مکیش امبانی ایشیا کے امیر ترین شخص کے گھر کے باہر بارود سے بھری گاڑی کون کھڑی کر گیا؟
25 فروری کی صبح ایک بارود سے بھری گاڑی ایشیا کے امیر ترین شخص مکیش امبانی کے ممبئی میں واقع گھر کے باہر پائی گئی۔
کچھ دن بعد اس گاڑی کے مبینہ مالک کی لاش انڈیا کے تجارتی مرکز کے قریب سمندر میں سے ملی اور اس شخص کو مبینہ طور پر جاننے والے ایک پولیس افسر کو گرفتار کر لیا گیا۔
وفاقی تفتیش کار اب اس معمے کو حل کر رہے ہیں کیونکہ اب یہ ایک ایسی کہانی بن چکا ہے جس کے کئی سرے تھے۔
ممبئی پولیس کے مطابق 25 فروری کو امبانی کے 27 منزلہ عالی شان گھر اینٹیلیا کے سکیورٹی سٹاف نے ایک سبز رنگ کی کی انڈین ساختہ سکورپیو ایس یو وی کو گھر کے قریب کھڑے دیکھا اور پولیس کو اطلاع دی۔
پولیس بم ناکارہ بنانے والے عملے کے ساتھ وہاں پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے کر اس خالی گاڑی کا معائنہ کیا گیا۔
گاڑی میں سے دھماکہ خیز مادے جیلگنائٹ کی 20 ڈنڈیاں ملیں جن کا وزن تقریباً ڈھائی کلو تھا۔ یہ بم سویڈش کیمسٹ ایلفرڈ نوبیل نے ایجاد کیا تھا۔ یہ سستا دھماکہ گیر مادہ کسی ڈیٹونیٹر کے بغیر نہیں پھٹ سکتا۔
یہ بارودی ڈنڈیاں ایک دوسرے سے یا کسی بھی آلے سے منسلک نہیں تھیں۔ اخبار انڈیا ٹوڈے کو دھماکہ خیز مواد کے ایک ماہر نے بتایا کہ اگر یہ بارودی مواد پھٹ جاتا تو یہ اس گاڑی کو اڑا دینے کے لیے کافی تھا۔
اس گاڑی میں سے پانچ نمبر پلیٹس بھی ملیں جبکہ مکیش امبانی اور ان کی اہلیہ نیتا کے نام ایک پرنٹڈ خط بھی ملا جس میں لکھا تھا کہ یہ ایک ٹریلر ہے، اگلی مرتبہ یہ بم جڑے ہوئے ہوں گے۔ ہم نے تمہارے پورے خاندان کو اڑانے کا بندوبست کر لیا ہے۔
امبانی ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین ہیں اور ان کی دولت کی مالیت لگ بھگ 76 ارب ڈالر ہے۔ ان کے گروپ کا مرکزی کام آئل ریفائننگ ہے تاہم اُنھوں نے کئی دوسرے شعبوں بشمول ریٹیل اور ٹیلی کام میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
ہم اس گاڑی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
ممبئی پولیس نے اُس رات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا جب کارمائیکل روڈ پر قائم امبانی کی رہائش گاہ کے باہر یہ پراسرار گاڑی آئی تھی۔ یہ علاقہ ایک بہت الگ تھلگ رہائشی علاقہ ہے جس میں انتہائی مہنگے بنگلے اور اپارٹمنٹ عمارتیں موجود ہیں۔
پولیس نے دیکھا کہ یہ گاڑی آدھی رات کو پہلے امبانی کے گھر سے تقریباً 15 کلومیٹر دور ایک مصروف شارع پر انتظار کرتی ہے۔ مقامی وقت کے مطابق رات کو 1:40 پر ایک دوسری سفید ٹویوٹا ایس یو وی اس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے اور یہ خالی سڑکوں سے ہوتی ہوئی کارمائیکل روڈ پر پہنچتی ہیں جہاں امبانی اور اُن کا خاندان پچھلے 10 سال سے مقیم ہے۔
دونوں گاڑیاں اس مقام تک رات ڈھائی بجے پہنچتی ہیں۔ ٹویوٹا ایس یو وی بم سے بھری سکورپیو کے پیچھے چل رہی تھی۔ سکورپیو امبانی کے گھر سے 500 میٹر دور رک جاتی ہے۔
پھر پولیس کے مطابق فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص حفاظتی لباس پہنے سکورپیو سے باہر آتا ہے اور ٹویوٹا میں سوار ہو جاتا ہے اور پھر یہ گاڑی رات کے اندھیرے میں غائب ہو جاتی ہے۔ سی سی ٹی وی کوریج سے نکلنے سے قبل کیمروں نے اس گاڑی کو ایکسپریس وے پر مضافاتی علاقے تھانے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔
بم سے بھری گاڑی کا مالک کون تھا؟
پولیس نے کھوج لگائی کہ یہ سکورپیو گاڑی ایک مقامی تاجر منسکھ ہیرن کی تھی۔ وہ تھانے میں گاڑیوں کے ساز و سامان کی ایک دکان کے مالک تھے۔
تفتیش کے دوران ہیرن نے حکام کو بتایا کہ گاڑی کسی دوسرے شخص کی تھی جو اُنھیں گاڑی کی تزئین و آرائش کی رقم ادا کرنے سے قاصر رہا، تو ہیرن نے ’اس گاڑی کا قبضہ حاصل کر لیا۔‘
انھوں نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ 17 فروری کو وہ ممبئی کے قریب ایکسپریس وے پر سفر کر رہے تھے جب گاڑی کا سٹیئرنگ جام ہو گیا۔ انھوں نے گاڑی وہیں پارک کی اور گھر چلے گئے۔ جب وہ اگلی صبح گاڑی لینے واپس پہنچے تو وہ وہاں نہیں تھی۔ اُنھوں نے اس کی شکایت قریبی پولیس سٹیشن میں درج کروائی تھی۔
مکیش امبانی کے گھر کے باہر ملنے والی گاڑی مہاراشٹر میں سیاسی طوفان لے آئی۔ پانچ مارچ کو حزب اختلاف کے رہنما نے کہا کہ ہیرن کو تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ وہ اس مقدمے کے مرکزی گواہ ہیں۔ چند گھنٹوں بعد خبر رساں اداروں نے بتایا کہ ہیرن کی لاش ممبئی کے قریب ایک سمندری کے قریب ملی ہے۔
ہم منسکھ ہیرن کی موت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
پولیس کے مطابق چار مارچ کو وہ اپنی دکان سے گھر کے لیے نکلے۔ گھر پہنچنے پر انھوں نے بتایا کہ اُنھیں ایک پولیس اہلکار تاوڑے کی کال آئی ہے اور وہ اُن سے ملنے جا رہے ہیں۔
اس رات ہیرن واپس نہیں لوٹے۔ اگلی صبح ان کے خاندان نے اُن کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروا دی۔
بعد میں پولیس نے بتایا کہ ہیرن رات کو آٹھ بجے گھر سے نکلے اور تین گھنٹے بعد ان کا فون بند ہو گیا۔ جس پولیس اہلکار کے بارے میں اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ ملنے جا رہے ہیں، اس کی شناخت اب تک نہیں ہو سکی ہے۔
پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔ بعد میں پولیس کو ساحل پر ایک لاش کی اطلاع ملی۔
پولیس کے مطابق لاش پھولی ہوئی تھی اور اس کے منھ پر چار سے پانچ رومال بندھے ہوئے تھے۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم کے مطابق وہ ڈوب گئے تھے تاہم تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے۔ موت کی وجہ اب تک نہیں بتائی گئی۔
ممبئی پولیس نے ہیرن کی اہلیہ کی شکایت پر ’ایک نامعلوم فرد‘ کے خلاف قتل، مجرمانہ سازش اور شواہد کو تباہ کرنے کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
اس دوران بارود سے بھری گاڑی کی تحقیقات انسداد دہشت گردی کے وفاقی ادارے نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کو سونپ دی گئی۔
پولیس اہلکار کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
بارود سے بھری گاڑی کی اطلاع پر کارمائیکل روڈ پر پہنچنے والے پولیس اہلکاروں میں ممبئی پولیس کی کرائم برانچ کے اہلکار اسسٹنٹ انسپکٹر سچن واز بھی شامل تھے۔
واز کا کہنا ہے کہ وہ مقامی پولیس ٹیم اور سینیئر اہلکاروں کے ’تین سے چار گھنٹوں بعد‘ جائے وقوعہ پر پہنچے۔ 13 مارچ کو وفاقی تفتیش کاروں نے واز کو اس کیس سے حوالے سے 12 گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد گرفتار کر لیا۔
اگلے دن پولیس کو سفید ٹویوٹا ایس یو وی ممبئی کرائم برانچ کے ایک گیراج میں کھڑی ملی۔
تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ واز امبانی کے گھر کے باہر بارود سے بھری گاڑی پارک کرنے کے منصوبے میں شامل تھے تاہم مذکورہ پولیس اہلکار اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
این آئی اے نے اس اہلکار کے خلاف سازش، مجرمانہ ڈراوے اور بارودی مواد کے بارے میں لاپرواہی برتنے کے الزامات عائد کیے۔ عدالت نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ہے۔
ہیرن کی اہلیہ نے رپورٹرز کو بتایا کہ ان کے شوہر سچن واز کو اچھی طرح جانتے تھے اور یہ دونوں سکورپیو گاڑی دو سال سے استعمال کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے شوہر واز کے ساتھ باہر آتے جاتے رہتے تھے۔
ویز نے رپورٹرز کو بتایا کہ وہ ہیرن کو یا اُن کی موت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
سچن ویز کون ہیں؟
سچن 1990 میں پولیس میں شامل ہوئے۔ ممبئی میں وہ ’انکاؤنٹرسپیشلسٹ‘ کہلانے والے اس چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ کام کرتے تھے جنھیں 1990 کی دہائی کے اواخر میں شہر سے جرائم کا خاتمہ کرنے کے لیے جانا جاتا تھا۔
مجرم اُن سے ڈرا کرتے، انسانی حقوق کے کارکن ان سے نفرت کرتے اور ساتھ کام کرنے والے ان سے حسد کرتے تھے۔
اُن کے مخالفین کے مطابق یہ لوگ خود ہی قانون ہیں اور یہ اکثر مجرموں سے گھلتے ملتے رہتے ہیں۔
سنہ 2004 میں واز کو پولیس کی حراست میں ایک 27 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر کی موت سے تعلق کے الزام میں معطل کیا گیا۔
خواجہ یونس نامی اس نوجوان کو واز نے اپنی ٹیم کے ساتھ شہر میں ہونے والے ایک دھماکے کے شبہ میں اٹھایا تھا۔
واز نے اس موت کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا ہے۔ سنہ 2007 میں اُنھوں نے پولیس سے استعفیٰ دے دیا تاہم یہ استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا۔
سنہ 2008 میں معطلی کے دوران انھوں نے دائیں بازو کی جماعت شیو سینا میں شمولیت اختیار کر لی جو اب مہاراشٹر کے حکومتی اتحاد کی قیادت کر رہی ہے۔ ممبئی مہاراشٹر کا دارالخلافہ ہے۔
شیو سینا کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی طور پر پر متحرک نہیں تھے۔
گذشتہ جون میں ان کی معطلی ختم کی گئی اور وہ دوبارہ پولیس فورس میں شامل ہوگئے۔ اُنھیں کرائم برانچ میں کرائم انٹیلیجنس یونٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
حکام کے مطابق ان کی واپسی کووڈ 19 کے دوران عملے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کی گئی تاہم تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک معطل افسر کو دی گئی سیاسی رعایت تھی۔
گذشتہ ہفتے ممبئی پولیس نے اُنھیں دوسری بار معطل کیا۔ اب وہ پولیس تحویل میں ہیں۔ ان کے وکلا نے تمام تر الزامات کو مسترد کیا ہے۔