لفافہ ڈائن ان صحافیوں کی کہانی جو ’لفافہ لے کر صحافت کرتے ہیں
پاکستان میں ایک نئی ویب سیریز نشر کی جانے والی ہے جس میں ایسے صحافی اور اینکر پرسنز کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جو مبینہ طور پر ’لفافہ‘ لے کر صحافت کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔
اس ویب سیریز میں مرکزی کردار ادا کرنے والی مشعل خان کا کہنا تھا کہ یہ کہانی ایک ایسی عورت کی نہیں جو جذباتی ہو کر سب کچھ کرتی ہے بلکہ یہ ایسی عورت کی کہانی ہے جسے یہ سب کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
’لفافہ ڈائن‘ نامی یہ سیریز اردو فلیکس پر سے نشر کی جائے گی جو دراصل نیٹ فلیکس کی طرز کا ایک پلیٹ فارم ہے۔
صحافی براق شبیر سے بات کرتے ہوئے مشعل خان کا کہنا ہے کہ جب ڈرامے کے ڈائریکٹر سر راؤ ایاز نے انھیں فون کیا اور بتایا کہ اس کردار میں فن کا مظاہرہ کرنے کا کتنا مارجن ہے، تو وہ بہت خوش ہوئیں۔
ان کے بقول ’بالآخر ایسے کردار سامنے آئے کہ جن میں ہم بحیثیت اداکار یہ ثابت کر سکیں کہ ہم میں کتنی صلاحیت موجود ہے۔ اس لیے میں بہت پرجوش تھی۔‘
اپنے کردار کی تیاری کے حوالے سے اداکارہ مشعل خان کا کہنا تھا کہ ’میں نے خود کو ایک کمرے میں بند کیا اور یہ تصور کرنے کی کوشش کی کہ اگر میں سچ میں یہی فرد ہوتی تو میری ذہنی حالت کیا ہوتی۔ میں نے یہ تصور کیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے جو میں اس حد تک پہنچی اور میں کتنی اکیلی ہوں اور میرے لوگوں سے رابطے کیسے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا ’میں نے کردار کے حساب سے اپنی زندگی کو بدلا اور خود کو کمرے میں محصور کر دیا۔‘
مشعل خان کا کہنا تھا کہ ’یہ کردار کافی چیلنجنگ تھا گو کہ اسے ادا کرنے میں میری ذہنی حالت کافی بدل گئی تھی لیکن مجھے یہ کر کے خوشی ہوئی۔‘
ڈرامے کا مرکزی خیال کیسے آیا؟
ڈرامے کے مرکزی خیال کے حوالے سے ڈرامے کے پروڈیوسر فرحان گوہر کا کہنا تھا کہ ’ہم صبح و شام نیوز چینلز دیکھتے رہتے ہیں اور وہاں پر لفظ لفافہ بہت سننے کو ملتا ہے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس لفظ کو لے کر ہمارے میڈیا میں مشہور کیسز جن کے بارے میں بہت بات کی جاتی ہے، کے حوالے سے ڈرامے کے لیے ایک کہانی بنائی جائے۔
لفافہ ڈائن جیسے عنوان کے انتخاب پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ جب انسان لفافہ لے کر کام کرتا ہے تو اپنے پیشے کے خلاف کوئی کام کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتا ہے، چاہے وہ غلط اشاعت ہو یا غلط عمل ہو، جھوٹ بولنا ہو یا کسی کو مار دینا ہو یعنی وہ لفافہ لے کر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ‘
خواتین کی ترقی کے خلاف روایتی سوچ
کیا لفظ ’ڈائن‘ اس سوچ کی کی توثیق نہیں کرتا جس کے مطابق ایک کامیاب خاتون نے یقیناً کوئی غلط قدم اٹھایا ہو گا؟
اس سوال کے جواب میں اداکارہ مشعل خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے ترقی کرنا پہلے ہی مشکل ہے اور جتنا میں نیوز انڈسٹری کو جانتی ہوں یہ اور زیادہ مشکل ہے، یہ خواتین کے ساتھ بہت غیر منصفانہ ہے۔‘
’اگر آپ جنسی ہراس کے اعدادوشمار لیں تو خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات مردوں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں کیونکہ اس معاشرے میں مردانہ تسلط قائم ہے اور خواتین کو ایسی صورتحال میں ڈال دیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ ’یہ کہانی اس بارے میں نہیں کہ خواتین کام کے لیے یہ سب کرتی ہیں بلکہ ہمیں خواتین کو تحفظ دینا چاہیے نہ کہ ایسا معاشرہ بنائیں جہاں پر خواتین کو ایسی صورتحال میں دھکیلا جائے۔ جہاں وہ مجبوراً ایسے کام کریں جو وہ عام صورتحال میں کبھی نہ کرتیں۔‘
مشعل خان کا کہنا تھا کہ ’آپ کو آخر میں اس کہانی کے مرکزی کردار علینہ پر ترس آتا ہے کہ وہ وہ ایسی تھی نہیں۔‘
’لوگوں کو شعور ملے گا کون سچ بول رہا ہے کون جھوٹ‘
یہ کہانی لوگوں میں کیا شعور بیدار کرے گی؟ اس حوالے سے ڈرامے کے پروڈیوسر فرحان گوہر کا کہنا تھا کہ لوگوں کو سچ اور جھوٹ سے متعلق آگاہی ملے گی۔
’لوگوں کو اندازہ ہو سکے گا کہ یہ انسان سچ بول رہا ہے یا جھوٹ، اس لیے جب لوگ ٹی وی دیکھیں گے تو انھیں اندازہ ہو گا کہ اس نے لفافہ لیا ہے اور کس نے نہیں لیا۔‘
اداکارہ مشعل خان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ہم نے ان کرداروں کے حوالے سے ذہن میں کسی شخص کا تصور نہیں کیا لیکن اس کے باوجود اگر لوگ اسے کسی سے منسوب کر رہے ہیں تو یہ صرف ان کی سوچ ہے ہمارے ذہن میں کسی کا نام نہیں تھا ہم نے تو خود ساختہ کردار بنائے تھے ہم کسی کا نام نہیں لے رہے۔‘
مشعل خان کا کہنا ہے کہ انھیں لوگوں کی جانب سے سے ٹیزر دیکھنے کے بعد خاصی پذیرائی مل رہی ہے اور لوگ انھیں اچھی اداکارہ کہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’اگرچہ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ نے بہت اچھی اداکارہ کی لیکن میں ذاتی طور پر لوگوں کی رائے کی زیادہ پرواہ نہیں کرتی، لوگ کہتے ہیں کہ یہ کردار کافی بے باک اور اور باہمت ہے اور آپ لوگوں کی ہمت ہے کہ آپ اتنا مختلف کام کر رہے ہیں