجاڑ دیے گئے ہیں اور یہ ایسا غم ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کا خاندان چاہتا ہے کہ ’اللہ کسی کے دشمن کو بھی ایسے غم سے دوچار نہ کرے۔‘

چاقو

یہ کیس کوئٹہ پولیس کے لیے بڑا چیلنج

کمسن بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے باعث لوگوں میں خوف کی لہر دور گئی تھی کیونکہ کوئٹہ شہر میں رواں سال دو ماہ کے مختصر عرصے میں گلے کاٹنے کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔

اس سے قبل کینٹ پولیس سٹیشن کی حدود میں دو بچیوں اور ان کے والد کی ہلاکت گلا کاٹنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

کینٹ میں پیش آنے والے واقعے میں پولیس کے مطابق ایک خاتون نرس نے اپنے شوہر اور دو بچیوں کا گلا کاٹنے کے بعد خودکشی کی کوشش کی تھی لیکن اس کو بچا لیا گیا تھا۔

چونکہ خاتون نے واقعے کے چند گھنٹے بعد ہوش میں آتے ہی سب کچھ بتا دیا تھا اس کے باعث پولیس کو اس واقعے کے حوالے سے زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔

لیکن سریاب کے علاقے میں تین بچوں کی ہلاکت اور ایک کو زخمی کرنے کے ملزم کے حوالے سے فوری طور پر ٹھوس شواہد نہیں تھے کیونکہ زخمی بچی کی حالت تشویشناک تھی اور وہ بے ہوش تھی جبکہ ملزم کو گھر میں آتے اور جاتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا تھا جس کی وجہ سے ملزم کی نشاندہی اور گرفتاری ایک بڑا چیلنج تھا۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس نے جو پریس کانفرنس کی اس میں ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ کیس پولیس کے لیے بڑا چیلنج تھا۔

تصویر کے ذریعے نشاندہی کا ملزم کی گرفتاری میں اہم کردار

ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ پولیس نے واقعے کے بعد گھر کا جائزہ لیا تھا اور گھر کی اونچی دیواریں دیکھ کر یہ اندازہ لگایا تھا کہ ملزم گھر کے اندر دروازے سے ہی داخل ہوا ہو گا کیونکہ ان اونچی دیواروں کو پھلانگنا آسان نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تو بچوں کے والدین اور ان کی ملازمہ گھر سے باہر تھیں جس پر یہ اندازہ ہوا تھا کہ بچوں نے دروازہ کسی واقف شخص کے لیے کھولا ہو گا۔

چونکہ گرفتار ملزم کا بچوں کے گھر آنا جانا تھا جس پر والدین سے ابتدائی معلومات اور دیگر شواہد کی روشنی میں ایس ایچ او عبد الحئی بنگلزئی کی سربراہی میں نیوسریاب پولیس کی ایک ٹیم نے ان کی گرفتاری کے لیے کوئٹہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور سبی میں چھاپہ بھی مارا تھا لیکن اس وقت ان پر شک ہی تھا۔

لیکن بچی کو تصاویر دکھانے کے بعد پولیس کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ ملزم ہی اس واقعے میں ملوث ہے۔

ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ تحقیقات کی روشنی میں بعض افراد کی تصاویر جب بچی کو دکھائی گئیں تو وہ زخمی ہونے کی وجہ سے بول نہیں سکتی تھیں لیکن جب انھوں نے ملزم کی تصویر دیکھی تو اشارے سے بتایا کہ انھوں نے ان کے گلے کاٹے تھے۔

ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ ملزم جوان ہے اور ان کا تعلق سبی سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات اور بچی کی جانب سے ملزم کی تصویر کی نشاندہی کے بعد ملزم کو گرفتار کر لیا گیا جس نے گرفتاری کے ساتھ ہی اعتراف جرم کر لیا۔

بچی قتل

،تصویر کا ذریعہTHINKSTOCK

ابتدائی طور پر عدالت سے ملزم کا تین روزہ ریمانڈ حاصل کیا گیا تھا لیکن اعتراف جرم اور شناخت پریڈ میں بچی کے ملزم کو پہچاننے کے بعد ان کے مزید ریمانڈ کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

نیوسریاب تھانے کے ایس ایچ او عبد الحئی بنگلزئی نے بتایا کہ ملزم کو مجسٹریٹ کی موجودگی میں شناخت پریڈ کے لیے سول ہسپتال میں بچی کے پاس لے جایا گیا جہاں بچی نے ان کو پہچان لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شناخت پریڈ میں نشاندہی اور ضابطہ فوجداری کے دفعہ 164 کے تحت اعتراف جرم کے بعد ملزم سے مزید تفتیش کی ضرورت نہیں تھی اس لیے عدالت نے ان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔

والدین ملزم کو پہلے سے جانتے ہیں

ایس ایچ او نیو سریاب پولیس نے بتایا کہ ملزم کی عمر 27 سال ہے اور وہ ٹیکسی چلاتا تھا۔ بچے اور ان کے والدین کو پک اینڈ ڈراپ دینے کے باعث فیملی کی ان سے واقفیت ہو گئی تھی۔ ‘بچوں کی والدہ نے ملزم کی منگنی بھی کہیں کرائی تھی۔‘

ایس ایچ او کے مطابق چونکہ ملزم کی علیک سلیک بچوں کے والدین سے بہت زیادہ تھی اس کی وجہ سے بچے ملزم کو ماموں کہہ کر پکارتے تھے۔

ایس ایچ او عبد الحئی بنگلزئی نے بتایا کہ کسی وجہ سے ملزم کی بچوں کے والدین سے چپلقش پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے ملزم کو جو کرایہ ملتا تھا اسے بھی بند کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس چپلقش کی وجہ سے ملزم اشتعال میں آ گیا تھا جس کے باعث وہ ’بچوں کی والدہ کو مارنا چاہتا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ملزم پہلے بچوں کی والدہ کو مارنے کے لیے بازار گیا تھا تاہم وہاں خاتون کے نہ ملنے کے بعد وہ انھیں مارنے کے لیے سریاب میں ان کے گھر آ گیا لیکن گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ مبینہ طور پر چاروں بچوں کے گلے کاٹ کر وہاں سے فرار ہو گیا۔

بچوں کو مارنے کا واقعہ 15 مارچ کی شام کو پیش آیا تھا۔ پولیس کے مطابق کام کاج کی غرض سے جب والد اور والدہ دونوں گھر سے باہر نکلتے تھے تو بچوں کو ملازمہ کے ساتھ چھوڑتے تھے۔

ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ وقوعہ کے روز جس وقت ملزم گھر پہنچا تو ملازمہ بھی گھر پر موجود نہیں تھی بلکہ وہ تھوڑی دیر پہلے کسی کام سے باہر نکل گئی تھی۔

ابتدائی طور پر وقوعہ کے وقت گھر میں موجود نہ ہونے پر ملازمہ پر بھی اس واقعے میں ملوث ہونے کے حوالے سے شبہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ملازمہ اس میں ملوث نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *