چیف جسٹس کا حلف سرینا عیسیٰ کی سٹیج پر موجودگی

چیف جسٹس کا حلف سرینا عیسیٰ کی سٹیج پر موجودگی

چیف جسٹس کا حلف سرینا عیسیٰ کی سٹیج پر موجودگی تاریخ کا شارٹ اور سویٹ انتقام

جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اتوار کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے 29ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا تو ان کے ساتھ ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ بھی کھڑی تھیں۔

ایوان صدر میں اس تقریب حلف برداری کے دوران سٹیچ پر سرینا عیسیٰ کی موجودگی بحث کا موضوع بنی جسے بعض لوگ ایک نئی روایت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

یہ تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں کہ چند سال قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سرینا عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اثاثوں سے متعلق ریفرنس کی کارروائی کے دوران ایک مشکل وقت گزارا اور تب بھی دونوں اسی طرح ایک ساتھ تھے جیسے آج۔

سوشل میڈیا پر کچھ صارفین کے خیال میں یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے بہت واضح پیغام تھا، ان لوگوں کے لیے جو انھیں راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔

نئے چیف جسٹس کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے ’نئی روایت قائم کی‘

تقریب حلف برداری میں موجود کورٹ رپورٹر عدیل سرفراز نے بی بی سی کو بتایا کہ جب فیروزی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس سرینا عیسیٰ ایوان صدر کے اقبال ہال میں داخل ہوئیں تو انھیں پہچاننا قدرے مشکل تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سرینا عیسیٰ کے ہاتھ میں چھڑی تو ضرور موجود تھی مگر آج وہ کمزور نہیں بلکہ کمانڈنگ پوزیشن میں دکھائی دے رہی تھیں۔‘

عدیل سرفراز کہتے ہیں کہ تقریب حلف برداری کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ سرینا عیسیٰ کا ہاتھ پکڑ کر ہال میں گھوم پھر رہے تھے۔

حلف کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاس گئے اور انھیں نیا منصب سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی۔

نظام انصاف اور پارلیمانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے احمد بلال محبوب کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف لیتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے ’روایت توڑی ہے۔‘ تاہم انھیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ عمل بہت پسند آیا۔

انھوں نے نئے چیف جسٹس کا اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے یہ ٹھوس پیغام دیا ہے کہ خواتین ’ہماری برابر کی ساتھی ہیں اور ان کی یہ حیثیت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس سمیت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے لیے حلف لینا ایک آئینی تقاضا ہے۔

ایڈووکیٹ عمران شفیق کے مطابق ہر طرح کے عہدے کے حلف میں یہ باتیں مشترکہ ہوتی ہیں کہ حلف لینے والا یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کے ساتھ وفادار رہے گا اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو بلا خوف اور غرض نبھائے گا۔

ان کے مطابق جب کوئی بھی شخص آئینی عہدے پر فائز ہوتا ہے تو وہ عوام کے اس مینڈیٹ کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے۔ صدر مملکت ایسی شخصیات سے حلف لیتے ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی کی مدت تو ختم ہو چکی ہے مگر یہ حسین اتفاق ہے کہ ماضی میں جس جج کے خلاف ان کی منظوری سے ریفرنس بھیجا گیا، آج وہ ان سے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لے رہے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حلف کے معاملے میں اتنے حساس ہیں کہ متعدد بار عدالت میں مختلف افسران اور اہلکاروں کو بھی ان کا حلف یاد کراتے رہتے ہیں۔ فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران بھی انھوں نے عسکری افسران سے ان کے حلف کو دوبارہ پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔

نئے چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری نے سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔

تین دہائیوں سے سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا کہ ’ایک خاتون کو صرف اس لیے سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا کہ اس کا شوہر ایک جج تھا۔

’آسمان پر بیٹھے جن ججوں کے سامنے وہ کٹہرے میں کھڑی اوپر دیکھتے اپنا کیس لڑ رہی تھی، آج وہ جج زمین پر بیٹھے تھے اور وہ خاتون آسمان سے انھیں جھانک رہی تھی۔‘

ان کے مطابق ’سرینا عیسی کا حلف برداری کے دوران سٹیج پر موجود ہونا تاریخ کا ایک شارٹ اور سویٹ انتقام تھا۔۔۔ جنھوں نے جسٹس عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف میڈیا ٹرائل کیا اور ناکام ہوئے۔‘

مطیع اللہ کے مطابق ’سرینا عیسی کی سٹیج پر موجودگی پاکستان کی کروڑوں خواتین کی جدوجہد کو بھی ایک خراجِ عقیدت ہے جو اپنے حق اور اپنے شریکِ حیات کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہتی ہیں۔‘

ایکس پر احمد نامی صارف کی رائے میں ’ایک وقت تھا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے چِلا اٹھی تھیں۔ اور ایک آج کا دن ہے کہ جہاں جسٹس قاضی چیف جسٹس کے منصب کا حلف اٹھا رہے ہیں اور ان کی اہلیہ ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔‘

ان کے مطابق دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’جسٹس عیسیٰ نے دیگر ججز کو اپنی غیرت دکھائی ہے، جو ان کی اہلیہ کو عدالتی کارروائی میں گھسیٹ کر لے آئے تھے۔ یا پھر یہ کہ یہ وفا ہے جو جسٹس عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ دکھائی ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے تبصرہ کیا کہ ’واہ! کیا تصویر اور میسج ہے، ایک کامیاب مرد کے ساتھ ایک عورت ضرور ہوتی ہے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’عورت کی قدر کیجیے، تمام رشتوں کی وجہ سے نہیں،عورت بحیثیت عورت باعث اعزاز ہے۔ قاضی صاحب، سرینا عیسیٰ صاحبہ آپ کو بہت مبارکباد۔‘

ادھر سابق وزیراعظم عمران خان کی اس وقت قانونی ٹیم کے ایک رکن نعیم حیدر پنجوتھا نے اپنے ایک ٹویٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کو درپیش چیلنجز پر بھی بات کی ہے۔

وکیل نعیم حیدر کے مطابق نئے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو ختم کرنا ہو گا، آئین، قانون اور بنیادی حقوق کی بحالی اور ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ’اسی طرح 90 دن میں الیکشن کی تاریخ دینا اور اس پر عمل کرانا ایک چیلنج ہو گا۔‘

مئی 2019 کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف بیرون ممالک اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے جنوری 2023 میں سپریم کورٹ نے خارج کیا۔

اس دوران سرینا عیسیٰ نے دسمبر 2021 میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ انھیں کراچی میں اپنے گھر میں مبینہ طور پر فوج اور وزارت داخلہ کے محکمہ انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے ہراساں کیا۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی بیٹی ان کے ساتھ تھیں۔

اس سے قبل جولائی سنہ 2020 میں بھی سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر کو اپنا تحریری جواب جمع کراتے ہوئے ایسے ہی الزامات عائد کیے تھے کہ نہ صرف ان کو ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف پروپیگنڈا بھی ہو رہا ہے اور ان کی تضحیک بھی کی جا رہی ہے۔

سرینا عیسیٰ کی جانب سے چھ صفحات پر مشتمل جمع کروائے گئے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ 25 جون کو اُنھوں نے ایف بی آر کی طرف سے نوٹس وصول نہیں کیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس روز ان کے والد کی وفات ہوئی تھی۔

سپریم کورٹ نے نظرثانی کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے اور ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے لکھا کہ جسٹس قاضی عیسیٰ اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا۔

اسی فیصلے میں جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے (سابق) چیئرمین بیرسٹر شہزاد اکبر اور وزیرِ قانون فروغ نسیم کی غیر قانونی ہدایات پر ٹیکس حکام نے سرینا عیسیٰ کے مقدمے میں ٹیکس سے متعلق رازداری کے حق کو بھی واشگاف طور پر پامال کیا ہے۔

جسٹس آفریدی نے لکھا تھا کہ اس عدالت کی جانب سے ان افراد کے اقدامات کو متفقہ طور پر غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود ان کو عہدے پر برقرار رکھنا محترم وزیر اعظم (عمران خان) کے ان خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کو واضح کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *