سوئز کینال میں آمدورفت بحال ایور گیون بحری جہاز

سوئز کینال میں آمدورفت بحال ایور گیون بحری جہاز

سوئز کینال میں آمدورفت بحال ایور گیون بحری جہاز کو کیسے نکالا گیا؟

مصر کی سوئز کینال میں تقریباً ایک ہفتے سے پھنسے ہوئے ایک کنٹینر بحری جہاز کو نکال لیے جانے کے بعد بحری جہازوں کی آمدورفت بحال ہو گئی ہے۔

پیر کو 400 میٹر لمبے اس جہاز کو نہر کے کناروں سے رہا کروائے جانے پر اسے کھینچنے والی کشتیوں نے اپنے ہارن بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔

بحیرہِ روم اور بحیرہِ احمر کو ملانے والی اس نہر سے گزرنے کے لیے سینکڑوں بحری جہاز رکے کھڑے تھے۔ یہ دنیا کے مصروف ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔

مصری حکام کا کہنا ہے کہ نہر سے گزرنے کے منتظر جہازوں کا رش آئندہ تین روز میں ختم ہونے کی توقع ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملہ کے عالمی شپنگ پر اثرات کئی ہفتوں بلکہ کئی ماہ تک رہ سکتے ہیں۔

جہاز کو نکالا کیسے گیا؟

گذشتہ منگل کو دو لاکھ ٹن وزنی ایون گیون نامی مال بردار بحری جہاز اس وقت سوئز کنال کے کناروں میں پھنس گیا جب تیز ہوائیں اور وہاں پر ایک ریت کا طوفان آ گیا۔

جہاز کو نکالنے کے لیے ہالینڈ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے 13 ٹگ بوٹس (ایسی طاقتور کشتیاں جو بڑے جہازوں کو ہلانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں) استعمال کیں تاکہ ایور گرین کو ہلایا جا سکے۔

اس کے علاوہ کینال کے کنارے پر جہاز کا نچلا حصہ پھنسا تھا وہاں سے تیس ہزار کیوبک میٹر کیچڑ اور ریت کو کھود کر نکالا گیا۔

گذشتہ ہفتے اختتام ہفتہ پر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس مال بردار جہاز پر لدے اٹھارہ ہزار کنٹینرز کو جہاز کا وزن کم کرنے کے لیے اتارنا پڑے۔

ایور گیون جہاز 400 میٹر طویل ہے اور گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اسے نہر میں 200 میٹر تک اطراف کی جانب ہلایا جا چکا تھا۔ اس کام میں کھدائی کے لیے میشنری کے علاوہ ٹگ بوٹس (جہاز کهینچنے یا دھکیلنے والی کشتی) استعمال کی گئی ہیں۔

پیر تک بحری جہاز کی ٹریکنگ کے لیے استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کے مطابق جہاز کو کامیابی سے مغربی کنارے کی طرف دھکیلا جا چکا تھا۔ تاہم جہاز کے اگلا حصہ یا ’بو‘ مشرقی کنارے پر پھنسا رہا۔

گرافکس

ٹگ بوٹس، جن کی مدد سے جہاز کو کھینچا یا دھکیلا جاسکتا ہے، اس بحری جہاز کے اردگرد موجود تھیں۔ یہ جہاز میں حرکت پیدا کرنے کے لیے تاریں استعمال کر رہی تھیں یا براہِ راست پھنسے ہوئے جہاز کو نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

ٹگ بوٹس کے علاوہ ڈریجرز (کھدائی کی مشینری) کی مدد سے جہاز کے اگلے حصے کے نیچے سے ریت ہٹائی گئی تاکہ یہ باآسانی حرکت کر سکے۔

بحری امور کے ماہر سال مرکو گلیانو کا کہنا ہے کہ نہر سوئز پر ڈریجرز ہونا غیر معمولی نہیں۔ انھیں پانی کا راستہ صاف رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

’بڑی مشینوں کی مدد سے پانی میں سے مٹی اور کیچڑ کو نیچے سے ہٹا کر کنارے پر پھینکا جاتا ہے۔‘

تاہم پانی کی تیز رفتاری نے اس جہاز کو نکالنے میں مدد کی اور پیر کی صبح جہاز کا سٹئرن (یعنی جہاز کا پچھلا حصہ) کنارے سے رہا کروا لیا گیا اور پورا جہاز مڑنا شروع ہو گیا۔ چند گھٹنوں بعد جہاز کا بو (اگلا حصہ) بھی گھوم کر نکل گیا اور ایور گرین روانہ ہونے کے قابل ہو گیا۔

ایور گیون کو اب گریٹ بٹر جھیل پر لے جایا گیا ہے۔ یہ جھیل سوئز کینال کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان موجود ہے۔

گرافکس
Short presentational transparent line

اب کیا ہو گا؟

پیر کی شام خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا تھا کہ سوئز کینال میں بحری جہازوں کی آمدوفت بحال ہو گئی ہے اور جہاز جنوب کی جانب بحیرہِ احمر جانے لگے ہیں جبکہ لیتھ ایجنسیز نامی کینال کی سروسز کی کمپنی نے کہا تھا کہ گریٹ بٹر جھیل سے بحری جہاز روانہ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

تاہم کچھ بحری جہازوں نے اس بحران کے پیشِ نظر اپنا راستہ تبدیل کر لیا تھا اور براعظم افریقہ کے جنوبی ترین مقام کے گرد سے گھوم کر قدرے بہت لمبے راستے سے اپنا سفر جاری رکھا تھا۔

کارگو اپنی منزلوں پر کافی دیر سے پہنچے گا اور جب وہ بندرگاہوں پر پہنچیں گے تو وہاں رش کا امکان بھی ہے اور جہاز رانی کے مستقبل قریب کے شیڈولز خراب ہو گئے ہیں۔

بی بی سی بزنس نامہ نگار تھیو لیگٹ کہتے ہیں کہ یورپ تک سامان بھیجنے کی قیمت میں اضافہ متوقع ہے۔

جہاز رانی کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک مائرسک کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے عالمی صنعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

ایور گیون جہاز کا اب کیا ہو گا؟

دوسری جانب ایور گیون کو گریٹ بٹر جھیل میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں اس کا مکمل تکنیکی اور حفاظتی معائنہ ہو گا۔

کہا جا رہا ہے کہ جہاز کے کارگو کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ ابتدائی تفتیش میں کسی قسم کا انجن یا مکینیکل مسئلہ جہاز کے پھنسنے کی وجہ نہیں بنا۔

اطلاعات کے مطابق 25 افراد پر مشتمل جہاز کا انڈین عملہ محفوظ اور صحت مند ہے۔ جہاز پر مختلف اقسام کا سامان لدا ہوا ہے جس کی انشورنس قیمت ہی کئی ملین ڈالر تک ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *