شمالی وزیرستان سے لاپتہ شخص کی لاش 14 برس بعد برآمد، کیا ایک صحافی سے ‘چند لمحوں کی ملاقات’ گمشدگی کی وجہ بنی؟
علاقہ ہے شمالی وزیرستان کا اور وہاں کے قصبے رزمک اور دوسلی کے درمیان سڑک کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ کھدائی کرنے والی مشین کے ذریعے سخت زمین کھودی جا رہی ہے اور مشین کا پنجہ وقفے وقفے سے زمین میں دھنس جاتا ہے اور منوں مٹی نکال کر لاتا ہے۔
اچانک وہاں پر موجود مزدوروں کو نکالی گئی مٹی میں انسانی جسم کی ہڈیاں نظر آئیں۔ ان ہڈیوں کو دیکھتے ہی کام روک دیا گیا اور مزدوروں نے انسانی جسم کی باقیات اکٹھی کرنی شروع کر دیں۔ اسی تلاش میں انھیں ایک پرس (بٹوہ) ملتا ہے جس میں شناختی کارڈ کے علاوہ دیگر سرکاری کارڈ ملتے ہیں، لیکن پرس میں رقم نہیں۔
شناختی کارڈ پر نام درج تھا محمد سلام، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ 14 سال پہلے لاپتہ ہو گئے تھے۔
لیکن محمد سلام کون تھے؟ کیسے لاپتہ ہوئے؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ان کی 2006 میں ایک ایسے صحافی سے ملاقات، جسے کچھ ہی عرصے بعد قتل کر دیا گیا تھا، ان کی اپنی گمشدگی کی گتھی سلجھانے میں مدد کر سکتی ہے؟
یہ ایسے سوالات ہیں جو مقامی سطح پر اٹھائے جا رہے ہیں لیکن سرکاری سطح پر ان کے بارے میں کوئی کچھ بات نہیں کر رہا۔
لیکن جہاں محمد سلام کی طویل گمشدگی ایک معمہ تھی، وہاں ان کے گھر والوں کے لیے یہ 14 برس انتہائی تکلیف دہ ہوں گے جہاں ان کے خاندان کے افراد شاید روزانہ یہی سوچتے ہوں گے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور محمد سلام آج نہیں تو کل، زندہ سلامت گھر واپس پہنچ جائیں، لیکن کس کو معلوم تھا کہ سالوں قبل انھیں بے دردی سے کپڑوں سمیت زمین میں دفن کر دیا گیا تھا۔
14 برس قبل گمشدہ ہونے والے محمد سلام کون تھے؟
محمد سلام ایک سرکاری پرائمری سکول میں استاد تھے۔ محمد سلام کے بارے میں بظاہر کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آ سکا لیکن مقامی لوگوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق محمد سلام ایک بہترین استاد اور ملنسار انسان تھے ۔
شناختی کارڈ کی تصویر میں پگڑی باندھے باریش اور پرکشش شخصیت کے مالک محمد سلام 2007 میں لاپتہ ہو گئے تھے۔مقامی سطح پر معلوم ہوا ہے کہ وہ اچانک ‘لاپتہ’ ہو گئے تھے۔
ان کی بازیابی کے لیے اساتذہ نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے۔ اساتذہ کے ایک وفد نے علاقے کے اس وقت کے پولیٹکل ایجنٹ سے ملاقات کی تھی جس میں محمد سلام کی بازیابی کا مطالبہ سامنے رکھا گیا تھا اور احتجاج کرنے والے اساتذہ کو یہی کہا گیا تھا کہ محمد سلام جلد بازیاب ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ ایسی غیر مصدقہ اطلاعات بھی ہیں کہ محمد سلام کے ایک مقامی ساتھی بھی ان کے ساتھ لاپتہ ہوئے تھے جو چند ہفتوں کے بعد بازیاب ہو گئے تھے لیکن محمد سلام کے بارے میں ان کی باقیات ملنے تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔
اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے محمد سلام کے بیٹوں یا رشتہ داروں سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا کیونکہ مقامی سطح پر بتایا گیا کہ جب سے محمد سلام کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا، ان کے گھر والے اس بارے میں کسی سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
صحافی حیات محمد سے ‘ملاقات’ اور محمد سلام کی گمشدگی میں کوئی تعلق ہے؟
محمد سلام کو کس نے اغوا کیا، کیوں اغوا کیا گیا اور پھر انھیں بازیاب کیوں نہیں کیا گیا، اس بارے میں کوئی واضح اطلاعات نہیں ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 2006 میں ان کی مقامی صحافی حیات اللہ سے ‘چند لمحوں کی ایک ملاقات’ کو لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے اغوا کی وجہ بنی تھی۔
خبروں کے مطابق محمد سلام کی صحافی حیات اللہ سے ملاقات محض ایک اتفاق تھا اور اس سے پہلے ان دونوں کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ صحافی حیات اللہ کو اس ملاقات سے ایک سال قبل اغوا کیا گیا تھا لیکن جب جون 2006 میں وہ اغوا کاروں کے چنگل سے فرار ہو کر خوشحالی گاؤں پہنچے تو جس مکان پر انھوں نے دستک دی اور انھیں پناہ ملی وہ محمد سلام کا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ حیات اللہ کو اس وقت ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ حیات اللہ وہاں پر صرف کچھ ہی دیر رہے، لیکن اس دوران ان کے تعاقب میں لوگ آئے اور فائرنگ کی جس میں حیات اللہ کو گولیاں لگیں جس سے وہ ہلاک ہو گئے تھے۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ حیات اللہ کی لاش محمد سلام کے گھر کے قریب اسی گلی سے ملی۔ حیات اللہ کے قتل کے بعد یہ معاملہ کافی زیر بحث رہا اور عالمی سطح پر بھی اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ ان حالات میں محمد سلام اپنے گھر میں رہتے اور باہر کم ہی نکلتے تھے۔ لیکن 2007 میں جب ایک مرتبہ محمد سلام گھر سے نکلے تو علاقے میں پل کے نیچے سے نامعلوم افراد انھیں ان کے ایک ساتھی سمیت اٹھا کر لے گئے تھے۔
انسانی باقیات کہاں سے ملی ہیں؟
میر علی سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مارچ کے پہلے ہفتے میں رزمک اور دوسلی کے درمیان سڑک کی توسیع کا کام جاری تھا جب دوران کھدائی انسانی جسم کی ہڈیاں ملیں۔
موقع پر موجود مزدوروں نے جب ان ہڈیوں کو دیکھا تو وہاں سے گھڑی، کارڈ، کپڑے، عطر کی شیشی اور بوٹ بھی ملے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی ہلاکت کے بعد اسے ایسے ہی دفن کر دیا گیا تھا۔
سڑک پر کھدائی کا کام گڑیوم کے علاقے میں جاری ہے جو میرانشاہ سے کوئی لگ بھگ پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
سرکاری اہلکاروں نے ان باقیات کے ملنے کی تصدیق کی ہے لیکن اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔
شمالی وزیرستان کے پولیس حکام سے رابطہ کیا تو بعض سے بات نہیں ہوئی تو کہیں سے کہا گیا کہ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے اور ان کے بارے میں ابھی کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔
پولیس نے یہ تمام باقیات محمد سلام کے بیٹے کے حوالے کر دی ہیں اور خوشحالی گاؤں میں ان کی باقاعدہ تدفین کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ لاش کا ڈی این اے نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ملنے والی چیزوں سے ہی شناخت کر کے باقیات خاندان کے حوالے کی گئی تھیں۔
اس زمانے میں شمالی وزیرستان کے حالات کیسے تھے؟
یہ شمالی وزیرستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا دور تھا جب مختلف شدت پسند تنظیمیں اور گروہ شمالی وزیرستان میں متحرک تھے اور یہ جگہ علاقہ غیر بھی کہلائی جاتی تھی۔
سینیئر تجزیہ کار اور محقق پروفیسر خادم حسین نے اس دور میں شمالی وزیرستان کے کچھ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس دور میں سینکڑوں لوگ لاپتہ ہوئے یا غائب ہو گئے تھے، اسی طرح بڑی تعداد میں لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان واقعات کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا ۔
شمالی وزیرستان میں شدت پسند تنظٌیموں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی یہ دباؤ بڑھ گیا تھا کہ اس علاقے میں فوجی آپریشن شروع کیا جائِے ۔
پروفیسر خادم حسین نے مزید بتایا کہ اس دور میں شدت پسند تنظیم القاعدہ کی چھتری کے نیچے مختلف تنظیمیں کام کر رہی تھیں جن میں ازبک، تاجک اور دیگر قومیت کے لوگ شامل تھے اور انھوں نے اپنا نیٹ ورک قائم کر دیا تھا اور ایک طرح سے ان علاقوں میں اپنا ہی انتظام چلا رہے تھے۔
پروفیسر خادم حسین نے کہا کہ وہاں پر اُس وقت انٹر نیٹ کا نظام نہیں تھا اور معلومات اس علاقے سے کہیں باہر نہیں آ پاتی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ مقامی صحافی، اساتذہ اور امام مساجد خاموش تھے اور ان تنظیموں نے اپنے ہی امام تعینات کر دیے تھے جو اپنا بیانیہ سامنے لاتے تھے ۔
دفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالی جب بڑھ گئی تھی تو ان علاقوں میں فوجی آپریشن کیے گئے جس سے ان علاقوں میں امن کے قیام میں مدد ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب جو اکا دکا واقعات پیش آ رہے ہیں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں جبکہ ماضی میں حالات انتہائی ابتر تھے۔
تجزیہ کار پروفیسر خادم حسین کہتے ہیں کہ وہ دور ایسا تھا جس میں اس علاقے میں پولیس تھانے یا سرکار کی کوئی باقاعدہ رٹ نہیں تھی بلکہ مسلح تنظیموں کی اجارہ داری تھی ان تنظیموں نے اپنے اصول اور اپنا نظام بنا رکھا تھا اور اس دور میں ان علاقوں میں لوگوں کی زبان بند کر دی گئی تھی۔
بظاہر اس دور میں جو لوگ لاپتہ ہوئے ان میں کتنے اپنی مرضی سے فرار ہوئے یا کتنے ایسے تھے جن کا مختلف تنظیموں یا مسلح افراد نے اغوا کیا ان کے بارے میں کہیں کوئی ڈیٹا مجود نہیں ہے ۔
بعض واقعات میں سکیورٹی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ۔
اس پر بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کہتے ہیں کہ ماضی میں ان علاقوں میں حالات انتہائی مخدوش تھے اور کیونکہ وہ پر شدت پسند تنظیموں کا زور تھا اس کے لیے حکومت پر الزام عائد کرنا درست نہیں ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ یہ مسلح افراد اور تنظیمیں مقامی لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے لاپتہ کر دیتے تھے اور ان میں سے کسی کو افغانستان اغوا کر کے لے جاتے تھے اور وہاں کسی کو مار کر وہیں دفن کر دیتے، یا اس کی لاش واپس پاکستان لے آتے۔