روس کس طرح یوکرین کے خلاف ایرانی ساختہ

روس کس طرح یوکرین کے خلاف ایرانی ساختہ

روس کس طرح یوکرین کے خلاف ایرانی ساختہ ’خودکش ڈرونز‘ استعمال کر رہا ہے؟

یوکرین نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ کیئو میں شہری اہداف کے خلاف ایرانی ساختہ کامیکازی ڈرونز استعمال کر رہا ہے۔ (ڈرونز کو ایران میں ’هواپیماهای بدون سرنشین‘ کہا جاتا ہے۔)

 یہ ڈرونز غول در غول دھماکہ خیز مواد کے ساتھ مسلح ہو کر پرواز کرتے ہیں اور اس وقت پھٹ جاتے ہیں جب وہ اپنے ہدف سے ٹکراتے ہیں، اس وجہ سے ان کے حملوں کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔

روس کا ‘کامیکازی’ ڈرون کیا ہے؟

خیال کیا جاتا ہے کہ روس ستمبر کے وسط سے یوکرین کے تنازع میں ایرانی ساختہ شاہد-136 (Shahed-136) ڈرونز استعمال کر رہا ہے۔

روس اسے جیرانیم-2 کہتا ہے، اس کی نوک پر دھماکہ خیز مواد لگایا جاتا ہے اور اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے جب تک کہ اسے حملہ کرنے کی ہدایت نہ کی جائے یہ اپنے ہدف کے اوپر منڈلاتا رہتا ہے۔

شاہد-136 کے پروں کا پھیلاؤ تقریباً 2.5 میٹر ہے اور دشمن کے لیے ریڈار پر اس کا پتہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ایسے ڈرونز روس کے پاس کتنی تعداد میں موجود ہیں، لیکن امریکہ نے کہا ہے کہ ایران نے سینکڑوں ڈرونز روس بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایران نے امریکہ کے اس دعویٰ کی تردید کی ہے۔

ڈرونز

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

یوکرین میں کامیکازی ڈرون نے کیا نقصان کیا ہے؟

روس کی جانب سے شاہد 136 ڈرون استعمال کرنے کی پہلی خبر 13 ستمبر کو رپورٹ کی گئی تھی، جس نے ملک کے مشرق میں خرکیئو کے علاقے میں واقع ایک شہر کُپیانسک کے قریب ایک ہدف پر حملہ کیا تھا۔

اُس ماہ کے آخر میں شاہد-136ڈرون کو جنوب میں یوکرینی اہداف پر حملوں میں استعمال کیا گیا۔ اِن ڈرونز کا ملبہ اوڈیسا اور میکولائیو میں ملا۔

اکتوبر میں شاہد-136 ڈرونز کیئو کے جنوب میں واقع ’بلا تسرکوا‘ شہر میں غیر فوجی اہداف پر حملہ آور ہوئے تھے۔

14 دسمبر کو یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے کیئو پر روسی حملے کے دوران ایک درجن سے زیادہ ڈرون مار گرائے۔

ہو سکتا ہے کہ روس ان ڈرونز کو کروز میزائل کی جگہ استعمال کر رہا ہو کیونکہ وہ نسبتاً سستے ہیں – اس قسم کے ایک ڈرون کی قیمت بیس ہزار ڈالر بنتی ہے۔

یوکرین ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کیسے کر رہا ہے؟

یوکرین کی مسلح افواج نے ڈرون کو مار گرانے کے لیے چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی، بھاری مشین گنیں، پورٹیبل اینٹی ایئر میزائل (نقل پذیر طیارہ شکن میزائلوں) اور الیکٹرانک جیمنگ آلات (برقی پیغامات کو جامد کرنے والے آلات) کا استعمال کیا۔

یوکرین کی مسلح افواج نے 25 اکتوبر کو دعویٰ کیا کہ انھوں نے گزشتہ 36 دنوں میں 223 شاہد-136 ڈرونز مار گرائے جو کہ روس کی جانب سے لانچ کیے گئے کل ڈرونز کا 85 فیصد ہے۔

تاہم ہر ایک خودکش ڈرون کو مار گرانا اُس وقت تقریباً ناممکن ہوتا ہے خاص کر جب وہ بڑی تعداد میں بھیجے جاتے ہیں۔

فوجی امور کے ایک ماہر جسٹن کرمپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ (ڈرونز) نِچلی سطح پر پرواز کرتے ہیں اور آپ انھیں غول در غول بھیج سکتے ہیں۔ ڈرونز کے ان جھنڈوں کا مقابلہ فضائی دفاع کے لحاظ سے بہت مشکل ہے۔‘

کیا یوکرین نے ‘کامیکازی’ ڈرون استعمال کیے ہیں؟

یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یوکرین کی طرف سے ڈرونز استعمال کیے گئے ہیں یا نہیں، لیکن امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسے اپنے 700 ’سوئچ بلیڈ‘ کامیکازی ڈرونز بھیج رہا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کامیکازی ڈرون مغربی کریمیا میں روسی فوجی اڈے پر حالیہ حملوں میں استعمال کیے گئے ہوں گے۔ یہ حملے سیواستوپول کے قریب فضائی اڈے، اور سیواستوپول بندرگاہ میں بحری جہازوں پر کیے گئے تھے۔

کنگز کالج لندن میں دفاعی امور کی محقق ڈاکٹر مرینا میرون کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین میں بنائے گئے ابتدائی سطح کے ڈرون ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ حملوں میں ہونے والے دھماکوں کو دیکھیں تو وہ کافی چھوٹے ہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ اندرونی طور پر تیار کیے گئے ڈرونز ہیں، جن میں دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا۔‘

یوکرین اور روس کے پاس اور کون سے ڈرون ہیں؟

یوکرین کا اہم فوجی ڈرون ترکی ساختہ بائےرکتر TB2 ہے۔ یہ ایک چھوٹے طیارے کے سائز کا ہے، اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں، اور اسے لیزر گائیڈڈ بموں سے مسلح کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک، رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (روسی) کے ڈاکٹر جیک واٹلنگ کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز میں یوکرین کے پاس ان میں سے ’50 سے کم‘ تعداد کا ایک بیڑا تھا۔

امریکہ نے کہا کہ وہ یوکرین کو 700 ’سوئچ بلیڈ‘ ڈرونز بھیج رہا ہے جو کہ کامیکازی ڈرون بھی ہیں۔

ڈرونز

فوجی ڈرون کیسے استعمال کیے گئے؟

روس اور یوکرین کے لیے، دونوں جانب ڈرون دشمن کے اہداف کا پتہ لگانے اور ان کی طرف توپ خانے سے فائر کرنے کے لیے موثر رہے ہیں۔

ڈاکٹر واٹلنگ کا کہنا ہے کہ ’روسی افواج اورلان-10 ڈرون کے ہدف کو شناخت کرنے کے بعد صرف تین سے پانچ منٹ کے اندر اندر اسے گولہ باری کا نشانہ بنا سکتی ہے۔‘ دوسری صورت میں حملہ کرنے میں 20-30 منٹ لگ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر مرینا میرون کا کہنا ہے کہ ڈرونز نے یوکرین کو اپنی محدود افواج کی تعیناتی کو پھیلانے میں مدد دی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ ماضی میں دشمن کی پوزیشنیں تلاش کرنا چاہتے تھے تو آپ کو سپیشل فورسز کے یونٹ بھیجنے پڑتے تھے اور اس کوشش میں آپ کے کچھ فوجی ہلاک بھی ہو سکتے تھے۔ اب آپ صرف ایک ڈرون کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔‘

ڈرونز
روسی اورلان-10 ڈرونز دشمن کے ٹھکانوں کا منٹوں میں سراخ لگا سکتے ہیں اور ان پر توپ خانے سے گولہ باری کر کے تباہ کیا جا سکتا ہے۔

جنگ کے پہلے چند ہفتوں میں یوکرین کے بائےرکتر ڈرونز کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا تھا۔

ڈاکٹر میرون کہتی ہیں کہ ’انھیں گولہ بارود کے ذخیرے جیسے اہداف پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا، اور ’ماسکوا‘ نامی جنگی بحری جہاز کے ڈبونے میں اس کا اہم کردار تھا۔‘

تاہم بائےرکتر ایک بڑے سائز کا ڈرون ہے اور یہ آہستہ پرواز کرتا ہے اور روس اپنے فضائی دفاعی نظام سے اس کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

غیر فوجی ڈرونز کیسے استعمال ہو رہے ہیں؟

فوجی ڈرون اگر تباہ ہوجائے تو اس کی جگہ نیا خریدنا کافی مہنگا پڑتا ہے۔ – ایک بائےرکتر TB2 کی قیمت تقریباً بیس لاکھ ڈالر ہے۔

لہذا دونوں ممالک خاص طور پر یوکرین، چھوٹے تجارتی ماڈل کے ڈرونز بھی استعمال کر رہے ہیں، جیسے ’ڈی جے آئی ماوِک 3‘  (DJI Mavic 3)، جس کی قیمت تقریباً دو ہزار ڈالر فی ڈرون بنتی ہے۔

ڈرونز

اِن کمرشل ڈرونز میں چھوٹے بم نصب کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم وہ بنیادی طور پر دشمن کے فوجیوں کو تلاش کرنے اور براہ راست حملوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر میرون کہتی ہیں کہ ’یوکرین کے پاس اتنا گولہ بارود نہیں ہے جتنا روس کے پاس ہے۔ اہداف کو دیکھنے کے لیے ‘آسمان میں آنکھیں’ رکھنے اور توپ خانے سے براہ راست فائر کرنے کا مطلب ہے کہ وہ اپنے پاس موجود اسلحے کا بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔‘

لیکن تجارتی ڈرون ملٹری ڈرونز کے مقابلے میں بہت کم صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر ’ڈی جے آئی ماوِک 3‘کی پرواز کا کل فاصلہ صرف 30 کلومیٹر ہے، اور یہ زیادہ سے زیادہ صرف 46 منٹ تک پرواز کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر میرون کہتی ہیں کہ روس ان کا مقابلہ کرنے کے لیے الیکٹرانک آلات استعمال کر رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’روسی افواج کے پاس ’سٹوپر‘ (Stupor) رائفلیں ہیں، جو برقی مقناطیسی اشاروں (electromagnetic pulses) پر ہدف پر فائر کر سکتی ہیں۔‘ ڈاکٹر میرون بتاتی ہیں کہ یہ صلاحیت کمرشل ڈرونز کو جی پی ایس (GPS) کا استعمال کرتے ہوئے نیویگیٹ کرنے سے روکتی ہے۔

روسی افواج نے تجارتی ڈرونز اور ان کے آپریٹرز کے درمیان مواصلات کا پتہ لگانے اور ان میں خلل ڈالنے کے لیے ایروسکوپ جیسے آن لائن سسٹمز بھی استعمال کیے  ہے۔

یہ سسٹمز ڈرون کو کریش کرنے یا اپنے اڈے پر واپس آنے کا سبب بن سکتے ہیں، اور اسے معلومات واپس بھیجنے سے روک سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *