شان مسعود کی ’مثبت پسندی
مثبت پسندی اور حقیقت پسندی میں بہت فرق ہوتا ہے۔
اگر پاکستان پرتھ کے زمینی حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیٹنگ کرتا تو اس ناگزیر خسارے میں بھی کچھ بھرم بچایا جا سکتا تھا۔
مگر شان مسعود اس ادراک سے معذور ٹھہرے۔ وہ حقائق سے گریزاں، مثبت پسندی کے تعاقب میں تھے۔ جو غلطی پہلی اننگز میں ان کے انہدام کا باعث بنی، وہی غلطی انھوں نے دوسری اننگز میں بھی دہرا ڈالی۔
مچل سٹارک، جاش ہیزل ووڈ اور پیٹ کمنز پہ مشتمل یہ آسٹریلوی پیس اٹیک بلاشبہ دنیا کے بہترین پیس اٹیک میں سے ہے۔ جیسا قد و قامت اور جو برق رفتار پچز انھیں یہاں میسر ہیں، اس کے خلاف اتنا مثبت پسند ہونے کو صرف بے سبب دلیری یا بے مغز جارحیت ہی کام آ سکتی ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں بلے باز کو سہولت یہ ہوتی ہے کہ اسے سٹرائیک ریٹ اور رن ریٹ جیسے پہلوؤں پہ سر نہیں کھپانا پڑتا۔ یہاں اصل امتحان مدافعت اور مزاحمت کا ہوتا ہے۔ سو، اگر کوئی بلے باز کسی بہترین گیند کا شکار ٹھہرے، وہ بے دوش کہلاتا ہے لیکن اگر کوئی بدترین شاٹ کھیل کر چل نکلے، اصل قصوروار وہی ہوتا ہے۔
جس ڈرائیونگ لینتھ پہ شان مسعود وہ سٹروک کھیلنا چاہ رہے تھے، وہ کراچی یا لاہور کی پچز پہ تو نتیجہ خیز ہو سکتا تھا مگر پرتھ کی اس پیس اور باؤنس پہ وکٹ کے سامنے کو کھیلنا نری حماقت تھی۔ یہاں واحد حل پچھلے قدم پہ ڈٹ کے گیند کو بلے تک پہنچنے دینا اور گراؤنڈ کے اطراف میں کھیلنے کی کوشش کرنا تھا۔
ٹیم سلیکشن، فیلڈنگ اور بولنگ ڈسپلن کے طفیل پاکستان پہلے دن سے ہی اس میچ میں دیوار سے لگ چکا تھا۔ ان حالات میں واحد رستہ اس ناگزیر نتیجے کو حتی الامکان موخر کرنا تھا کہ کچھ وقار باقی رہ جائے اور مزاحمت ایسی ہو کہ باقی ماندہ سیریز کے لیے مورال یکسر پست نہ ہو جائے۔
بلاشبہ بلے بازوں کے لیے مدافعانہ خول میں جا بیٹھنا بولرز کے لیے تقویت کا سامان ہوا کرتا ہے مگر دانشمندی اسی میں ہے کہ بازو کھولنے کو مناسب وقت اور حالات کا انتظار کیا جائے جیسے عثمان خواجہ نے کیا۔
عثمان خواجہ کی اننگز پاکستانی ٹیم کے لیے ایک عملی مثال تھی کہ جب گیند نئی ہو اور وکٹ کا باؤنس غیر یقینی ہو تو مخمصے کا جواب مخمصے سے نہیں بلکہ حواس سے دیا جانا چاہئے۔
دوسری اننگز کے پہلے ایک گھنٹے میں جب پاکستانی بولنگ ایسا قہر ڈھا رہی تھی جو آسٹریلوی بیٹنگ نے پچھلی تین دہائیوں میں نہ دیکھا تھا، تب دباؤ سارا عثمان خواجہ پہ تھا۔ اور خواجہ نے یہ سارا دباؤ بخوبی جذب کیا۔
لیکن جیسے ہی گیند کی دمک کچھ ماند پڑی اور خواجہ بھی پچ کے باؤنس سے قدرے ہم آہنگ ہوئے، تب وہی پاکستانی بولنگ ان کے نشانے پہ آئی اور گھنٹے بھر سے پلتا دباؤ چند منٹوں میں ہی واپس پاکستانی بولنگ پہ لوٹا دیا۔
پرتھ کی پچز اپنے باؤنس میں اس قدر متغیر ہیں کہ تاریخی طور پہ کئی بلے بازوں کے اعصاب کا امتحان لیتی آئی ہیں۔ بھلے یہاں انڈیا کا سابقہ دورہ ہو یا پاکستان کا حالیہ میچ، کئی ایک گھاگ بلے باز بھی اس پچ کی چوٹوں کو سہلاتے پائے گئے ہیں۔
یہاں پاکستانی بلے باز صرف یہی کر سکتے تھے کہ اپنے قدموں پہ ڈٹے رہیں اور پچ کی رفتار سے آگے بڑھنے کی بجائے اپنے ردِعمل کو حتی الامکان موخر رکھیں تا آنکہ گیند کی کاٹ کچھ کم پڑ جاتی اور آسٹریلوی اٹیک کے قدم بھی قدرے سست ہو جاتے۔
لیکن شان مسعود نے اس ناگزیر شکست کے خود تک پہنچنے کا انتظار نہ کیا بلکہ آسٹریلوی بولنگ کی توقعات سے بھی کہیں پہلے اس انہونی کو خود گھسیٹ کر اپنے پاس لے آئے جس کے بعد مورال وہاں پہنچ سکتا ہے کہ باقی ماندہ سیریز معنویت سے بالکل عاری ہو جائے۔